• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگرچہ پاکستان پیپلزپارٹی زرداری نے سندھ میں سیاسی طورپر لوگوں کے شو کیس ہی سجائے ہوئے ہیں۔ کسٹم میڈ فلی کاسٹیومڈ کردار لیکن اس ڈرامے میں بھی زبردست تاریخی علامت نگاری ہے۔ ہے تو وہ شعبدہ لیکن وہ پی پی پی ہی کرسکتی ہے۔ لتاڑے پچھاڑے ہوئے قبیلوں ذاتوں اور طبقات میں سے لوگوں کو چن کر انتخابات پھر وہ سلیکشن ہو کہ الیکشن ایوانوں میں لیکر آنا۔ پھر وہ چاہے کرشنا کماری ہو کہ جس کو محض رضا ربانی کو ووٹ کرنے کی معصوم خواہش ظاہر کرنے پر پارٹی قیادت کی طرف سے زبردست سرزنش کا سامنا کرنا اور سننا پڑا تھا، ہو کہ اب صدیوں کی لتاڑ پچھاڑ کا جواب اور وقت کو گواہی اب پسے ہوئے شیدی قبیلے یا افریقی نژاد سندھی یا بلوچ نسل کی خاتون تنزیلہ قمبرانی کا انتخاب ہو۔ ایسا بھی نہیں کہ پی پی پی زرداری کے سوا آج تک ملکی سیاست میں ایسا ہوا نہیں ہوا ہے لیکن اتنا تھیٹریکل نہیں ہوا۔ کم از کم دیہی سندھ جہاں کی اب پی پی پی نمائندہ بن کر رہ گئی ہے وہاں سے ایسا نہیں ہوا۔ تھر کے پچھاڑے لتاڑے لیکن کبھی دھرتی کے اصل مالکان میں سے ایک خود سر کولہی اور لاڑ کے انتہائی اشراف اور کھل مکھ قبیلے سے اٹھ کر استحصالی طبقات کی اکثریت پر مشتمل ایوانوں میں انکے ساتھ بیٹھ کر قانون سازی میں شراکت اور بحث و بیانیے میں شراکت داری تک پھر پارٹی قیادت کی ون وے پالیسی کے تابع ہی صحیح ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایسا تو سندھی قو م پرست پارٹیوں اور انکی قیادتوں میں بھی نہیں ہوا جو بات تو دھرتی کے دھنیوں کی کرتی ہیں لیکن سندھی قو م پرست پارٹیوں کی قیادت زیادہ تر سیدوں اور بلوچوں کے ہاتھوں میں رہی۔ سوائے رسول بخش پلیجو کے عوامی تحریک کے جس میں نام نہاد نچلی ذاتوں کے بھیل کولہی ان کی پارٹی کی اگلی صفوں میںشریک رہے تھے۔ پھر وہ کسان محاذ ہو کہ بچوں کی ذیلی تنظیم کہ عورتوں کی۔ اگرچہ سیاسی و سماجی موقع پرستی میں زرداری خود کو سندھی سے زیادہ بلوچ کہلوانا پسند کرتا ہے۔

حالانکہ جہاںتک افریقی نژاد بلوچوں کا تعلق ہے تو بلوچستان میں پنج گور و مکران کے دیگر علاقوں سے اسپیکر کے اور دوسرے پارلیمانی و حکومتی عہدوں پر یہ لوگ منتخب ہو کر پہنچے تھے۔ لیکن بہت برسوں کا قصہ ہے۔ کیا یہ بھی برسوں کا قصہ ہے جب سندھ کے شہروں سے ایم کیو ایم مجازی نے نچلے طبقے کے بچوں کو ایوانوں تک پہنچایا تھا۔ گورنر و میئر ڈپٹی میئر لگوایا تھا۔ ہم جو جاگیردارانہ سماج سے آئے ہوئے لوگ تھے وہ آج تک ایم کیو ایم کو طعنہ دیتے تھے کہ دیکھو رشیداحمد بھیا گنے کی مشین چلاتا تھا یا افضال شاہ اخبار بیچتا تھا یا وہ ہمارا دوست صلاح دین رنگ ساز تھا۔ پھر یہ اور بات ہے کہ غریبوں اور محنت کشوں کے بچے خود شہری وڈیرے بن گئے۔ اٹھانوے فی صد کا دعویٰ کرنے والوں نے وڈیراپن میں جاگیرداروں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ بھائی لوگ ہمیشہ پیروں، میروں، جاموں سرداروں اور جاگیرداروں کے ساتھ سندھ میں اقتدار میں ساجھے دار رہے۔ یہ ایک اور بادشاہی کا قصہ ہے۔ آج شیدیوں اور ان پر بادشاہیوں کی طرف سے جبر اور ان جبر کے موسموں میں مگرمان پر اس آزاد رقص میں کمی آئی نہ زنجیر پا میں لرزش۔ جیسا فیض نے کہا تھا:

رقص مے تیز کرو ساز کی لے تیز کرو

تو پس عزیزو آوازآہن سلاسل صدیوں سے انسانی کانوں سے ٹکراتا رہا ہے۔ یہی افریقہ کے زنجبار سے غلام بناکر سندھ ہند اور بلوچستان کی ساحلی منڈیوں تک پہنچائے ہوئے بے کس انسان۔

یہی پابہ زنجیر و طوق گردن انسان سندھ کی ساحلی پٹی میں بھی پہنچے تھے۔ یہ بھی بمعہ عورتوں بچیوں اور بچوں کے صدیوں سے باندیاں اور غلام بنا کر میروں پیروں بھوتاروں کو بغیر مول بیچے گئے تحفوں میں دئیے گئے تھے۔ نسل در نسل ’’بانہے بانہیاں غلام ابن غلام‘‘۔

اب مجھے نہیں معلوم کہ ہوش محمد شیدی جس پر تمام سندھی پھر شیدی کہ غیر شیدی بجا طور فخر کرتے ہیں کہ یہ بتایا جانیوالا جرنیل جو تالپوروں یا سندھ کے امیروں کی طرف سے چارلس نیپئر کی انگریز فوج سے بے جگر ی سے لڑا تھا آزاد سپاہی اور جرنیل تھا یا میروں تالپوروں کا محض غلام ؟ لیکن رمز گاہ میں ہوشو شیدی کا لگایا ہوا نعرہ آج بھی طبل جنگ اور آزادی کی تڑپ بنا ہوا ہے۔ ایک بڑا استعارہ کہ بلاول بھٹو نے بھی یہ نعرہ لگایا ’’مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں‘‘ کسی دل جلے نے کہا پہلے لوگوں کو صاف پینے کا پانی تو دو۔

تو پس عزیزو شیدی یا افریقی نژاد سندھی و بلوچی آل نسل یہ لوگ انگریزوں کے خلاف اتنی بے جگری سے لڑے تھے کہ مورخوں نے لکھا ہے کہ چارلس نیپئر کے ہاتھوں پھر ان ہی شیدیوں کو سندھ فتح کرنے کے بعد انگریز فوج کی دیسی آرمی میں دستے بناکر ایتھوپیا کی مہم پر بھیجا گیا اور یہ افریقی نژاد سندھی اور بلوچ سپاہی یہ معرکہ سر کر کے گزرے تھے (بحوالہ کتاب: جنرل جان جیکب، مصنف الیگزینڈر اینز شینڈ )۔ یقیناًانگریزوں کے زمانے سے بلوچ رجمنٹ کے اوائلی سپاہ یہی شیدی لوگ تھے۔

پھر بھی ان سورما قبیلوں کی قسمت میں تاریک راتیں لکھی رہیں۔ شادیوں غمیوں میں مگرمان بجانے، نوحے اور ماتم سے لیکر مسخریوں تک۔ شیدی کسی اور پر نہیں خود اپنے آپ پر ہنستے رہے۔ پلپلی غلام حیدر اپنے دور کا بہت بڑا کامیڈین اور اداکار گزرا ہے۔ چلو کامیڈین پر بات نہیں کرتے (پھر کبھی سہی) کہ ہم سندھیوں کا ہاضمہ کامیڈین کو برداشت کرنے میں پکا نہیں۔ اگر خاص طور پر قسمت سے کامیڈین عورت ہو جیسا ہم نے پچھلے دنوں ایک خاتون کامیڈین نتالیہ گل جیلانی بغدادی کے ساتھ کیا۔ خیر شیدی بچیاں بچپن سے بیبیوں کو جہیز میں ملیں۔بچے بھی نسل در نسل حویلیوں اور اوطاقوں پر پلے بڑھے وہیں مر کھپ گئے۔

پھر لاڑ کے اسی شیدی کمیونٹی میں غلاموں کی اصلی اولادوں میں سے محمد صدیق مسافر پیدا ہوتا ہے جس نے شیدی قبیلے کو شعور اور تعلیم دی۔ غلامی کا احساس اور آزادی کی تڑپ دی۔ محمد صدیق مسافر کو شیدیوں یا غیر شیدی سندھیوں کا سر سید احمد خان مانا جاتا ہے۔ محمد صدیق مسافر کی ٖصاحبزادی پاکستان اور صوبہ سندھ میں پہلی شیدی ڈاکٹر بن کر نکلی جس نے لیاقت میڈیکل کالج سے گریجویشن کی۔ اپنے کلاس فیلو سے شادی کی جسکا تعلق افریقہ سے تھا۔ تنزیلہ لاڑ یا ذیلی سندھ کے اس معرکہ آلارا قبیلے کی فرد اور نمائندہ ہے۔ یہی زمین زادیاں اور زمین زادے دھرتی کے اصل مالک ہیں۔ تم ان کو اپنے سیاسی شوکیسوں میں رکھو یا سماجی اور معاشی پنجروں میں یہ آزاد ہیں۔ تمہیں دینا پڑے گی آزادی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین