• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانیہ کے مزاح نگار اور پارلیمنٹ کے ممبر شریڈن نے ایک مرتبہ تقریرکرتے ہوئے کہہ دیا ’’ اس ایوان میں آدھے ممبر گدھے ہیں ‘‘ پارلیمنٹ میں شور مچ گیا، تمام ممبران نے مطالبہ کیا کہ معافی مانگ کر الفاظ واپس لیں، شریڈن کھڑے ہوئے، معذرت کی اور کہا’’ میں اپنے الفاظ واپس لیتاہوں، ایوان کے آدھے ممبر گدھے نہیں ہیں‘‘، فیلڈ مارشل منٹگمری نے ایک بار کہا ’’ میں عمر بھر جرمنوں اور سیاستدانوں سے لڑنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ جرمنوں سے لڑنا آسان ہے ‘‘، جان ایف کینیڈی کی ماں کہا کرتی ’’ہر ماں کی خواہش کہ اس کا بیٹا صدر بنے اور ہرماں کی کوشش کہ اس کا بچہ سیاست میں نہ آئے ‘‘، دوستو یہ امریکی ماں کی رائے یعنی ایک تو ماں اوپر سے امریکی، بات تو ماننا ہی پڑے گی، امریکہ توروزِاول سے ہی ہم سے یوں آگے کہ لگے ہم نے اسے آگے لگا رکھا، امریکی چاند پر پہنچ گئے، ہمیں وقت پڑنے پر چاند نظر ہی نہ آئے اورامریکہ خلائی شٹلوں سے بھی آگے کی سوچ رہا، جبکہ ہم شٹل کاک برقعوں سے نکل کر شٹل سروس میں پھنسے ہوئے، باقی رہ گئے پاک امریکہ تعلقات، تو یہ تعلقات دیکھ کر اکثر یونیورسٹی دور کا ڈاکیا یاد آجائے، یونیورسٹی میں ہم ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں شفٹ ہوئے لیکن ڈاکیا ہمارے خط پہلے والے کمرے پر ہی پھینک جاتا، ایک دن سرِ راہ ملاقات ہو ئی اور جب کہا’’آپ غلط پتے پر خط کیوں پھینک جاتے ہیں ‘‘تو بولا’’ میں تو صحیح پتے پر پھینکتا ہوں، آپ غلط پتے پر رہ رہے ہیں ‘‘، یقین جانیے 60 سال ہونے کو آئے، ابھی تک یہ پتا بھی نہ چل پایا کہ امریکی غلط پتے پرخط پھینک رہے یا ہم غلط پتے پررہ رہے۔

بات کہاں سے کہاں نکل گئی، ذکر ہورہا تھا سیاستدانوں اور سیاست کا، جو کچھ ہماری سیاست میں ہو رہا، وہ صرف سیاست میں ہی ہوسکے، یہ الگ بات کہ جو ہونا چاہیے وہ ہوا نہیں، جو ہو چکا وہ ہونا نہیں چاہیے تھا اور اس ہونی انہونی میں کئی انہونیاں ہوچکیں، اپنی سیاست بازی، پتنگ بازی جیسی، بس اتنا سا فرق کہ پتنگ بازی کیلئے ڈور چاہیے اور سیاست بازی کیلئے بیک ڈور،جیسے ہمارے اکثر سربراہ، سربے راہ نکلے، ایسے ہی ہمارے زیادہ تر سیاستدان ایسے کہ الٹا ہو کر دیکھیں تو بڑے سیدھے لگیں، خالی پیٹ اور خالی دماغ، جب موقع ملا تو پیٹ بھرا کیونکہ خالی دماغ سے تو بہر حال یہ کام چلا ہی لیں، یہ سست رفتاری میں تیز، غلط راستوں پر صحیح صحیح چلنے والے، ان کے وعدے ایسے کہ ’’پانچ منٹ ٹھہرو، میں آدھے گھنٹے بعد آیا ‘‘، یہ اپنی قوم کے ایسے ڈاکٹر کہ وہ ڈاکٹر یاد آئے جس سے ایک مریض نے جب کہا’’ میں آپ سے ایک مہینے سے روز 50روپے کی دوائی لے رہا ہوں مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا‘‘ توڈاکٹر بولا’’ کوئی بات نہیں کل سے میں تمہیں 40روپے روزانہ کے حساب سے دوائی دوں گا، تمہیں ہر روز دس روپے کا فائدہ ہوگا‘‘، کچھ سیاستدان تو اس ڈاکٹر کی طرح دو ر اندیش کہ جس سے مریض نے جب کہا’’ مجھے تو کھانسی تھی مگر آپ نے پیچش لگانے والی دوائی دیدی ‘‘ڈاکٹر کا جواب تھا ’’ اب تم کھانسنے سے پہلے سو بار سوچو گے ‘‘۔

جیسے یہ ضروری نہیں کہ جن کے گانے پسند، وہ بھی پسند ہوں، ایسے ہی یہ بھی ضروری نہیں کہ جن کی سیاست پسند ہو وہ سیاستدان بھی پسند ہوں، ہمارے سیاستدان دو طرح کے، ایک، ایک طرح کے، دوسری، دوسری طرح کے، ان کی یادداشتیں ایسیں کہ بس اپنی خوبیاں اور دوسروں کی برائیاں یاد، معدے ایسے کہ ہر وقت بھوک لگی ہوئی، یہ تدبیر ساز ایسے، جیسے وہ کروڑ پتی شوقیہ ناول نگار، جس نے ناول لکھا اورجب کئی دنوں تک ایک کتاب بھی فروخت نہ ہوئی تو اس نے اخبار میں اشتہار دیدیا کہ’’ فلاں کروڑ پتی نوجوان ناول نگار کیلئے رشتہ درکار، ایسی لڑکی کو ترجیح دی جائے گی جو اس نوجوان کے تحریر کردہ ناول کی ہیروئن سے مشابہہ ہو‘‘، اگلے دو دنوں میں ناول کی تمام کاپیاں بک گئیں۔

جیسے اندھے دوقسم کے، ایک وہ جو دیکھ نہیں سکتے، دوسرے وہ جو دیکھتے نہیں اورجیسے حکیم دوطرح کے، ایک وہ جو سابقہ مریض، دوسرے وہ جن کا سابقہ مریضوں سے، ایسے ہی اپنے سیاستدانوں کی سیاست دو قسم کی، خود اقتدار میں آنے کی کوشش کرنا یا دوسروں کو اقتدار سے نکالنے میں لگے رہنا، اپنے سیاستدان اداکا ر ایسے کہ کچھ نہ پوچھیں، اداکاری تب دیکھنے کے قابل جب یہ ہار کر جیتنے والوںکو مبارکبادیں دے رہے ہوں، جیسے ہمیں آج تک یہ سمجھ نہ آئی کہ تمام بوائز کالجوں اور بوائز ہاسٹلوں کے راستے گرلز کالجوں کے سامنے سے ہی گزر کرکیوں جاتے ہیں، ویسے ہی ہم آج تک یہ سمجھ نہ پائے کہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی لوگ انہیں کندھوں پر کیوں بٹھاتے ہیں، جو وقت آنے پر کندھا بھی نہیں دیتے، باقی چھوڑیں ابھی کچھ عرصہ پہلے ایک ایسے سیاستدان جسے ہم اپنی قوم کا مسیحا سمجھتے تھے کو لے کر ایک بابا جی کے پاس گئے، درخواست کی کہ ان کیلئے دعا کریں، بابا جی نے ایک نظر سیاستدان کے چہرے پر ڈالی اور پھر ہمارے لئےدعا کرنے لگ پڑے۔

ہمار ے ایک سیاسی دوست جن کی صحت ایسی کہ پہلی نظر میں لگے کہ نظر لگی ہوئی، نظر ایسی کہ عینک کے بنا اپنی عینک بھی نظر نہ آئے، جو اندھیرے میں خود کو اپنی کھانسی سے پہچانیں، جو اپنی خوشگوار ازدواجی زندگی کا راز یہ بتائیں کہ ’’صبح سے دوپہر تک بیگم وہ کرتی ہیں جو وہ چاہتی ہیں اور دوپہر سے صبح تک میں وہ کرتا ہوں جو بیگم چاہتی ہیں‘‘، جو خواتین کا اس قدر احترام کریں کہ سارا سارا دن احترام کرنے کیلئے خواتین ڈھونڈتے پھریں، جن کا خیال کہ ’’دولہے کو اس لئے آہستہ آہستہ چلا کر دلہن کے گھر لے جایا جاتا ہے تاکہ اسے سوچنے کیلئے کچھ وقت اور مل جائے، جن کا ماننا کہ صحیح مشورہ وہ ہوتا ہے جو صحیح بندے کو دیا جائے اور جن کے بارے میں ہمیں یہ تو پتا تھا کہ ان کو بچے اچھے لگتے ہیں لیکن یہ نہیں پتا تھا کہ انہیں جو اچھے لگتے ہیں، یہ انہیں بچے سمجھتے ہیں، انہیں ابھی کل ہی ٹی وی کی آواز بند کرکے ایک ٹاک شو دیکھتے پایا تو پوچھ لیا ’’بنا آواز سمجھ آرہی‘‘ بولے ’’بنا آواز کے ہی تو سمجھ آرہی‘‘ پوچھا، وہ کیسے، کہنے لگے ’’جب بندہ مرجائے تو سب کیوں روتے ہیں‘‘، میں نے کہا ’’اس لئے کہ وہ مرچکا‘‘ کہنے لگے ’’کیسے پتا چلتا ہے کہ وہ مرچکا، کیا وہ بتا کر مرتا ہے‘‘ میں نے کہا ’’دیکھ کر پتا چلے‘‘ خوشی سے بولے ’’بس مجھے بھی دیکھ کر ہی سب کچھ سمجھ آرہا‘‘ میں نے کہا کہ حضور گوکہ آپ کی منطق سمجھ نہیں آئی لیکن چھوڑیں، کچھ نئے پاکستان کے بارے میں بتائیں، ٹی وی دیکھتے دیکھتے ہی بولے ’’اپوزیشن کا حال اس فلم جیسا، جس میں لڑکا راضی تو لڑکی ناراض، لڑکی راضی تو لڑکا ناراض اور جب لڑکا، لڑکی دونوں راضی تو فلم ختم، شادی سے پہلے طلاقیں ہو رہیں اور طلاقوں کے بعد شادی کے فوائد سمجھائے جارہے، حکومت کا حال یہ کہ ایسی بچتیں کی جارہی کہ ایک دوسرے کو مس کالیں دی جا رہیں،

کالے چشمے لگا کر پانی کو کوک سمجھ کر پیا جارہا، ناک کی ایک سائیڈ سے سانسیں لی جا رہیں تاکہ آکسیجن کی بچت ہو اور ہر رہنما ملازموں کو فارغ کر کے خزانے کی خود صفائی کرنے کے چکر میں‘‘، میں نے بات کاٹ کر کہا ’’کچھ سردار عثمان بزدار کے حوالے سے فرمائیں‘‘، بولے ’’وضع قطع اور حلیے سے ’’سردار‘‘ لگے، بول پڑے تو بزدار لگے، ابھی تک امورِ مملکت ایسے چلا رہا کہ وہ وزیر یاد آجائے، جس نے ایک دن اپنے پی اے کو جھاڑتے ہوئے کہا ’’تم نے تو کہا تھا کہ مندرجہ ذیل سڑک کی مرمت کرا دی گئی ہے، مجھے تو روز ایسی درخواستیں موصول ہو رہیں کہ ہر درخواست میں لکھا ہو ’’مندرجہ ذیل سڑک ٹوٹی ہوئی، مرمت کرا دی جائے‘‘ یہ سن کر ہم نے اپنے اس سیاسی دوست کو خدا حافظ کہنا ہی مناسب سمجھا، کیونکہ پرانے پاکستان کے اس ایجنٹ کے پاس اب بیٹھنا فضول تھا۔

صاحبو! جیسے ہم ڈینٹل سرجن کے ہنسنے کا برا نہیں مناتے کیونکہ ہمیں پتا کہ اس کا تو کام ہی دانت نکالنا ہے، ویسے ہی ہم اپنے سیاستدانوں کی کسی بات کو مائنڈ نہیں کرتے کیونکہ ہمیں علم کہ اگر مائنڈ ہوتا تو بھلا وہ ایسا کیوں کرتے، لیکن جہاں تک تعلق نئے پاکستان کے معماروں کا، تو ان سے یہ توقع تو ہمیں بھی کہ اور نہیں تو کم ازکم ان کی بیڈ گورننس اور غلطیوں کا معیار ہی پچھلوں سے بہتر ہو گا لیکن وہ تمام خواتین وحضرات جو آٹھ دس دنوں بعد ہی نئے پاکستان کا پتا پوچھتے پھر رہے، ان کیلئے عرض ہے کہ بھلے وقتوں میں کوئی میاں، بیوی آگرہ اس کنوئیں پر آئے جس کے بارے میں مشہور تھا کہ اس میں سکہ پھینک کر جو دعا مانگی جائے قبول ہوجاتی ہے، پہلے شوہر نے سکہ پھینکا اور دعا کی، پھر بیوی نے پرس سے سکہ نکالا اور جوش جذبات میں سکہ پھینکتے ہوئے توازن برقرار نہ رکھ کر کنوئیں میں جاگری، یہ دیکھ کر شوہر کی آنکھوں میں آنسو آگئے، آسمان کی طرف دیکھ کر بولا ’’اینی چھیتی‘‘، اپنے سب دوستوں سے یہی کہنا ’’اینی چھیتی‘‘، تھوڑا صبر۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین