• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منگل کے روز وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت منعقدہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں حکومت کے ابتدائی سو دنوں کے ایجنڈے پر اب تک کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے مزید اہم فیصلے کئے گئے۔ مبصرین کے خیال میں یہ فیصلے اچھے نتائج دے سکتے ہیں بشرطیکہ ان پر پوری تندہی سے عمل کیا جائے اور برسوں سے زنگ آلود محسوس ہونے والی سرکاری مشینری فعال نظر آئے۔ مذکورہ فیصلوں کا مقصد تحریک انصاف کے اس منشور پر عمل کے لئے متعین راستوں پر پیش قدمی کرنا بتایا جاتا ہے جو تبدیلی کے نعرے اور دعوے کے ساتھ پیش کیا گیا۔ مرکزی کابینہ نے مختلف شعبوں میں اصلاحات کرنے، جنوبی پنجاب صوبہ قائم کرنے اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کو صوبہ خیبر پختونخواہ میں ضم کرنے کی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے چھ کمیٹیاں تشکیل دیں۔ اجلاس کے بعد وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے جو بریفنگ دی، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کابینہ نے انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے ڈائریکٹر جنرل اور انسداد دہشت گردی اتھارٹی (نیکٹا) کے سربراہ کے تقرر کا فیصلہ بھی کیا۔ اجلاس میں کئے گئے فیصلوں کو اگرچہ عمومی طور پر سراہا جارہا ہے مگر بعض حلقے انتخابات سے قبل پی ٹی آئی کے سو ابتدائی دنوں کے پیکیج کے اعلان کے وقت سے اس کی کامیابی پر شکوک کا اظہارکرتے رہے ہیں۔ یہ بات بہرطور محسوس کی جارہی ہے کہ 25؍جولائی کے انتخابات کے فوراً بعد سے پاکستان تحریک انصاف اپنے انتخابی منشور کا اعادہ بھی کررہی ہے، اسے روبہ عمل لانے کے وعدے پر قائم بھی ہے اور عمران خاں اپنی ٹیم سمیت خاصے متحرک بھی ہیں۔ منشور پر عملدرآمد سے متعلق فیصلوں کا کابینہ سے منظور کرایا جانا قانونی ضرورت تھا مگر بعض حلقوں کا خیال ہے کہ کئی دیگر ممالک میں جس طرح سیاسی پارٹیوں کی ٹاسک فورسز مسلسل کام کرتی رہتی ہیں، اسی طرح وطن عزیز میں بھی خود کو متبادل حکومت تصور کرتے ہوئے اپوزیشن پارٹیوں کی ٹاسک فورسز مطالعے، تحقیق اور درست اعداد و شمار کے ساتھ اپنی رپورٹیں تیار کرنے اور انہیں اپ ڈیٹ کرتے رہنے کا طریقہ اختیار کریں۔ اس طرح ان پارٹیوں کے لئے حکومت میں آنے کے فوراً بعد کام کا آغاز کرنا آسان ہوسکتا ہے۔ پی ٹی آئی کے بعض رہنمائوں کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے منشور پر عمل درآمد کے لئے پہلے سے تیاریاں کرتے رہے ہیں۔ اس کے باوجود ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں اپنے فیصلوں کو روبہ عمل لانے کے لئے احتیاط کے پہلو کو ملحوظ رکھنا اور تیزی سے حرکت میں آنا ہوگا تاکہ جس عام آدمی نے اس حکومت سے بہت سی توقعات وابستہ کرلی ہیں، اسے مایوسی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ منگل کے روز منعقدہ اجلاس میں وفاقی کابینہ نے جنوبی پنجاب صوبے کے قیام پر بھی غور کیا اور اپوزیشن کی بڑی پارٹیوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے بات چیت کے لئے ایک ٹاسک فورس قائم کی ۔ نئے صوبے کا قیام ایسا معاملہ ہے جس میں بہت سی انتظامی تبدیلیوں کی ضرورت تو ہوگی ہی، لیکن سب سے پہلے آئین کے مطابق بنیادی قانونی ضرورتیں پوری کرنا ہوں گی۔ تحریک انصاف کی قیادت میں قائم مخلوط حکومت کو قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں قانون سازی کے لئے دو تہائی اکثریت کی حمایت درکار ہوگی جو دوسری پارٹیوں کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ جنوبی پنجاب کا قیام تحریک انصاف کے منشور کا اہم نکتہ ہے اور صوبہ پنجاب کے وزیر اعلٰی کے منصب کے لئے عثمان بزدار کے تقرر کے فیصلے کی ایک بڑی وجہ بھی یہی سمجھی جاتی ہے کہ اس ریجن کے لوگوں میں یہ اعتماد پیدا ہو کہ ان کے حالات میں بہتری لانے کے لئے پوری سنجیدگی سے کام کیا جارہا ہے۔ ماضی میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی قیادتوں کی طرف سے جنوبی پنجاب صوبے کے حوالے سے بیانات سامنے آتے رہے ہیں۔ مگر وفاقی و صوبائی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت سے قانون سازی کرنا ایسا مرحلہ ہے جسے سر کرنے کیلئے موجودہ حکومت کو خاصی محنت کرنا ہوگی۔ جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے لئے پارلیمانی حمایت حاصل کرنے کی ذمہ داری وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر منصوبہ بندی خسرو بختیار کو سونپی گئی ہے جو مطلوب قانون کیلئے پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) سے رابطے قائم کریں گے جبکہ ٹاسک فورس ایسی سفارشات بھی تیار کرے گی جن کے ذریعے ابتدائی سو دنوں میں واضح طور پر نتائج سامنے آتے نظر آئیں۔ وزیر اطلاعات کی بریفنگ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وفاقی وزیر قانون و انصاف فروغ نسیم کی سربراہی میں قائم کی گئی ٹاسک فورس نیب قوانین کو مزید موثر بنانے کے لئے اپنی سفارشات دے گی۔ اس باب میں ملکی قوانین کے بعض نقائص دور کرنے ، خاص طور پر پلی پارگیننگ کا طریق کار ختم کرنے پر زور دیا جاتا رہا ہے۔ دیگرملکوں سے معاہدے کرنے کی ضرورت کی بھی عرصے سے نشاندہی کی جاتی رہی ہے۔ ایک کروڑ لوگوں کو نوکریاں دینے اور 50لاکھ گھروں کی تعمیر کے اعلان پر عملدرآمد کے لئے قائم کی گئی ٹاسک فورس 90دن میں اپنی منصوبہ بندی اور دیگر امور پر رپورٹ دے گی۔ اس ضمن میں بتایا گیا ہے کہ ایک کروڑ لوگوں کو سرکاری نوکریوں میں نہیں کھپایا جائے گا بلکہ روزگار کے دیگر مواقع پیدا کئے جائیں گے۔ سی پیک منصوبے کے جائزے کے دوران مفصل بریفنگ کی ضرورت محسوس کی گئی۔ اس منصوبے میں توانائی کے لئے 22؍ارب ڈالر اور دیگر اسکیموں کے لئے 46؍ارب ڈالر شامل کئے گئے ہیں۔ انسداد دہشت گردی سے متعلق ٹاسک فورس بھی 90دن میں اپنی تجاویز پیش کردے گی۔ ایک کمیٹی اس لئے قائم کی گئی کہ فاٹا انضمام کا عمل تیز کیا جاسکے۔ کابینہ کے اس فیصلے پر ملازمت پیشہ افراد نے یقیناً سکون کا سانس لیا ہوگا کہ کنٹریکٹ پر کام کرنے والے کسی افسر کو فارغ نہیں کیا جائے گا۔ موسمیاتی حالات بہتر بنانے کے لئے 192مقامات پر شجرکاری کی اسکیم کی جزئیات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ یہ بات اطمینان بخش ہے کہ وزیر اعظم عمران خاں ہر 15دن بعد ٹاسک فورسز کے امور کا جائزہ لیا کریں گے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت اپنے منشور میں کئے گئے وعدوں کی تکمیل کی سمت میں تیزی سے گامزن ہے جبکہ افسروں کے تقرر کے حوالے سے بھی یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ عمران خاں بہترین بیورو کریٹس کی ٹیم تشکیل دے رہے ہیں۔ یہ سب باتیں ایک کسان کو، مزدور کو، چھوٹے تاجر کو اس وقت زیادہ اچھی لگیں گی جب وہ اپنی روزمرہ زندگی میں آسانی محسوس کرے گا۔

تازہ ترین