• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ روز وزیراعظم کاسینیٹ کے اجلاس میں آنا سب کےلیے خوشگوار حیرت کا باعث تھا کہ وزیراعظم سینیٹ کے نئے سیشن کے پہلے روز ہی شرکت کےلیے آپہنچے اور پھر ان کی تقریر میں جہاں بہت ساری باتیں گزشتہ کئی بار کی جانے والی تقاریر کا دہرانا تھا ۔لیکن دو باتیں بہت اچھی تھیں۔ مثلاً ہالینڈ میں حضور پاکؐ کی شان میں گستاخی کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے بڑی مدلل باتیں کیں کہ مغرب میں جب بھی آزادی اظہار کی آڑ میں ایسی حرکات کی جاتی ہیں اور ہم دکھ اور تکلیف میں مبتلا ہوجاتےہیں۔ لیکن ہماری اس تکلیف سے گستاخ لوگوں کو خوشی ہوتی ہے اور وہ بار بار اس طرح کی گستاخی کرتےرہتے ہیں اس کے لیے ایک قرار داد پاس کردینا کافی نہیں ہے اور نہ ہی اس کا اثر ہونے والا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ اسلامی ممالک او آئی سی کا اجلاس بلا کر پوری قوت سے فیصلہ کریں اور ایک موقف اپنا کردنیاکومجبورکردیںکہ ہمارےپیارےنبیؐ کی شان میںگستاخی کےخلاف اس طرح قانون سازی کی جائے جس طرح دنیا کے مختلف ممالک میں ہولوکاسٹ (Holocoust) کے حوالے سے قانون سازی ہے تاکہ کسی کو یہ جرأت نہ ہو کہ مسلمانوں کی عظیم ہستی حضورؐ کی شان میں کوئی گستاخی کرسکے اور یہ تب ہی ممکن ہوسکے گا جب پوری دنیا کے مسلمان مل کر ایک لائحہ عمل بناتےہوئے آواز اٹھائیںگے۔دوسری وزیراعظم کی طرف سے کہی ہوئی اہم بات یہ تھی کہ وہ پارلیمنٹ کو معتبر بنانےکےلیے اپنا کردارادا کریںگے اور حکومت کے احتساب کے لیے خود دو ہفتےکےبعد ایوان بالا کو وقفہ سوالات کے جواب دیا کریںگے کیونکہ پارلیمنٹ حکومت کا احتساب کرنےکےلیے بہترین فورم ہے جہاں وزیراعظم کی بار بار کی جانے والی تقریرپر قوم واہ واہ کررہی ہے وہاں ان تقاریر کی وجہ سے عوام کی ان سے توقعات کے بھی پہاڑ کھڑے ہوگئے ہیں۔اورآئے روز ان کی حکومت کی طرف سے معمولی سے معمولی غلطی پر بھی میڈیا اور عوام الناس چیخ اٹھتے ہیں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ وزیراعظم اب بنی گالہ کی الفت سے باہر نکل آئیںاوراپنا گھر،اپنا میکا اوراپنا سسرال سب کچھ وزیراعظم ہائوس کو ہی سمجھیں۔مجھے پی ٹی آئی کے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ وزیراعظم پی ٹی آئی کے پارٹی اجلاس وزیراعظم ہائوس کی بجائے بنی گالہ میں ہی کرناچاہتے ہیںتاکہ وزیراعظم ہائوس کے وسائل ان کی سیاسی پارٹی پر نہ خرچ ہوں اوران کے بنی گالہ آنےجانےکےلیے ہیلی کاپٹر کے استعمال کی جو بحث ہے تواس کےلیے یہ دلیل کافی نہیں کہ آنے جانےمیں پچاس روپے فی کلو میٹرخرچہ آتا ہے یا500 روپے خرچ ہوتے ہیں۔بات ہیلی کاپٹر کے استعمال کی ہے جس طرح ماضی میں ایک مقبول لیڈر نے کہا تھا کہ جب کام کرکے تھک جاتا ہوں تو تھوڑی سی پی لیتا ہوں کوئی حلوہ تو نہیں کھاتا۔اور پھر اس بات نے ان کی زندگی میں ان کا پیچھا نہ چھوڑا اس لیے اب کوئی بھی جواز،کوئی بھی ضرورت اورکوئی بھی بیانیہ وزیراعظم کو عوام کی نظر میں یہ چھوٹ دینےکےلیے تیار نہیں۔اس لیے وزیراعظم صاحب کو چاہیے کہ وہ ہیلی کاپٹر والے مسئلے کا کوئی مناسب حل نکالیں کہ ان کی سیکورٹی پر بھی کوئی رکاوٹ نہ آئے اور انہیں آنے جانے میں شاہانہ ٹاٹھ کا تاثر بھی نہ ملے۔ دوسری طرف ان کی کابینہ کے کچھ وزراء کی طرف سے بھی ایسی باتیں دیکھنے میں آئی ہیں جو ایم این اے اور وزیر بننے سے پہلے اور بعد میں زمین آسمان کا فرق ہے۔پہلے آپ پھٹپھٹی( موٹر سائیکل )پر بیٹھ کر گندی گلیوں میں گھومتے پھرتے ہیں۔پسینے سے شرابور اور محنت کی بوسے اٹے گندے مند ے لوگوں کوگلے لگاتے پھرتے ہیں پھر آپ کو شاہراہ کی تنگی اور موٹر سائیکلوں کی پارکنگ ناگوار گزرتی ہے۔میں اس بات کی حمایت میں ہوں کہ سڑکوںپر تجاوزات اور غلط پارکنگ کاخاتمہ ہوناچاہیے لیکن یہ اچانک ’’بدبو‘‘ آنے کے تاثر نے بہت برا تاثرچھوڑا ہے۔ اورہاں خاندانی سیاست کے خلاف تقاریر کے بعد بیٹوں اوربھتیجوں کو ہی خالی نشستوں پر ٹکٹ دینے سے بھی براتاثر ابھرا ہے۔جیسے سینیٹ کے اجلاس سے نکل کر وزیراعظم جب اپنے چیمبرجارہے تھے اوران کے پروٹوکول اورسیکورٹی کا عملہ ’’ہٹوبچو‘‘ پر زور دیتے ہوئے صحافیوں کو پیچھے دھکیل رہا تھا، تو ایک صحافی نے با آوازبلند کہا کہ وزیراعظم صاحب آپ تو پروٹوکول کے خلاف ہیں پھر یہ دھکے کیسے وزیراعظم صاحب انہیں سمجھائیں……!

twitter:@am_nawazish

تازہ ترین