• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی کابینہ کی نو تشکیل شدہ اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) بدھ کے روز اپنے پہلے اجلاس میں کوئی واضح فیصلہ تو نہ کرسکی مگر کام آگے بڑھانے کیلئے بنیادیں متعین کرتی ضرور محسوس ہوئی۔ مثال کے طور پر کمیٹی نے توانائی کے کئی شعبوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے واجبات میں اضافے کی وجوہ جاننے کے لئے کئی کمیٹیاں بنائی ہیں جن کی پیش کردہ سفارشات کا آئندہ اجلاس میں جائزہ لے کر اقتصادی رابطہ کمیٹی اپنی حتمی تجاویز منظوری کیلئے کابینہ کے اجلاس میں پیش کرے گی۔ پاکستان اسٹیٹ آئل کے واجبات کی ادائیگی اور مالی مدد کی سمری کو اس بنا پر آئندہ اجلاس تک کے لئے موخر کر دیا گیا کہ یہ معاملہ گردشی قرضوں سے منسلک ہے جن کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔ وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کی تشکیل کا وزیراعظم عمران خان کی طرف سے باضابطہ اعلان پیر 27اگست 2018ء کو کیا گیا تھا اور بدھ 29اگست کو اس کے چیئرمین وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کی صدارت میں اس کا پہلا اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس کی تفصیلات سے اگرچہ ملکی معیشت کی وہی صورتحال اجاگر ہوتی ہے جو پہلے سے عام آدمی کے علم میں ہے مگر گردشی قرضے کے حوالے سے ایک گرداب کی کیفیت سامنے آتی ہے اور ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ہمارا گردشی قرضہ پچھلے برسوں میں حکومت کی طرف سے بار بار خطیر ادائیگیوں کے باوجود جس تیزی سے بڑھتا ہوا 596ارب روپے کی سطح پر جا پہنچا، اس کی وجوہ کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے۔ کیا یہ بات تعجب خیز نہیں کہ صرف جولائی کے مہینے میں گردشی قرضے میں 30ارب روپے کا حیران کن اضافہ ہوا۔ اس سے بھی زیادہ حیران کن امر وزارت توانائی اور پاور ڈویژن کے حکام کی طرف سے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں اس انکشاف کی صورت میں سامنے آیا کہ پاور ہولڈنگ کمپنیوں کا بھی 582؍ارب روپے کاگردشی قرضہ سامنے کھڑا ہے۔ اس طرح حقیقی واجبات کی رقم 1188ارب روپے بنتی ہے۔ یہ ایسی صورتحال ہے جس کے سدباب کی فوری تدابیر نہ کی گئیں تو ملکی معیشت کے حوالے سے خدشات بڑھ سکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ای سی سی نے پاکستان اسٹیٹ آئل کے حکام سے کہا ہے کہ 60ارب روپے کے واجبات کی وجوہ بتائی جائیں۔ تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ گیس کی قیمتوں میں اضافے کی سمری پر فیصلہ موخر کر دیا گیا۔ یہ معاملہ اس اعتبار سے حساس کہا جاسکتا ہے کہ گیس کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کا در کھلتا ہے جبکہ نیپرا کی طرف سے بجلی کی قیمت میں 36پیسے اضافے کی منظوری غریب اور متوسط طبقے کی مشکلات میں اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔ چیئرمین اسد عمر نے کھاد کی قیمتوں میں اضافے اور برآمد کو ملک اور کسانوں کے مفادات کے منافی قرار دیا کیونکہ پچھلے برس کھاد کی صنعت کو زر تلافی کے ذریعے جو ترغیب دی گئی اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے منافع کا فائدہ کسان کو پہنچنا چاہئے تھا اور اگر کھاد برآمد نہ کی جاتی تو اس برس فصلوں کی بوائی کے لئے کھاد امپورٹ کرنے کے بارے میں سوچنے کی ضرورت بھی نہ ہوتی۔ ہونا بھی یہ چاہئے کہ اپنے کاشت کاروں کو ایسی سہولتیں دی جائیں جن کے نتیجے میں انکے کھیت ان کے لئے رزق پیدا کرنے اور ملک کو خوشحال بنانے کا ذریعہ بنیں۔ اجلاس میں قائم گئی ایک کمیٹی صنعت کاروں سے رابطے کے ذریعے اس برس فصلوں کی بوائی کے لئے کھاد کی دستیابی کا جائزہ پیش کرے گی۔ ذرائع کے مطابق بجلی کے نادہندگان کو پری پیڈ میٹر فراہم کرنے کی ایک تجویز بھی زیرغور ہے تاکہ پیشگی ادائیگی کے بعد ہی بجلی کی فراہمی ممکن ہو۔ اس تجویز کے مثبت اور منفی پہلوئوں کا باریک بینی سے جائزہ لیا جانا چاہئے۔ امید کی جانی چاہئے کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی جلد ہی ایسے راستے نکالنے میں کامیاب ہوجائے گی جن کے ذریعے ملکی معیشت کو گردشی قرضوں کے گرداب سے نکالنے میں مدد ملے اور توانائی کا شعبہ ہمارے زرعی، صنعتی اور کاروباری اداروں کو حقیقی معنوں میں وہ آسانیاں فراہم کرسکے جن سے ملکی ضروریات کیلئے درآمدات پرانحصار نہ کرنا پڑے بلکہ برآمدات کے ذریعے خسارے پر قابو پانا ممکن ہو۔

تازہ ترین