• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقوام متحدہ بھی خوب ادارہ ہے۔

امریکہ کے ہاتھوں یر غمال۔ چند بڑی طاقتوں کی تفریح گاہ۔

اقبال نے ٹھیک ہی کہا تھا:

بہر تقسیم قبور انجمنے ساختہ اند

قبروں کی تقسیم کے لیے انجمن بنائی گئی ہے

مظلوم کشمیریوں سے پوچھ لیں۔ یو این او کی اوقات۔ ہر لمحہ جدو جہد میں مصروف فلسطینیوں کے لہو سے سوال کرلیں کہ اقوام متحدہ کیا ہے۔ وہ ادارہ جو 1948میں منظور کی گئی اپنی ہی قرار دادوں پر عملدرآمد میں ناکام رہا ہے۔ اس سے وفا کی کیا اُمید ۔ اربوں ڈالر کے اخراجات ہیں۔ مگر جن چھوٹی قوموں کے لیے یہ تشکیل دی گئی تھی ان کے مسائل ہی حل نہیں ہوتے۔ کبھی کسی جارح کا ہاتھ نہیں روک سکی۔ سیکورٹی کونسل میں بڑی طاقتوں کو ویٹو کا اختیار ملا ہوا ہے۔ ان کی پسند کی بات نہ ہو تو وہ سر ہلادیتے ہیں۔ باقی ارکان سر جھُکادیتے ہیں۔

ہر سال ستمبر میں اس کی جنرل اسمبلی کا اجلاس ہوتا ہے۔ پاکستان سمیت تمام چھوٹے ممالک۔ مقروض ریاستیں۔ مجبور مملکتیں اس میں شرکت کے لیے بے تاب ہوتی ہیں۔ امریکہ یاترا کا سنہری موقع ملتا ہے۔ اس سفر پر کروڑوں روپے خرچ ہوجاتے ہیں۔ نتیجہ ہمیشہ صفر۔ اپنے اپنے ملک کے میڈیا۔ ٹی وی۔ اخبارات میں ایسے خبریں نشر کرائی جاتی ہیں جیسے صدر یا وزیرا عظم تمام قوموں کو زیر کرکے آئے ہوں۔ہمارے ہاں ہر سال خبر میں یہ نکتہ ضرور ہوتا ہے کہ صدر یا وزیر اعظم نے پوری دُنیا کے سامنے مسئلہ کشمیر اٹھادیا۔اب یہ خبر گردش کررہی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اس دورے کے لیے صرف چار افراد کو لے جائیں گے۔ پہلے کی طرح پورا جہاز نہیں ہوگا۔ بہت بڑا وفد نہیں جائے گا۔ یہ اچھی بات ہے۔ میرے خیال میں تو خود وزیرا عظم کو بھی نہیں جانا چاہئے۔ملک کے اندر اتنے سنگین مسائل ہیں جو ضروری توجہ چاہتے ہیں۔ اقوام متحدہ میں ایک تقریر اور کچھ ایسے ہی مسائل سے دو چار سربراہان مملکت سے ملاقاتوں سے کہیں زیادہ اہم پاکستان کی معیشت کوپٹری پر واپس لانا ہے۔

وزارتِ خارجہ کا ہمیشہ یہ معمول رہا ہے کہ وہ نئی حکومت کے سربراہ کے لیے اس قسم کے مواقع میں شرکت ۔ ان کے مثبت نتائج کی امکانی رپورٹیں دکھاکر انہیں غیر ملکی دوروں پر آمادہ کرتی ہے۔ خارجہ پالیسی کہیں اور طے ہوتی ہے۔ وزرائے اعظم سیر سپاٹے سے ہی خوش رہتے ہیں۔پی آئی اے والوں کی بھی یہ روایت رہی ہے کہ جب کوئی نیا سربراہ آتا ہے۔تو اسے ایئر ہوسٹوں کی نئی یونیفارم کے خوش نُما معاملے میں مصروف کردیتے ہیں۔ مختلف یونیفارموں کا مقابلۂ حسن ہوتا ہے۔ ایم ڈی یا چیئرمین اپنے دائیں بائیں حسین پیکر دیکھ کر اپنے آپ کو راجہ اندر سمجھنے لگتا ہے۔ان دنوں ساری وزارتیں ایسی امکانی رپورٹیں تیار کرنے میں مصروف ہیں۔

کئی دوسرے صحافیوں اور ایڈیٹروں کی طرح میں بھی اس گناہ میں شریک رہا ہوں۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی رپورٹنگ کا بڑا اشتیاق رہا ہے۔ پیشہ ورانہ لحاظ سے یہ یقیناََ اہم ہے کہ و قت سے مقابلہ ہوتا ہے۔ نیویارک 10گھنٹے پیچھے ہے۔ وہاں دن ہوتا ہے۔ یہاں اخبار پریس میں جانے والا ہوتا ہے۔ تقریر کس وقت ہوتی ہے اس کی خبر بنانا اور اپنے اخبار تک پہنچانا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم پر قوم کا کتنا پیسہ خرچ ہوا ہے۔ جھوٹ اور ڈس انفارمیشن بھی ان ڈسپیچوں کا لازمی حصّہ ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ پاکستان کے مستقل مندوب کا پریس اٹیچی ہر لحظہ آپ کو خوش رکھنے کے لیے مشغول۔ اسی میں آپ سے خبر میں اپنی مرضی کے جملے بھی شامل کروالیتا ہے۔

اب تک یہ دستور رہا ہے ۔ اس کی کیا آئینی اور قانونی رموز ہوسکتی ہیں۔ یہ وزیر قانون اور وزیر خارجہ بتاسکتے ہیں کہ ہمارے وزیر اعظم چارٹرڈ طیارہ لے کر جاتے رہے ہیں۔ صحافی بھی اسی سرکاری وفد کا حصّہ ہوتے ہیں۔ صدر کمرشل فلائٹ سے جاتے ہیں۔ صحافیوں کو الگ سے مختلف پروازوں سے بھیجا جاتا ہے۔ یہ بھی باور کروایا جاتا ہے کہ صحافی اپنے خرچ پر جارہے ہیں۔ اپنے خرچ پر ٹھہر رہے ہیں۔وزیر اعظم کے ساتھ جانے والے اسی ہوٹل میں ٹھہرتے ہیں۔ جہاں وزیر اعظم قیام پذیر ہیں۔

نیو یارک میں پی آئی اے کا اپنا ایک ہوٹل ہے۔ بہت روایتی۔ بہت قیمتی اور مرکزی علاقے میں روز ویلٹ۔ زیادہ تر پاکستانی صدور اور وزیرا عظم یہیں ٹھہرتے رہے ہیں۔ لیکن بعض زیادہ پیسے والے صدر۔ وزیرا عظم کسی زیادہ مہنگے ہوٹل کو ترجیح دیتے رہے ہیں۔ وہ خرچہ یہ غریب پاکستان ہی برداشت کرتا ہے۔اس جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی کیا افادیت ہے۔ سرد جنگ کے زمانے میں تو اس کا یقیناََ فائدہ تھا کہ کمیونسٹ بلاک اور آزاد نیا بلاک کے ممالک کو ایک دوسرے کے خلاف بولنے کا موقع مل جاتا تھا۔ اب یہ زیادہ تر بے نتیجہ اور کار لا حاصل ہی نظر آتا ہے۔اقوام متحدہ کے صحت۔ تعلیم اور سماجی خدمات کے جو پروگرام ہیں اس سے بھی اس اجلاس کا کوئی خاص واسطہ نہیں ہوتا ہے وہ تو مختلف ممالک سال بھر رابطے میں رہتے ہیں۔ بڑے تنازعات طے کرنے میں بھی اس اجلاس کا کوئی کردار نہیں ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے جس خطاب کے لیے ایک ملک کروڑوں روپے خرچ کرتا ہے اس کا عالم یہ ہوتا ہے ۔ میں 1974سے دیکھتا آرہا ہوں کہ مختلف ملکوں کے سربراہ اپنے وقت مقررہ پر تقریر کے لیے پہنچتے ہیں۔ ان کے وفد کے سرکاری ارکان ان کے ساتھ ہال میں مخصوص نشستوں پر بیٹھتے ہیں۔ یہ سربراہ تقریر کرکے چلے جاتے ہیں ۔ ساتھ ہی اسٹاف بھی۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کسی ایک سربراہ کی تقریر سننے کے لیے دوسرے سربراہ بھی ہال میں موجود ہوں۔ مگر اپنے اپنے ملک میں اس تقریر کو عالمی سربراہوں سے خطاب بتایا جاتا ہے۔ پاکستان کے صدور۔ اور وزرائے اعظم کو ہم نے دیکھا کہ وہ جب تقریر کے لیے آئے تو کوئی سربراہ بھی نہیں تھا۔ اقوام متحدہ میں مستقل مندوبوں کا اسٹاف بیٹھا ہوتا ہے۔وہ ان تقریروں کے نکات بھی درج کرتا ہے یا نہیں یہاں اخبارات میں شہ سرخی ہوتی ہے۔ جھلکیاں بھی۔ غریب ہم وطن یہ سمجھتے ہیں کہ جب ہمارے وزیر اعظم تقریر کررہے تھے تو ان کے سامنے صدر امریکہ۔ وزیرا عظم برطانیہ۔ صدر چین۔ صدرفرانس۔ وزیر اعظم بھارت۔ سعودی شہنشاہ۔ ہمہ تن گوش ہوں گے۔ کیا زبردست تقریر کی ہے۔ کتنی جراتمندانہ۔ یہ خبر بھی اکثر چلائی جاتی ہے کہ جب ہمارے وزیر اعظم نے مسئلہ کشمیر اٹھایا تو بھارتی وفد ہال سے واک آئوٹ کرگیا۔ بے چارے پاکستانی اس واک آئوٹ کو اپنی فتح خیال کرلیتے ہیں۔امریکہ کے اخبارات میں ہمارے صدور اور وزرائے اعظم کی سنگل کالم خبر بھی نہیں چلتی۔

جنرل اسمبلی کے اجلاس کا ایک اور اہم مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ یہاں پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کی ملاقات کروائی جاتی ہے۔ اس کی تشہیر بھی خوب ہوتی ہے۔ دونوں ملکوں کے صحافی کسی بڑی خبر کے لیے بے تاب ہوتے ہیں۔ یہ بھی ایک ڈرامہ ہے۔ دونوں ملکوں کے سربراہ اگر واقعی اپنے مسائل پر بات کرکے انہیں حل کرنا چاہتے ہیں۔تو یہیں چند میل کا فاصلہ طے کرکے دہلی میں بیٹھ سکتے ہیں۔ یا اسلام آباد میں۔ جنوبی ایشیا کے معاملات طے کرنے کے لیے دس ہزار میل دور جانا ضروری تو نہیں ہے۔ایسے ممالک جو اپنے شہریوں کی زندگی آسان بنائے۔ انہیں با عزت روزگار دینے۔ پینے کے لیے صاف پانی فراہم کرنے کے لیے حقیقت میں مخلص ہیں۔ وہ اس اجلاس میں رسمی شرکت کے لیے اپنی وزارتِ خارجہ کے چند افسر بھیج دیتے ہیں۔سربراہان مملکت اپنے ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف رہتے ہیں۔

ایسے حکومتی سربراہ جنہیں باگ ڈور سنبھالے ابھی دو ماہ بھی نہیں ہوئے۔ وہ اس ڈرامے یا سرکس میں شرکت کے لیے وقت اور سرمایہ ضائع نہیں کرتے۔ کیونکہ ان سے سوال ہوسکتا ہے۔

تو دردن درچہ کردی کہ برون خانہ آئی

(اپنے گھر میں کیا بہتری لائی ہے کہ گھر سے باہر آئے ہو)

تازہ ترین