• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رائل کالج آف فزیشن اینڈ سرجنز گلاسگو کی طرف سے میڈیکل سائنس کی ایک انٹرنیشنل کانفرنس میں پروفیسر ڈاکٹر شاہینہ آصف صاحبہ کے ساتھ دیگر ڈاکٹرز کے علاوہ میری بیگم ڈاکٹر خلعت النساء ریحان بھی مدعو تھیں۔اس لئے میری پوری فیملی کو سکاٹ لینڈ اور مابعد لندن جانا تھا۔ چھٹی کے حوالے سے آفس گیا تو جناب ڈی جی نے تشریف فرما آفیسرز سے کہا کہ ریحان صاحب حج پر جا رہے ہیں، سو مبارکیں شروع ہو گئیں اور ہم نے دبے لفظوں میں اکبر الہ آبادی کا شعر گنگنایا، ’’شیخ صاحب چلے کعبے کو ہم انگلستان دیکھیں گے.... خدا کا گھر وہ دیکھیں گے ہم اسکی کی شان دیکھیں گے۔

2006ء میں درویش کی کتاب چھپی تھی ’’اسلامی تہذیب بمقابلہ مغربی تہذیب‘‘ حریف یا حلیف ؟ تو کئی دوستوں نے استفسار کیا کہ آپ مغرب کتنی مدت رہے ہیں؟جب بتایا کہ کبھی قدم نہیں رکھا تو انہیں حیرت ہوئی کہ آپ نے مغربی تہذیب کا مشاہدہ اتنی باریکی کے ساتھ کس طرح کیا ہے ؟۔عرض کی آج کی دنیا اگر گلوبل ویلیج بن چکی ہے تو اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ اب نالج جغرافیائی سرحدوں کو توڑتے ہوئے سوچنے سمجھنے والوں کیلئے گھر گھر پہنچ چکا ہے۔اس استدلال کے باوجود آج انگلستان کی سرزمین پر گھومتے پھرتے احساس ہورہا ہے کہ کئی حقیقتیں براہ راست رسائی کا تقاضا کرتی ہیں۔ولایت اگرچہ کسی زمانے میں ہم دیسی لوگوں کیلئے ایک نئی دنیا خیال کیا جاتا تھا اس پر ہمارے ادیبوں شاعروں نے بڑی دلچسپ خامہ فرسائی کر رکھی ہے ۔ہر کسی نے اپنی اپنی افتاد یا صلاحیت کے مطابق نکتہ آفرینیاں یا موشگافیاں کرتے ہوئے ہوا میں گھوڑے ہی نہیں دوڑائے بال کی کھال بھی اتاری ہے۔ وہ بھی تھے جو ہندوستان میں بیٹھ کر تہذیب مغرب کے چھکے چھڑاتے رہے اور ایسوں کی بھی کمی نہ تھی جو کھا کر ہوا لندن کی ہندوستاں کا مزا بھول گئے۔

ایک زمانہ تھا جب برٹش انڈیا یا متحدہ ہندوستان کی ایلیٹ کلاس اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کیلئے انگلستان روانہ کرنا اپنے سیاسی و سماجی ہی نہیں بلکہ تہذیبی اثرورسوخ کیلئے بھی ضروری خیال کرتی تھی یہی وجہ ہے کہ پارٹیشن سے قبل برٹش انڈیا یا جنوبی ایشیاء کی قیادت زیادہ تر برطانیہ ہی کی تعلیم یافتہ تھی اور ریسرچ کرنے والوں کیلئے یہاں کی لائبریریاں گویا سونے کی کانیں تھیں اب اگرچہ اعلیٰ تعلیم پر کسی مخصوص خطے یا قوم کی اجارہ داری نہیں رہی ہے مگر ریسرچ کے حوالے سے یورپ اور امریکہ کی برتری سے انکار آج بھی ممکن نہیں ہے ۔چندبرس قبل درویش کی قائداعظم لائبریری لاہور میں ایک امریکی نوجوان میتھیو سے دوستی ہوئی تو حیرت کی انتہا نہ رہی کہ وہ پنجاب کے دیہات اور یہاں کے کلچر سے اتنی آگہی رکھتا تھا جو شاید ہمارے بہت سے لاہور کے باسی بھی نہیں رکھتے ہونگے۔معلوم ہوا کہ اسے کسی امریکی یونیورسٹی نے ریسرچ کیلئے یہاں بھیجا تھا۔آج کچھ اسی نوع کی معلومات ہمیں یہاں سکاٹ لینڈ اور لندن میں مل رہی تھیں۔

ہمارے پیرومرشد سرسید کبھی ریسرچ ورک کیلئے لندن تشریف فرما ہوئےتھے اپنے بیٹے کو ساتھ لیکر انہوں نے نہ صرف یہ کہ یہاں کے تعلیمی نظام کو غائر نظروں سے سمجھا اور مابعد اپنے ملک میں اپنایا بلکہ سرولیم میور کی کتاب لائف آف محمد کا مسکت جواب خطبات احمدیہ میں یہیں پیش فرمایا۔ہمارے اقبالؒ نے اپنے آبا کی کتب جب یہاں لندن کی لائبریریوں میں دیکھیں تو ان کا دل ’’سیپارہ‘‘ ہو گیاجبکہ ہمارے دل کوراحت ملی ہے کہ علم کے یہ موتی محفوظ ہاتھوں میں پہنچے۔عمرخیام کی رباعیاں ہوں یا مولانا روم ؒکا تصوف پر مخصوص صوفی ازم، مقام حیرت ہے کہ عجم کے لالہ زاروں میں ان کی پہچان کا شرف مغرب ہی کو حاصل ہوا ۔خودیہاں آکر باریک بینی کے ساتھ عام مغربی عوام کا جو جائزہ لیا ہے اس میں انسانی حقوق اور آزادیوں کے حوالے سے جس قدر خوش کن معمولات ملاحظہ کئے ہیں اسی ریشو سے افسوس ناک صورتحال یہ محسوس ہوئی ہے کہ لوگ بالعموم ایک دوسرے سے اگر کٹ نہیں گئے تو UNCONCERNED یالاتعلق سے ضرور ہو چکے ہیں کوئی مر بھی جائے تو یوں لگتا ہے کہ میری بلاسے۔لیکن اہل نظر کو اس کا ایک منفی پہلو بالکل نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔جب آپ کسی کو اپنے کسی بھی ایشو میں آنے ہی نہیں دیں گے تو چاہے وہ آپ کا کتنا قریبی ہی کیوں نہ ہو بتدریج وہ آپ سے UNCONCERNED ہوتا چلا جائے گا کسی اپنے پر جو ہمہ دعوہ ہوتا ہے کم سے کمتر ہوتے ہوئے وقت کے ساتھ وہ مزید کمزور پڑ جائے گا ۔اہل مغرب کو ہمارا مشورہ ہے کہ وہ اس ایشو پر ضرور غور فرمائے۔لندن کے ایک علاقے نوٹنگ ہل Notting Hillمیں مخصوص کلر کے لوگوں کی پریڈ میں شرکت کا موقع ملا جس میں بلاتمیز رنگ ونسل سب ناچ گا رہےتھے تو ان کی زندہ دلی پنجابیوں سے بھی بڑھی ہوئی لگ رہی تھی۔ویسے عمومی طور پر یہاں کے باسی جتنے بھی UNCONCERNEDدکھائی دیتے ہیں مگر جب ان سے بات کی جائے یا کسی امر کے بارے میں استفسار کیا جائے تو خلاف توقع بہت اچھا ریسپانڈ کرتے ہیں ۔

یہاں احساس ہو رہا تھاکہ گویا وقت ہر لمحے بدل رہا ہے یہ لوگ شاندار ماضی یا سہانے مستقبل کی بجائے صرف حال میں جیتے ہیں جو گزر گیا سو گزر گیا جو حاضر و موجود ہے اس کو بہتر بنائو۔یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے دیگر قومیتوں کے رش نے یہاں کے حقیقی باسیوں کو کہیں باہر نکال دیا ہے شاید ہی کوئی رنگ نسل یا قومیت ہو جو یہاں نہ مل سکتی ہو۔ پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کی موجودگی کا احساس تو اکثر مقامات پر ہوتا ہے بالخصوص گرین سٹریٹ اگر پاکستانیوں سے بھری پڑی ہے تو سائوتھ ہال اپنے انڈین بھائیوں بالخصوص سردار صاحبان کی موجودگی کا احساس لئے ہوئے ہے۔اپنے ایشیائی بالخصوص پاکستانی احباب کیلئے یہ احساس محسوس ہوتا ہے کہ انہیں نہ صرف برطانوی بلکہ دیگر لوگوں کے ساتھ بھی اشتراک بڑھانا چاہئے۔ ہمارے مذہبی و سیاسی قائدین کو بھی چاہئے کہ وہ ہمہ وقت تشخص پر زور دینے کی بجائے صلح حدیبیہ کے جذبے سے ہی سہی اشتراک اور ثمرات جذبہ اشتراک پر زور دیں۔

یہاں کی خوبصورتیاں اتنی دلربا ہیں کہ جی چاہتا ہے ہر چیز کو کھا جائیں یا اپنے سینے میں سما لیں یہاں کی تاریخی عمارات ،لائبریریاں ،یہاں کے میوزیم اُف کیا عجائبات ہیں۔ایک سے بڑھ کر ایک روشنیاں رنگینیاں ہوشربا اتنے تھوڑے دنوں میں کیا یہ سب کچھ دیکھ پائیں گے ناممکن کم از کم ایک مہینہ تو لے کر آنا چاہئے تھا۔ابھی تو احباب کے کھانوں سے ہی فرصت نہیں مل رہی جن کی برکت سے شعور بڑھے نہ بڑھے وزن کئی پائونڈز بڑھ رہا ہے۔

پائونڈز کی ویلیو بھی یہاں اتنی بھرپور ہے کہ اپنی کرنسی کی کم مائیگی کا احساس بار بار ہوتا ہے۔آخر ہماری کرنسی افغانستان اور بنگلہ دیش سے بھی نیچے کیوں چلی گئی ہے ۔

آج گریٹ برٹن کیلئے سمجھ نہیں آ رہی کہ کس شخصیت سے عنوان کو منسلک کروں۔شیکسپیئر سے ورڈز ورتھ یا جان کیٹس سے کنگ، جارج، ہنری ،کوئین وکٹوریہ ،الزبتھ سے یا سرونسٹن چرچل سے یا پھر ہماری ہر دلعزیز پرنسسز ڈیانا سے یا پھر جن لوگوں نے میڈیکل سائنس کی ترقی سے لیکر ایک ایک شعبہ حیات میں بے مثال ایجادات کیں ان سب میں سے کس کس کا نام پکارا جائے اور ہاں سر برٹرینڈرسل میرا ہیرو جو دہائیوں تک یہاں علم و عرفان کی روشنیاں بکھیرتا رہا ہیومینٹی کیلئے کام کرتا رہا بہت تمنا ہے کہ یہاں اس کی یاد گار پر جائوں ۔یہاں برطانیہ عظمیٰ میں ہر چیز ممکن ہے جس کی سلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا اور اب کم از کم سردیوں میں تو سورج کہیں دکھائی ہی نہیں دیتا یوں محسوس ہوتا ہے جیسے سکاٹش بھی آئرش کی راہوں پر چلنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔

اپنے اس سفر کو کیوںنہ حسینائوں، ماہ جبینوں، دیویوں یا پریوں سے منسوب کر دیا جائے پہلی بار جن کی بجلیاں دیکھ کر ہمارا شاعرِ مشرق بھی خدا سے شکوہ کرنے بیٹھ گیا تھا:

قہر تو یہ ہے کہ کافر کو ملیں حوروقصور

اور بیچارے مسلمان کو فقط وعدہ حور

(جاری ہے )

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین