• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نوزائیدہ حکومت کو لڑکھڑاتا دیکھ کر امیتابھ بچن کی ایک پرانی فلم ’’مجبور‘‘ کے مشہور زمانہ گانے کے بول یاد آتے ہیں اورکشور کمار کی جادوئی آواز کانوں سے ٹکرانے لگتی ہے:

آدمی جو کہتا ہے آدمی جو سنتا ہے ،زندگی بھر وہ صدائیں پیچھا کرتی ہیں

آدمی جو دیتا ہے آدمی جو لیتا ہے،زندگی بھر وہ دعائیں پیچھا کرتی ہیں

گانے کی دُھن تبدیلی کئے بغیر شاعری میں معمولی سی تحریف کرلی جائے ’’سنتا ہے‘‘ کو ’’کرتا ہے‘‘ جبکہ ’’دعائیں ‘‘ کو ’’بددعائیں ‘‘ کر لیا جائے تو ریمکس گانا زیادہ مزیدار ہو سکتا ہے۔چند روز پہلے تک ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ نئے پاکستان میں وزیراعظم کہاں رہائش پذیر ہونگے ۔خدا خدا کرکے یہ پہیلی سلجھتی دکھائی دی تو اب یہ معمہ حل ہونے میں نہیں آرہا کہ وزیراعظم بنی گالہ سے ایوان وزیراعظم کیسے جائیں ؟ماہرین ہوابازی کے ذریعے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ان دونوں جگہوں کا فاصلہ ناٹیکل مائلز میں کتنا ہے اور ہیلی کاپٹر کے اڑان بھرنے پر کتنے اخراجات آئیں گے ؟قبلہ فواد چوہدری نے ہیلی کاپٹر پر سفر کے اخراجات کو 50-55روپے فی کلومیٹر قرار دیکر موٹرسائیکلوں اور کاروں کی مارکیٹ کریش کر دی ہے کیونکہ اب ہر کفایت شعار شخص ہیلی کاپٹر خریدنے کا سوچ رہا ہے ۔یقیناََ یہ نان ایشوز ہیں ،مصنوعی کفایت شعاری اور سادگی سے متعلق یہ ڈھکوسلے بہت دیکھے ہیں ہم نے ۔وزیراعظم ہوں یا وزیراعلیٰ ،انہیںہیلی کاپٹرز ،پرتعیش گاڑیاں اور دیگر سہولتیں اس لئے دی جاتی ہیں کہ وہ عوام کو آسانیا ں فراہم کر سکیں ۔اگر کوئی وزیراعظم بلامبالغہ سائیکل پراپنے دفتر آئے اور وزیراعظم ہائوس کے بجائے شاہراہ دستور پر خیمہ لگا کر رہائش پذیر ہو لیکن عوام کے مسائل حل نہ کرسکے تو اس کی یہ سادگی کس کام کی ؟لیکن یہ باتیں اس لئے موجودہ حکومت کا تعاقب کرر ہی ہیں کہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے انہیںبڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ،کہا گیا!ہم اقتدار میں آکر گورنر ہائوس گرا دیں گے ،وزیراعظم ہائوس کو یونیورسٹی بنا دیں گے ،ہیلی کاپٹر کو رکشے کی طرح استعمال نہیں کریں گے ۔اور طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ حکومت میں آنے کے بعد بھی ان کھوکھلے نعروں سے جان چھڑانے کی کوشش نہیں کی گئی بلکہ یہ کہہ کر توقعات اور امیدوں کے پہاڑ کھڑے کر دیئے گئے کہ وزیراعظم سیکرٹریٹ میں موجود 80میں سے صرف دو گاڑیاں وزیراعظم کے استعمال کے لئے رکھی جائیں گی جبکہ باقی گاڑیاں نیلام کر دی جائیں گی ۔وزیراعظم کے لئے صرف دو ملازم دستیاب ہوں گے جبکہ باقی سب کو فارغ کر دیا جائے گا ۔ان غیر حقیقی اعلانات اور پھر ہیلی کاپٹر استعمال کرنے کے بعد پیش کی گئی مضحکہ خیز تاویلات کے بعد میڈیا کیسے چپ رہ سکتا ہے ۔

عمران خان لٹھ لیکر جن عوامی نمائندوں کے پیچھے پڑے ہیں ،وہ بیچارے تو مہمانوں کی طرح آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں اس ملک کے سیاہ و سفید کی اصل مالک تو وہ افسر شاہی ہے جس نے ملکی خزانے کو ذاتی جاگیر سمجھ رکھا ہے ۔چاروں گورنر ہائوس ،وزیراعظم سیکرٹریٹ اور ایوان صدر تو ملکی وقار اور تشخص کی علامت ہیں ۔غیر ملکی مہمانوں اور سفارتی وفود کی آمد کے پیش نظر ان کی ضرورت رہتی ہے مگر بیوروکریسی نے اپنے لئے جو محلات تعمیر کر رکھے ہیں ان کی کیا توجیہہ پیش کی جا سکتی ہے؟کمشنر سرگودھا کی سرکاری رہائش گاہ 104کنال پر محیط ہے اور اس کی دیکھ بھال کے لئے کم از کم 33ملازمین تعینات ہیں ۔ایس ایس پی ساہیوال کی کوٹھی کا رقبہ 98کنال ہے ،ڈی سی او میانوالی 95کنال کے پرتعیش سرکاری گھر میں رہتے ہیں ،ڈی سی او فیصل آباد کے لئے 92کنال کا وسیع و عریض بنگلہ مختص ہے ،کمشنر بہاولپور 72کنال کے سرکاری گھر میں رہائش پذیر ہیں ،ای ڈی او شیخوپورہ کی سرکاری رہائشگاہ کا رقبہ 64کنال ہے ،ڈی سی او گوجرانوالہ 55کنال کے وسیع و عریض سرکاری گھر میں اقامت پذیر ہیں ،ڈی سی او سیالکوٹ کی سرکاری رہائشگاہ 50کنال پر محیط ہے اور راولپنڈی کا ڈی سی او ہائوس جسے چند برس قبل چھوٹا کرکے اس میں یونیورسٹی بنائی گئی ،اس کارقبہ اب بھی 40کنال ہے ۔پنجاب پولیس کے افسروں کے لئے شاہانہ رہائش گاہوں کا بندوبست کیا گیا ہے ۔پنجاب کے مختلف اضلاع میں موجود 7ڈی آئی جیز اور 32ایس ایس پیز کی سرکاری رہائشگاہوں کا مجموعی رقبہ 860کنال بنتا ہے اس حساب سے ہر گھر کااوسطاً رقبہ 20کنال بنتا ہے جبکہ ڈی آئی جی گوجرانوالہ اور ایس ایس پی میانوالی کی سرکاری رہائشگاہیں 70,70کنال پر محیط ہیں۔ان سب کی تفصیل دستیاب ہے لیکن اس پر وقت ضائع کئے بغیر آگے بڑھتے ہیں ۔

لاہور کے انتہائی پوش علاقے جہا ں پانچ مرلے کا پلاٹ ایک کروڑ روپے سے کم نہیں وہاں 50,50کنال کے سرکاری گھر کفایت شعاری مہم کا منہ چڑا رہے ہیں ۔جی اوآر ون میں اے ٹائپ (20کنال سے زائد رقبے کے بڑے )کے 165گھر ہیں جبکہ بی ٹائپ (20کنال سے کم مگر پانچ کنال سے زائد رقبے پر مشتمل )کے 304گھر ہیں ۔یہاں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی رہائشگاہ ہے جس کا رقبہ 56کنال ہے۔ ایڈیشنل چیف سیکرٹری کے سرکاری گھرکارقبہ 24کنال ہے۔اسی طرح جی اوآر ٹو میں افسر شاہی کے لئے 139رہائشگاہیں ہیں جبکہ جی او آر تھری میں سرکاری گھروں کی تعداد 381ہے۔پھر ان سرکاری رہائشگاہوں کی تزئین و آرائش کے نام پر جو لوٹ مار کی جاتی ہے وہ الگ ہے ۔میں نے2010ء میں سرکاری خزانے سے ان گھروں کی تزئین و آرائش کا ریکارڈ حاصل کیا تھا تو معلوم ہوا کہ اس وقت کے سیکرٹری ہیلتھ فواد حسن فواد (جو ان دنوں زیرعتاب ہیں ) نے اپنے سرکاری گھر پر ایک سال میں 43لاکھ جبکہ اس وقت کے چیئرمین ایف بی آر سلمان صدیق نے 88لاکھ روپے سرکاری رہائشگاہ کی تزئین و آرائش پر خرچ کئے۔سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری 11دسمبر 2013کو ریٹائر ہوئے اور سرکاری رہائش گاہ خالی کرتے وقت انہیں عارضی طور پر جوڈیشل انکلیو کے بنگلہ نمبر 12میں منتقل کیا گیا تو انہوں نے نئے فرنیچر کی خریداری اور واش روم کی ٹائلیں تبدیل کروانے پر 70لاکھ روپے خرچ کروا دیئے۔سرکاری خزانے پر نقب لگانے کا ایک اور طریقہ یہ ہے کہ بنگلے کے ایک آدھ کمرے کو کیمپ آفس قرار دیدیا جاتا ہے تاکہ تمام یوٹیلٹی بل اور دیگر اخراجات بھی قومی خزانے سے وصول کئے جا سکیں ۔

گزشتہ دورِ حکومت میں تحریک انصاف کے ایم پی اے میاں اسلم اقبال نے پنجاب اسمبلی میں تحریک التوا پیش کی تھی کہ جی او آر کے بڑے سرکاری گھر بیچ کر سرکاری ملازمین کے لئے چھوٹے گھر یا پھر فلیٹ بنائے جائیں۔میرا خیال ہے اگر سنجیدگی سے کفایت شعاری اور بچت کی طرف پہلا قدم اٹھانا ہے توچائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے کے بجائے ان بڑے گھروں کو نیلام کردیا جائے۔اگر یہ وسیع و عریض 1100سرکاری بنگلے اور کوٹھیاں بیچ دی جائیں جن کا رقبہ تقریباً3000کنال بنتا ہے توپانچ کروڑ فی کنال کے حساب سے 150ارب روپے کی آمدن ہو سکتی ہے۔یوں اس خطیر رقم سے پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کا وہ خواب پورا ہو سکتا ہے جو اب تک محض انتخابی وعدوں کا سراب دکھائی دیتا تھا ۔صرف یہی نہیں بلکہ ان گھروں کی تعمیر و مرمت ،تزئین و آرائش ،یوٹیلٹی بلز اور دیکھ بھال کے لئے متعین ملازمین کی مد میں سالانہ کم از کم 50ارب روپے کے اخراجات کی بچت بھی ہو سکتی ہے جسے ان سرکاری ملازمین کو ہائوس رینٹ کی ادائیگی کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین