• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
محرم الحرام کے پہلے عشرے کو پُرامن رکھنے کیلئے تدبیریں جاری ہیں۔ خدا کرے یہ کاوشیں کامیاب ہوں کہ لوگ زندگی کے اور دن گزار سکیں۔ قومی اسمبلی اور سینٹ میں نہ صرف آوازیں بلند ہوئی ہیں بلکہ امن و امان کی خاطر بل بھی منظور کر لئے گئے ہیں۔گزشتہ سے پیوستہ روز پشاور اور کراچی میں چند حملہ آور گرفتار ہوئے۔ بلاشبہ عوامی بھلائی میں یہ بڑی کامیابی ہے۔چودہ سو برس قبل نواسہٴ رسول جناب حسین نے جان کا نذرانہ پیش کر کے دنیا کو ایک سبق دیا تھا کہ اصولوں کی پاسداری میں جھکنے کی بجائے ڈٹ جانا چاہئے۔ اصولوں کی پاسداری کے سلسلے میں اگر وطن عزیز کے سیاستدانوں کو دیکھیں تو بہت کم ایسے ملیں گے جو اصولوں پر کار بند رہتے ہوں، جو وقت کے یزید کے سامنے نہ جھکتے ہوں۔ ہمارے ہاں سیاستدان اقتدار کے حصول کی خواہش میں نہ اصولوں کی پروا کرتے ہیں نہ کردار کی۔ اقتدار پر آنکھیں رکھنے والے لوگ، اقتدار کی چاہت میں وہ کچھ کر گزرتے ہیں ۔
ایک ہفتہ پہلے تک سیاسی موسم میں بڑی گرمی تھی اب محرم کے بعد جذبات ابھریں گے۔ ہفتہ پیشتر سیاسی جماعتیں جلسے کرتی رہیں۔ صدر آصف علی زرداری ایک عید ملن پارٹی میں گئے جو عید ملن پارٹی سے زیادہ سیاسی اجتماع تھا۔ صدر صاحب نے اس عید ملن پارٹی سے پنجابی میں خطاب کیا اور لاہور کو مسکن بنانے کا عہد کیا۔ اس عید ملن پارٹی کا اہتمام نذر محمد گوندل اور ندیم افضل چن نے کر رکھا تھا۔ پیپلز پارٹی کافی عرصے سے سوچ رہی تھی کہ عید ملن پارٹی کا اہتمام کس شہر میں کیا جائے۔ بڑی سوچ بچار کے بعد منڈی بہاؤالدین ضلع میں ملکوال کا مقام چنا گیا۔ اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ منڈی بہاؤالدین پنجاب کا وہ واحد ضلع ہے جس میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی تمام نشستیں پیپلز پارٹی کے پاس ہیں۔ عید ملن پارٹی کے روز ہی ڈپٹی وزیر اعظم چوہدری پرویز الہٰی نے وہاڑی میں سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ پچھلے کچھ عرصے سے چوہدری پرویز الٰہی بڑے کامیاب جلسے کر رہے ہیں۔عید ملن سے اگلے روز عمران خان نے میرپور آزاد کشمیر اور میاں شہباز شریف نے پیر محل ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں جلسہ کیا۔ عمران خان نے میرپور میں تاریخی جلسہ کیا اور کشمیر کا حل پُرامن طور پر نکالنے کا عندیہ دیا۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے پیر محل میں وہی پرانی باتیں کیں یعنی ”علی بابا چالیس چور“ کہا اور تھوڑی سے گلوکاری کی۔ رہے مولانا فضل الرحمن تو وہ ابھی تک سکھر کے جلسے میں مست ہیں۔ الطاف حسین نے بڑی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلام آباد میں اسرائیل کے خلاف کانفرنس کر ڈالی۔ دینی و سیاسی رہنماؤں کو اکٹھا کیا اور اسرائیلی ظلم و تشدد کی مذمت کی۔
یہ تو وہ کارروائیاں تھیں جو پچھلے دنوں ہوئیں ایک اور کارروائی باقی ہے۔ یہ کارروائی اصغر خان کیس سے متعلق ہے۔ عدالت نے دو سابق فوجی جرنیلوں کو مجرم قرار دے ڈالا مگر سیاستدانوں کے ناموں پر پردہ ڈال دیا اور کہا کہ اس سلسلے میں ایف آئی اے تحقیقات کرے۔ وہی ایف آئی اے جس کے آٹھ سربراہ موجودہ عہد میں تبدیل کئے گئے۔ جنرل بیگ نے چند اعتراضات ایسے کئے ہیں جن کا جواب ہنوز باقی ہے مثلاً وہ کہتے ہیں کہ جب عدالت نے انہیں مجرم قرار دے دیا ہے تو اب ایف آئی اے کیا کرے گی؟ ان کا کہنا ہے کہ ٹھوس دلائل کے بغیر انہیں مجرم قرار دے دیا گیا۔ انہوں نے ایک اور اہم بات کی ہے کہ فوج کا اپنا ایک کوڈ آف کنڈکٹ ہے جس کے مطابق کسی بھی جونیئر کو اس کے سینئر کا حکم ماننا پڑتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو فوج کی کمانڈ غیر مئوثر ہو کر رہ جاتی ہے۔ جنرل بیگ کی بات درست ہے اگر فوج میں ”نہ“ آجائے تو سارا کام خراب ہو جاتا ہے مثلاً کل کو اگر فوج وزیرستان میں آپریشن کرتی ہے تو دو سپاہی کھڑے ہو کر کہہ سکتے ہیں کہ دہشت گرد مسلمان ہیں لہٰذا ہم گولی نہیں چلا سکتے مگر فوج میں ایسا نہیں ہوتا، فوج میں جونیئرز کو حکم ماننا پڑتا ہے اور ایسا دنیا کی ہر فوج میں ہے۔ 1990ء میں غلام اسحاق صدر مملکت تھے، وہ سپریم کمانڈر تھے جو انہوں نے کہا جرنیل بجا لائے، وہ سربراہ مملکت کے حکم کے پابند تھے۔ سیاستدان تو کسی کے پابند نہیں تھے انہوں نے دولت کیوں لی؟ دولت کے بل بوتے پر انہوں نے الیکشن کیوں چرائے؟ پیپلز پارٹی تو دولت کے حصول میں شامل نہیں تھی نہ ہی ایم کیو ایم اس کا حصہ بنی۔ پیسے لینے والوں کا نام جتنا جی چاہے چھپایا جائے لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ وہ کون لوگ تھے۔ پاکستان تحریک انصاف کا تو اس وقت وجود بھی نہیں تھا۔ انکار کرنے والے اس وقت بھی موجود تھے۔ چوہدری برادران نے رقم لینے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ محترمہ بینظیر شہید کا مینڈیٹ چرایا گیا۔ افسوس کا مقام ہے کہ رقوم بٹورنے والے نادم بھی نہیں ہو رہے، قوم سے معافی بھی نہیں مانگ رہے۔ اس بات کا اقرار بھی نہیں کر رہے کہ ہم نے قوم کے ساتھ دھوکہ کیا، الیکشن چرائے اور خفیہ اداروں سے رقوم وصول کیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے درست مطالبہ کیا ہے کہ ایسے سیاستدانوں کے الیکشن لڑنے پر پابندی لگائی جائے جنہوں نے آئی ایس آئی سے رقم حاصل کی تھی، ان کی سیاسی سرگرمیوں پر بھی پابندی لگائی جائے۔ عمران خان کا مطالبہ جائز ہے بلکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ جن سیاستدانوں نے 90ء میں رقم حاصل کی تھی ان پر مستقل پابندی لگا کر انہیں تاحیات نااہل قرار دے دیا جائے تاکہ آئندہ کسی کو مینڈیٹ چرانے کی جرأت نہ ہو۔
ویسے آپس کی بات ہے کہ ایسے سیاستدانوں کو چاہئے تھا کہ وہ اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے قوم سے معافی مانگتے، اخلاقیات کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو سیاست سے الگ کر لیتے۔ عابدہ حسین کی طرح اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ۔ حیرت ہے کہ بے اصولیاں کرنے والے آج بھی سیاست کے میدان میں ڈھٹائی سے زندہ کردار بنے ہوئے ہیں۔ 1990ء کے انتخابات کے نتیجے میں جس کسی کو وزارت عظمیٰ اور وزارت عالیہ نصیب ہوئی تھی اخلاقی طور پر انہیں خود کو نااہل تصور کرنا چاہئے۔ میڈیا کو چاہئے کہ وہ سیاست کی کالی بھیڑوں کو بے نقاب کرے ۔ میڈیا فیشن کے طور پر فوج اور آئی ایس آئی پر تنقید کرتا ہے۔ ریاستی اداروں کے بارے میں یہ رویہ انتہائی نامناسب ہے ۔ انہیں حالات کو حقائق کی آنکھ سے دیکھنا چاہئے۔ جہاں تک رقوم بٹورنے والے سیاستدانوں کا تعلق ہے تو انہیں سیاست کا بے رحم آئینہ اخلاقی جواز فراہم کرنے سے قاصر ہے ۔
تازہ ترین