• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چیف جسٹس نے کہا ہے: حکومت نے سیاسی جماعتوں کے عسکری گروپ ختم کرنے کے حکم پر عمل نہیں کیا۔
اگر تحریر موج مستی کے ساتھ راز ہائے ہستی بھی سکھائے تو قلم ایک جہان رنگ وآہنگ آباد کر دے۔ خوبصورت معنی خیز انداز گفتگو اور طرز تحریر اگر ہنسی کا سامان بھی پیدا کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ لوگ” ہم خرما و ہم ثواب“ سے شاد کام نہ ہوں یہ تو تھا ایک جملہ، معترضہ قلم نے کہا قلم نے لکھ دیا۔ بات ہے عدالت عظمیٰ کی بات پر عملدرآمد نہ کرنے کی، جب تک عدلیہ کو اس کی مرضی سے کام نہیں کرنے دیا جاتا رہا، اور اسے دولت کی چاٹ بھی لگائی جاتی رہی تو بات اور تھی، اب تو اعلیٰ عدلیہ نے عدل کی مثالیں قائم کر دی ہیں،جن کی تقلید زود یا بدیر نچلی عدالتوں کو بھی کرنا ہو گی،آخر اس تجاوز کا کیا جواز ہے کہ سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے عسکری گروپ رکھے ہوئے ہیں۔ جن کی آتشبازی کے کئی مظاہرے الیکٹرانک میڈیا دکھا بھی چکا ہے، کیا ووٹ بندوق کی نوک پر حاصل کرنا ہیں، کیا ایسی بارودی جمہوریت آمریت سے کم ہو گی؟۔ اگر سیاسی پارٹیاں اپنے عسکری گروپ ختم کر دیں تو اس کا مثبت اثر کراچی بلوچستان اور پورے ملک میں آکاس بیل کی طرح پھیلتی دہشت گردی پر بھی پڑے گا۔ یہ اپنے ہی ملک میں اپنے ہی لوگوں کے لئے اتنا اسلحہ اکٹھا کرنا تو ایسے ہے کہ ایک نوجوان کو اپنی نانی سے بے تحاشا پیار تھا، ایک روز نانی کے ناک پر مکھی بیٹھ گئی، پوتے نے آؤ دیکھا نہ تاؤ بندوق سے شست باندھ کر مکھی کو مار ڈالا۔ چرچل کی بات یاد آتی ہے کہ جب تک برطانیہ کی عدالتیں صحیح کام کر رہی ہیں برطانیہ کو کوئی خطرہ نہیں، عدالت بہت مضبوط حصار ہے۔ اپنے ملک کو اس سے سیسہ پلائی دیوار بنایا جا سکتا ہے۔ یہ نہ ہو کہ بزرجمہان سیاست کو ایسی حالت سے بھی دوچار ہونا پڑے۔
اس رنگ سے اٹھائی کل اُس اسد کی لاش
دشمن بھی جس کو دیکھ کے غمناک ہو گئے

دنیا میں 2011 میں موت کے سب سے زیادہ فیصلے پاکستان میں ہوئے عمل ایک پر نہیں ہوا۔
جہاں مرنے جینے نہ دیا جائے وہاں موت کے فیصلوں پر عمل کیسے ہو، ابھی تازہ خبر ہے، کہ بھارت نے ایک پاکستانی اجمل قصاب کو موت کی سزا سنائی اور عمل بھی کر ڈالا، گویا اس لحاظ سے بھارت کو سزائے موت پر عمل کرنے کی ”فضیلت“ بھی حاصل ہو گئی، صدیوں سے سزائے موت دی جا رہی ہے، لیکن کیا دست قاتل رک گیا ہے؟ انسان کو اگر اچھی تربیت، اچھا ماحول فراہم کیا جائے تو وہ قتل کرے نہ پھانسی چڑھے، امریکہ جو انسانیت اور اس کی جملہ اداؤں کا محافظ کہلاتا ہے سزائے موت تو وہاں بھی ہے، مگر ذرا ”وکھرے“ ٹائپ کی، بجلی کی کرسی، زہر کاٹیکہ، یہ ہیں وہ امریکی وسائل موت جو وہ استعمال کرتا ہے، اور عافیہ صدیقی کو ایسی سزائے موت دی کہ نہ وہ جی سکتی ہے نہ مر سکتی ہے البتہ تڑپ تڑپ کر جان دے دے گی کہ 86 برس قید کی کون انتہاء لایا۔
لگتا ہے انسانی معاشرت نے یہ مسلک اختیار کر لیا ہے
رونق ہستی ہے، عشقِ خانہ ویراں ساز سے
انجمن بے شمع ہے، گر برق خرمن میں نہیں
یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان میں 44 فیصد سزائے موت کے قیدی موت کے منتظر ہیں، ویسے تو ہمارے ہاں عید قربان پر بکرے کو بھی جلد از جلد ذبح کرنے پر زور دیا جاتا ہے، اور قصائی سے کہا جاتا ہے کہ چھری ٹھیک سے پھیرو کہ بکرے کو تکلیف نہ ہو لیکن 44 فیصد ”بکرے“ کیوں تڑپائے جا رہے ہیں، یہ رپورٹ تو 2011 کی ہے، 2012 میں اس کا گراف کہاں تک پہنچا ہو گا۔ اگر انسانی بچے کو ماں کی آغوش ہی سے اچھی تربیت ملے تو پھانسی دینے کی نوبت نہ آئے۔ بلکہ کئی اور نوبتیں بھی پیش نہ آئیں۔

یوسف رضا گیلانی فرماتے ہیں: چیف جسٹس ہاؤس کو روزانہ سلام کر کے سندھ ہاؤس سے نکلتا ہوں۔
زہر ملتا ہی نہیں مجھ کو ستم گر ورنہ
کیا قسم ہے ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں
یہ سلام، سلامِ خوف تو نہیں، یا پھر یہ واقعی سلام ادب ہے، یا پھر یہ معاملہ ہے
گیلانی بھی کیا خوب ہیں معزول ہوئے جس کے سبب
پھر اسی قصرِ عدالت کو سلام کرتے ہیں۔
یوسف رضا گیلانی اگرچہ یوسف تو نہیں لیکن ان کے ہم نام تو ہیں، اس لئے ان کے نام کے اثرات ان پر نافذ رہیں گے قید کاٹی، اقتدار سے بصد سامان عز و شرف رخصت کئے گئے، ہمیں ان کے نام کی رعایت سے حافظ کا یہ نادر شعر یاد آیا
یوسف از پاکیٴ داماں خود بزنداں می رود
بے گناہی کم گنا ہے نیست در دیوانِ عشق
(تو اپنی ”پاک دامنی“ کے باعث خود ہی جیل گیا، واقعی بے گناہی بھی عشق کی سرکار میں کوئی گم گناہ نہیں)
زرداری کے پاس ایسا طلسم ہوشربا ہے کہ بکرے خود سوئے قصاب رواں ہوتے ہیں، بہر صورت یہ بڑی اچھی بات ہے، کہ گیلانی صاحب عدالت عظمیٰ کو روزانہ سلیوٹ کر کے تو اپنی رہائش گاہ سے نکلتے ہیں، اب یہ نہ ہو کہ سندھی ٹوپی پھر سے آڑھی ترچھی ہو جائے اور ناچار کہنا پڑے #
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور

ٹینس سٹار ثانیہ مرزا نے بھارتی فلم میں کام کرنے کی آفر مسترد کر دی۔
وہ عالمی شوز میں فیشن شوز کے ویمپ پر کیٹ واک کرتی رہی ہیں۔
ثانیہ مرزا شعیب کی بیوی بن کر بھی ثانیہ شعیب نہ بن سکی، لیکن وہ خوبصورت بلی بن کر شائقین لباس و ڈیزائن کو اپنے بدن کے زور پر ضرور محظوظ کرتی رہتی ہے۔ اگر یہ ہو سکتا ہے تو پھر بالی وڈ تو اگلا سٹیشن ہے، اور ان کی گاڑی اتنی تیز رفتار ہے کہ ابھی شعیب پچھلے سٹیشن پر ہو گا کہ وہ منزل مراد تک پہنچ چکی ہوں گی۔ یہ بڑی اچھی بات ہے، کہ خواتین کو کھیل کے میدان میں داخل کیا جائے، کیونکہ ہمارے ہاں 80 فیصد خواتین گھروں کے ڈربوں میں بند غٹر غوں غٹر غوں کرتی رہتی ہیں، ہمارے پیغمبر علیہ اسلام اپنی زوجہ عائشہ صدیقہ کے ساتھ دوڑ لگاتے اور بالعموم عائشہ آگے نکل جاتیں، خدا جانے ہمارے ہاں یہ مذکر مونث کا فوبیا کب تک جاری رہے گا۔ عورت فلاں کام کر سکتی فلاں نہیں کر سکتی، جب وہ انسان کو جنم دے سکتی ہے تو وہ کچھ بھی کر سکتی ہے۔اگر خواتین کو آزادی دی بھی تو کچھ اس طرح
عورت نے جنم دیا مردوں کو
مردوں نے اسے بازار دیا
ثانیہ اگر پاکستانیہ بن جائیں تو یہاں بھی کئی ثانیائیں پیدا ہوں، شعیب بے چارہ کیا کہتا ہو گا
آ جاؤ تڑپتے ہیں ارماں
اب رات گزرنے والی ہے
تم خوش ہو وہاں ہم تڑپیں یہاں
سلگتے ہیں ارماں اب رات گزرنے والی ہے
منٹو نے سچ ہی کہا تھا کہ ہمارے اعصاب پر عورت سوار نہ ہو تو کیا گھوڑے ہاتھی سوار ہوں عورت کو تعلیم نہ دینا، گھر میں بند رکھنا، بن دیکھے دکھائے کسی کے پلے باندھ دینا، اور یہاں تک کہ قرآن سے شادی کرنا کیسی ستم ظریفی ہے گویا ہم نے قرآن کا خوب استعمال کیا۔ عورت کوتازہ آکسیجن میں لانا چاہئے، اگر ہمارے ہاں بدامنی ہے تو وہ اپنے محرم کے ساتھ باغوں میں بہاروں میں اٹھکیلیاں کر سکتی ہے۔
تازہ ترین