• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
موجودہ تعلیمی نظام ایک ایسے نظام کو سہارا دیتا ہے جس کی عقلی طور پر حمایت نہیں کی جا سکتی۔ یہ نظام تعلیم عقل سے ماورا ایسے اوصاف پیدا کرتا ہے جو پسماندہ اقوام کے حکمران طبقوں کے لئے سودمند ثابت ہوتے ہیں حالانکہ یورپ میں رومانی تحریک اور برصغیر میں ترقی پسند تحریک کی بالیدگی نے تعلیم کو موثر بنانے کی کوشش کی لیکن حاکمانہ طرز تدریس اور عام فروخت ہونے والی تعلیم چیلجنگ دماغ پیدا کرنے کی راہ میں رکاوٹ بن گئی لہٰذا ایسی تعلیم کا تشکیل دینا ضروری گیا ہے جہاں فطری ذہانت کو آگے بڑھنے کا موقع ملے۔ آج ایسی درسی کتابیں مادی طور پر مفید ہیں جن سے کلچر پیدا نہیں ہو سکتا لیکن تعلیم اور شعوری نصاب جو کہ مستقبل کی سرمایہ کاری ہے اس پر سیاست دان دو لفظ بھی کچھ کہنے سے قاصر ہیں اور بے کار مباحثوں میں ہرزہ سرائی کرتے نظر آتے ہیں۔ پھر یہ دیکھئے کہ غربت نے عام آدمی کے بچوں کے لئے اچھی تعلیم حاصل کرنا ناممکن بنا دیا ہے۔ آج سے دس سال قبل ایک دوست خاتون جو کینیڈا میں رہائش پذیر ہیں وہ کوہاٹ کے نزدیک غریب اور نادار بچیوں کے لئے اسکول مفت چلاتی تھیں انہوں نے بتایا کہ میں نے ایک غریب بچی سے یہ پوچھا کہ ”بیٹا آپ آج ناشتے میں کیا کھا کر آئی ہیں تو اس نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں جواب دیا کہ آج میری باری نہیں تھی“ آپ بتائیے کہ جب پسماندہ معاشرے میں باری آنے پر ناشتہ کیا جائے وہاں تعلیم کیسے حاصل کی جا سکتی ہے۔ آج تو مہنگائی کی انتہا نے تو سفید پوشوں کی پاؤں کی چادر کو رومال بنا دیا ہے ان حالات میں ایک چوٹی کے بینک نے اپنے ایک اشتہار میں بچتوں کے بارے میں لکھا کہ ”اگر افراط زر کی شرح دس فیصد ہی رہی تو آج جو نجی شعبے میں انجینئرنگ کی ڈگری 15 لاکھ روپے میں ملتی ہے اگلے دو عشروں میں67 لاکھ روپے کی ہو جائے گی۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ موجود معاشی نظام کس قدر تیزی سے بنی نوع انسان کو تنزلی کی طرف لے جا رہا ہے۔ دوسری جانب ترقی یافتہ ممالک جو خود بحران کا شکار ہیں اور کسی نعم البدل معاشی ماڈل کی تلاش میں ہیں وہاں جینیاتی انجینئرنگ اور اسٹیم سیل پر کام ہو رہا ہے۔ جہاں ان سوالوں کے جوابات تلاش کئے جا رہے ہیں کہ کیا ہم خلا میں کسی سیارے کو نو آبادی بنا سکتے ہیں۔ کیوں کوئی مسافر مستقبل (خلا) سے کرہٴ ارض پر نہیں اترا یا یہ کہ کمپیوٹر بنی نوع انسان پر مسلط ہو سکتا ہے؟ کیا انسانی ذہانت کی ایک حد ہے اور یہ ختم بھی ہو سکتی ہے؟ عہد حاضر کے عظیم سائنسی مفکر پروفیسر اسٹیفن ہاکنگ جو بالکل جسمانی طور پر معذور ہیں اس کے باوجود اپنے خیالات کا اظہار اپنی تحریروں میں کرتے رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ”کمپیوٹر احمقوں کا ڈبہ ہے کیونکہ اس کا اپنا دماغ نہیں ہے اس میں انسان اپنا دماغ فیڈ کرتا ہے“ تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اپنے دماغ میں بھس بھرا ہو اور دماغ بند ہو تو کیا کمپیوٹر غلط استعمال نہیں ہو گا؟ اس بارے میں بل گیٹس نے برملا ایک جگہ لکھا کہ دنیا بھر میں کمپیوٹر کا صرف بیس فیصد استعمال درست ہو رہا ہے۔ جس دنیا میں حاکمانہ طرز تدریس اور غیر شعوری نصاب رائج ہو تو پھر عظیم فلسفی برٹرینڈ رسل کی بات درست ثابت ہوتی ہے جو انہوں نے ساٹھ برس پہلے نوآبادیاتی تعلیمی نظام کے بارے میں اپنی کتاب ”تعلیم کے معاشرے پر اثرات“ میں لکھی کہ ”نوآبادیاتی نظام تعلیم میں صرف بدھو یا منافق آدمی ہی پیدا کئے جا سکتے ہیں جو سوچنے سے عاری ہوں“ تاہم سوچنے والوں کے ذہن میں سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر برقی اور جینیاتی ذہانت کی ترقی کی کوئی حد ہو گی یا اس قسم کی ترقی کا لامتناہی سلسلہ جاری رہے گا اس قسم کے سوالات کے جواب میں پروفیسر ہاکنگ نے کہا ہے کہ ”حیاتیاتی ذہن کے تناظر میں انسانی ذہانت کی حد اس کے دماغ کے سائنسز اور پیچیدگی تک بتائی جاتی ہے جب میں اپنے تین بچوں کو دیکھتا ہوں تو جانتا ہوں کہ سر میں سے دماغ پیدا کرنا کتنا مشکل کام ہے۔ تاہم اگلے سو سال یا بیس سال تک مجھے توقع ہے کہ ہم انسانی جسم سے باہر بچوں کی پرورش و نمو کرنا سیکھ سکیں گے ورنہ موجودہ ذہانت کی حد ختم ہو جائے گی“۔
اب آئیے ذرا یہ بھی غور کر لیں کہ موجودہ بوسیدہ نظام تعلیم کے نصاب میں فکری مغالطے کس طرح دماغوں میں ابہام کو جنم دیتے ہیں۔ سماجی دانشوروں کی یہ مقبول رائے ہے کہ سوشل سائنسز کے بغیر اوزاروں کی ترقی انسان کو روبوٹ بنا دے گی اس لئے جمالیاتی ترقی کے لئے مصوری، موسیقی، شاعری اور فزیکل کلچر تعلیم کا حصہ ہونا چاہئے لیکن بند دماغ حلقے اس کی مخالفت کر کے ابہام پیدا کرتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ کچھ عرصہ پہلے درسی کتابوں میں سخیوں کی کہانیاں پڑھائی جاتی تھیں۔ حاتم طائی پر فلمیں بھی بنائی گئیں مقصد دماغ میں راسخ کرنا مقصود ہوتا ہے کہ نیکی اور آمدنی میں بہت گہرا ربط ہوتا ہے۔ طبقاتی تعلیمی نظام میں یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ پڑھانے والوں کی روحیں غلامانہ ہوں۔ پھر یہ بھی دیکھئے کہ سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ پیداواری رشتوں میں وراثت کی رسم کی وجہ سے مالداروں کے بچے اگر نہ چاہیں نہ پڑھیں کیونکہ وہ بھوکے مر نہیں سکتے۔ آپ یہ بھی غور کیجئے کہ کثیر الطبقاتی تعلیم میں باپ کی حیثیت ہی اولاد کی سماجی حیثیت متعین کرتی ہے اسی لئے ہمارے ہاں موروثی سیاست ہی چلتی ہے اس لئے طبقاتی تعلیم میں امراء تکبر پیدا کرنا، غریبوں کو باور کرنا کہ وہ نامعقول ہیں لہٰذا وہ انکساری کا رویہ اپنائیں اور اللہ سے دعا کریں کہ ان کی مصیبتوں کا ازالہ کرے۔ یہ فکری مغالطہ بھی مروجہ تعلیمی نظام کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے اور ایسی توہم پرستی کو جنم دے کر ایسا معاشرہ تشکیل دیا جاتا ہے کہ جس میں دولت عظمت تصور کی جاتی ہے اور اسے اعتقاد بنا کر قسمت کے سپرد کر دیا جاتا ہے یعنی خرافات انسان کرے اور الزام تقدیر پر دھر دیا جائے ایک نکتہ اور قابل غور ہے کہ طبقاتی تعلیم پر اچھا انسان بنانے پر زور نہیں دیا جاتا، اچھا شہری بننے پر زور دیا جاتا ہے تاکہ وہ حکمرانی کرنے والی حکومت کا وفادار ہو۔ سب سے بڑا نقصان مروجہ تعلیمی نظام میں یہ ہے کہ ایک طرف تعلیم کی فروخت سے خوب منافع کمایا جاتا ہے دوسری جانب پسماندہ علاقوں میں علمی غربت (اکیڈمک پاورٹی) کی وجہ سے دیہی یا مضافاتی علاقوں کے طالب علم احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔ اساتذہ کم تنخواہوں کے باعث بیماریوں کا شکار رہتے ہیں ذہانت کچرا نصاب اور طرز امتحانات کی وجہ سے تھکن کا شکار ہوجاتی ہے۔
مروجہ تعلیمی نظام میں بڑے شاعر فیض احمد فیض کھڈا کالج لیاری میں کچھ عرصہ کے لئے پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوئے ایک کچھی دوست نے مجھے بتایا کہ زیادہ تر طالب علم فیس بآسانی فیض صاحب سے معاف کرا لیتے تھے۔ میں بھی درخواست لے کر گیا انہوں نے دیکھے بغیر میری درخواست منظور کر لی۔ میں نے ہمت کر کے پوچھا کہ آپ نے دیکھے بغیر درخواست منظور کرلی۔ انہوں نے جواب دیا ”مجھے علم ہے کہ لیاری میں سبھی لوگ غریب ہیں“ یہ طبقاتی شعور رکھنے والا ہی جواب دے سکتا ہے۔ دوسری جانب اہل ثروت، قبائلی اور جاگیردار یہ چاہتے ہیں کہ عام آدمی کے بچے اچھی تعلیم حاصل نہ کر سکیں چنانچہ طبقاتی تعلیم بڑے مہنگے تعلیمی اداروں میں طرز حکمرانی سکھاتی ہے مثلاً بیرہ کھانا کیسے پیش کرے (SERVE)، شناوری کرنا، گھڑ دوڑ، نیزہ بازی، دعوتیں اور ان میں خاص طور پر ملبوس ہو کر جانا، ان کو سکھایا جاتا ہے اور یہ باور کرایا جاتا ہے کہ وہ کم نصیبوں سے بہتر ہیں۔ چونکہ ہمارے سیاست دان اور مارشل لائی جنرل مالدار طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں جب وہ تعلیم کے بارے میں بلند آہنگ میں جھوٹے دعوے کرتے ہیں تو ان کے الفاظ ان کے دانتوں کے ساتھ چپک جاتے ہیں۔
کچھ لکھنے والے بھی ادھر ادھر کی باتیں لکھ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ گہری باتوں کو کون سمجھے گا اسی پس منظر میں فیض احمد فیض سے کسی نے پوچھا کہ آپ غریبوں کے لئے شاعری کرتے ہیں لیکن وہ آپ کی شاعری سمجھنے سے قاصر ہیں تو انہوں نے جواب دیا ”میں ان کے لئے شاعری کرتا ہوں جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ انقلابی ہیں اور غریبوں کے حالات بدلنے کا آدرش اور درد رکھتے ہیں“ بے شعوری کی زندگی بسر کرنے کا سب سے بڑا نقصان آج یہ ہو رہا ہے کہ بے انصافی تو برداشت کر لیتے ہیں لیکن ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرتے۔ میں اس وقت اس تحریر کے ذریعے سیاسی لیڈروں کو آوازدیتا ہوں کہ کوئی ایسی پارٹی ہے جس کے منشور میں شعوری تعلیم کا پروگرام ہو۔ مجھے یقین ہے کسی جانب سے کوئی جواب نہیں آئے گا۔ بس ایک بے حسی اور خاموشی ہے جو انسانوں کو ڈس رہی ہے۔
تازہ ترین