• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا فضل الرحمن کا مسئلہ کیا ہے ؟ایسی کون سی شے ہے جو انہیں سکون سے بیٹھنے نہیں دے رہی؟مولانا اپنے دونوں حلقوں سے مسترد کئے گئے جن میں وہ حلقہ بھی شامل ہے جہاں سے ان کے والد محترم ومرحوم مولانا مفتی محمود نے بھٹو جیسے ہر دلعزیز سیاست دان کو شکست دی تھی۔مزید یہ کہ وہ موجودہ اسمبلی کو بھی دھاندلی سمجھتے ہیں اور اس حد تک سمجھتے ہیں کہ یوم آزادی منانے سے بھی انکاری ہیں تو پھر ؟بالفرض محال وہ صدر بن بھی جاتے ہیں تو کیا یہ ان دو حلقوں کے ووٹرز کی توہین نہیں ہو گی جنہوں نے آپ کو اپنی قومی اسمبلی کے قابل بھی نہ سمجھا۔اور پھر جس اسمبلی کے بارے آپ کے اقوال زریں ریکارڈ پر موجود ہیں ان سے تعاون کی طلب آپ کو ہضم کیسے ہو رہی ہے ؟باوقار یا بااصول ہونا تو دور کی بات ہے ہمارے ’’رہنما‘‘ تو باوقار یا بااصول ہونے کی اداکاری کرنا بھی ضروری نہیں سمجھتے۔بات گھوم گھام کر پھر وہیں آجاتی ہے کہ مولانا کا مسئلہ کیا ہے جو ایک آرائشی، نمائشی ،زیبائشی منصب کیلئے تماشا بن بھی رہے ہیں، تماشا لگا بھی رہے ہیں۔ایک شے ہوتی ہے ضمیر جو دکھائی نہیں دیتی اور دنیا کی کسی دکان پر بھی دستیاب نہیں لیکن انسانی زندگی میں فیصلہ کن حیثیت کی حامل ہوتی ہے ۔بندے کے پاس اچھی صورت ہو نہ ہو، خیر ہے۔دولت شہرت بھی نہ ہو تو چل جاتا ہے ۔صحت کاملہ کے بغیر بھی روپیٹ کر گزر بسر ہو جاتی ہے لیکن ضمیر کے بغیر زندگی کا تصور مکمل ادھورگی کے بغیر کیا ہے؟مجھ کو گرنا ہے تو پھر اپنے ہی قدموں پہ گروںجس طرح سایہ دیوار پہ دیوار گرےضمیر خیر اور شر میں، صحیح اور غلط میں، جائز اور ناجائز میں تمیز کرنے کا نام ہے جو شاید کوئی مشکل کام نہیں۔میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ اس سے نقصان بھی نہیں ہوتا البتہ کچھ فوائد ضرور تج دینے پڑتے ہیں ’’نفع ‘‘ سے محرومی ضرور بھگتنی پڑتی ہے ۔’’اخلاقیات سے محروم‘‘ گندے گورے اسے CONSCIENCEکہتے ہیں اور صرف کہتے ہی نہیں ا سے پریکٹس بھی خوب کرتے ہیں۔ایسا ہی اک فضول گورےEMANUEL SWEDEN BORG نے تو یہ تک کہہ دیا ۔ʼʼCONSCIENCE IS GODʼS PRESENCE IN MANʼʼکسی اور بیوقوف کا خیال ہےʼʼCONSCIENCE: SOME THING THAT FEELS TERRIBLE WHEN EVERY THING ELSE FEELS WONDERFULʼʼجارج واشنگٹن کا یہ جملہ بھی شاید وہی بول سکتا تھا کہʼʼLABOR TO KEEP ALIVE IN YOUR BREAST THAT LITTLE SPARK OF CELESTIAL FIRE CALLED CONSCIENCEʼʼلیکن ہماری سیاسی دنیا کا معمول یہ ہے کہ جب ضمیر نامی شے کسی سیاست دان کو کال کرے تو اول یہ کہ وہ فون ہی نہیں اٹھاتا اور اگر اٹھا بھی لے تو ’’رانگ نمبر‘‘ کہہ کے ریسور پٹخ دیتا ہے۔ضمیر مر جائے تو اکیلا کبھی نہیں مرتا ۔دیانت اور دلیری بھی اس کے ساتھ ہی مرجاتے ہیں۔ضمیر روح کی پکار ہے کہ کوئی تمہیں دیکھ رہا ہے۔ہر وہ شخص جو اپنے ضمیر کے ساتھ جنگ میں شکست کھا جائے ،بہت بڑا فاتح ہوتا ہے۔لوگ جتنی توجہ اپنے لباس پر دیتے ہیں اس سے آدھی اپنے ضمیر پر دیں تو دنیا دوگنا بہتر ہوسکتی ہے۔لیکن ہماری تو دنیا ہی نرالی ہے جس میں ٹیکس پیئر کا پیسہ شیر مادر کی طرح پیا جاتا ہے ۔یہاں بڑے بڑوں سے ان کے اربوں کھربوں کی منی ٹریل مانگی جائے تو وہ جواب دینے کی بجائے جیل جانے یا ملک سے فرار ہونے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ابھی کل ہی زرداری صاحب سے گزشتہ 10سال کے اثاثوں کی تفصیلات ’’طلب‘‘ کی گئی ہیں ۔’’رسد‘‘ عنقریب آپ کے سامنے ہو گی یا نہیں ؟میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔جسے ’’نیب‘‘ طلب کرے وہ ’’غیب‘‘ سے مدد مانگتے وقت باآسانی بھول جاتا ہے کہ وہ مجرم ہے۔ایسے حالات میں مولانا فضل الرحمن صاحب سے کیسا گلہ شکوہ یا شکایتچڑھدے سورج ڈھل دے دیکھےبجھدے دیوے بل دے دیکھےہیرے دا کوئی مُل ناں تارےکھوٹے سکے چل دے دیکھےجنہاں دا ناں جگ وچ کوئیاوہ پتر وی پل دے دیکھےضمیر کے بغیر زندگی کا بھی کوئی مزہ ہو گا جو لوگ اسے خوشی خوشی خود اپنے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔

تازہ ترین