• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے عہد کے سب سے بڑے شاعر فیض احمد فیض کو ہم سے جدا ہوئے 28 برس بیت گئے لیکن انقلاب اور مزاحمت سے بھرپور فیض کے ریشمی لب و لہجے کی آنچ مدھم نہیں ہوسکی بلکہ بعض صورتوں میں تو امن مساوات اور محبت کی مثلث پر استوار کئے جانے والے انسانی معاشرے کی آرزو اور خواہش پہلے سے کہیں زیادہ سر اٹھاتی نظر آتی ہے۔
فیض نسبتاً خوش قسمت تھے کہ ان کی مزاحمت اور احتجاج کا ہدف ریاستی جبریت اور عالمی سامراج ہی رہے۔ آج ہماری معاشرت اور تہذیب کو بے لگام تشدد اور دہشت گردی کے جس عفریت کا سامنا ہے فیض کا پاکستان ان لعنتوں سے بڑی حد تک محفوظ تھا۔ فیض نے تو اپنے عہد کی جبریت (جو بیشتر صورتوں میں ریاستی استبداد سے عبارت تھی) پر اپنے ردعمل کا یوں اظہار کیا تھا۔
نثار میں تیری گلیوں پہ اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
لیکن فیض آج زندہ ہوتے تو شاید دوسرے مصرعے کو یوں بدل دیتے :
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر بچا کے چلے
اور سر بچانے کا کیا مذکور یہاں تو اقدار سے افکار تک سبھی خوف اوربے یقینی کی کہر میں مرجھائے ہوئے ہیں۔ دانشور ہو کہ تھڑے پر بیٹھا ہوا عام آدمی، افسر ہو کہ ماتحت سبھی انجانے وسوسوں کی زد پر ہیں۔ کسے خبر کہ اگلے لمحے کیا سے کیا ہو جائے۔ اس صورت حال میں فیض ایسے روشنی بانٹنے، خوبصورتی پھیلانے اور امید بڑھانے والے نوا گروں کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
ہر چند کہ فیض بنیادی طور پر ایک شاعر تھے اور اپنی تخلیقی شخصیت کی مختلف جہات میں خود انہیں شاعر ہونے کی فضیلت پر ناز بھی بہت تھا تاہم ان کی شعری اور سماجیاتی فکر کا بنیادی محور سماجی و معاشی استحصال ہے اور فیض نے بڑے سلیقے اور ہنر مندی کے ساتھ اپنی شاعری کو خالی نعرہ بازی سے محفوظ رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ بدلتے ہوئے حالات و واقعات میں بھی ان کی شاعری اسی طرح تروتازہ ہے اور نئی معنویت سے انسلاک کرتی ہے۔ فیض کی شاعری اور تحریروں کا بنیادی سوال رفعت ِ انسان اور معاشرے میں عدم توازن کو رفو کرنا ہے۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ یہ تصورات صرف ان کی شاعری تک ہی محدود نہیں بلکہ پورے فیض کی تفہیم و تعبیر کرتے ہوئے ان کی عملی جدوجہد یہ ثابت کرتی ہے کہ کسی پہلو سے بھی وہ شاعر محض نہیں تھے۔ سامراج اور سماج پر فیض کی تنقیدی نظر اپنی کلیت اور جاذبیت دونوں میں استقرار کرتی ہے چنانچہ سرمایہ داری اور جاگیرداری معاشی ہو یا بین الاقوامی، فیض کی نظر میں ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔
فیض کی استعمار دشمنی مشینی ہے نہ لمحاتی بلکہ وہ دِل و جان کی سچائیوں سے محسوس کرتے ہیں کہ جب تک انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال اور معاشی نا انصافی کا سکّہ چالو رہے گا۔ روئے زمین پر امن ممکن نہیں لیکن فیض کے ہمہ دلاویز شعری ہنر کا حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ استحصال اور استعماری قوتوں کی واشگاف مخالفت کے باوجود وہ نفرت کی سوداگری نہیں کرتے کیوں کہ ان کی دکانِ شیشہ گر میں سوائے محبت کے کسی اور سودے کی گنجائش ممکن ہی نہیں تھی۔ فیض کی محبوبیت صرف ذاتی نہیں آفاقی بھی ہے اگرچہ ان کی توجہ اور ترجیح کا بنیادی مرکزہے ان کا محبوب وطن ہی رہتا ہے جس کے بگڑتے ہوئے سیاسی، معاشی اور ثقافتی منظر نامے پر وہ دل گرفتہ بھی ہوتے ہیں اور نئی صبح کے نقیب بھی ٹھہرتے ہیں۔
فیض کے عہد کا آج کے دور سے موازنہ کیا جائے تو بظاہر آج کے پاکستان کا سیاسی اور سماجی منظرنامہ آزادیٴ اظہار کے پہلے سے کہیں زیادہ مواقع فراہم کرتا ہے۔ فیض کے عہد کے برعکس آج بظاہر شاعر اور ادیب کے لبوں پر مہر نہیں لگی ہوئی اور نہ ہی اسے اپنی بات لکھنے کے لئے خونِ دل میں انگلیاں ڈبونی پڑتی ہیں۔ خود ریاستی مشینری بھی ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کی فکر اور اظہار پر زیادہ قدغن نہیں لگاتی جس کا فیض اور ان کے ہم عصروں کو اکثر و بیشتر سامنا رہا لیکن آزادی کے اس ثمر کا ایک تلخ ذائقہ یہ بھی ہے کہ ہماری فضا میں تازہ ہوا سے کہیں زیادہ بارود کی بو پھیلی ہوئی ہے۔ معاشرے میں آزادانہ مکالمے کا دروازہ تقریباً بند ہو چلا ہے کہ بات بات پر فتویٰ گری اور سر قلم کئے جانے کی صنعت، آزادیوں کی سہولت سے کہیں زیادہ ترقی کر رہی ہے اور ایک مخصوص طبقہ ٴ فکر نے اپنے نظریات بزور شمشیر معاشرے اور ریاست پر مسلط کرنے کی قسم اٹھا رکھی ہے۔ ایسے میں فیض کی یاد بے محابا لبوں پر مچل جاتی ہے جنہوں نے بے حوصلہ لوگوں کو یہ امید دلائی تھی کہ
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
آج فیض جسمانی طور پر ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ان کے خواب اور آدرش یوں تعبیر ہوتے نظر آتے ہیں کہ میڈیا کھل کر عوامی احساسات کی ترجمانی کر رہا ہے اور عدلیہ ہر قسم کی بے انصافی اور دستور کی بالا دستی پر کاربند نظر آتی ہے۔
خود فوج بھی حکومتی معاملات میں اپنے روایتی کردار سے دستبردار ہو کر اپنی اصل ذمہ داریوں پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔ آج کے ادیب شاعر کو بھی اپنی بات لکھتے وقت یہ اندیشہ درپیش نہیں ہوتا کہ اسے اپنے ضمیر کی آواز کو عام کرتے ہوئے کسی آمرِ وقت کے انتقام، قید و بند یا جلاوطنی کی ان صعوبتوں سے گزرنا پڑے گا جن کا فیض کو زندگی بھر سامنا رہا۔
دستیاب آزادیوں کی بات کرتے وقت ہمیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ حقیقی قومی آزادی کی منزل ابھی بہت دور ہے اور سامراج کے پھیلائے ہوئے مارکیٹ اکانومی اور عالمگیریت کے پھندوں سے نجات حاصل کرنا ابھی باقی ہے۔ خود اندرونی طور پر ہمیں ابھی جاگیرداری، فرقہ پرستی اور رجعت پسندی کی لعنتوں سے چھٹکارہ پانا ہے اور قومی ایجنڈے کے طور پر ایک ایسے سماج کو تشکیل دینا ہے جہاں کوئی کسی کا استحصال نہ کر سکے، قومی اور قدرتی وسائل سے فیض یاب ہونے کا حق ہر شہری کو حاصل ہو، طبقاتی اونچ نیچ کا خاتمہ ہو، ہماری قومی شناخت کا بحران معروضیت کے حوالوں کے ساتھ حل ہو، بین الاقوامی سطح پر ہماری جڑت دنیا بھر کے مظلوم اور پسے ہوئے عوام کے ساتھ ہو اور پاکستانی معاشرہ قوموں کی برادری میں ایک نمایاں حیثیت کا حامل ہو سکے۔ گویا فیض کے لفظوں میں:
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
تازہ ترین