• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تعلیم سے میری محبت اتنی دیرینہ ہے کہ اب یہ میری دکھتی ہوئی رگ بن چکی ہے۔ پنجاب سے لے کر وفاق تک تعلیم کو قریب سے دیکھنے کے بعد میں اس شعبہ کی زبوں حالی سے دل گرفتہ ہو چکا ہوں۔ یونیسکو کے ایگزیکٹو بورڈکا تین سال تک منتخب ممبر ہونے کی حیثیت سے اور پھر یونیسکو کے ایجوکیشن کمیشن کا نائب صدر منتخب ہونے کے بعد مجھے شدت سے احساس ہے کہ ہماری ترقی، خوشحالی اور قومی مستقبل کی رگ جاں تعلیم ہے اور اس شعبے میں انقلاب لائے بغیر قومی ترقی کا کوئی خواب پورا نہیں ہوسکتا اور نہ ہم بین الاقوامی سطح پر احترام کما سکتے ہیں۔ امریکہ سمیت بہت سے ترقی یافتہ ملکوں کی تحقیقی رپورٹیں شاہد ہیں کہ شعبہ تعلیم میں سرمایہ کاری سب سے زیادہ سود مند اور منافع بخش ہوتی ہے لیکن افسوس در افسوس کہ تعلیم ہماری حکومتوں کی کبھی ترجیح نہیں رہی اور نہ ہی ہمارے حکمرانوں کو اس کی صحیح افادیت کا کبھی ادراک ہوا ہے۔ ہاں مشرف کے دور میں ڈاکٹر عطاء الرحمٰن کی سربراہی میں ہائرایجوکیشن کے میدان میں قابل قدر کام ہوا لیکن بوجوہ وہ ایجنڈا ادھورا رہ گیا اور بعد میں آنے والی حکومتوں نے اسے پس پشت ڈال دیا۔ یہ موضوع کتابوں اور مقالوں کا ہے۔ تنگ دامن کالم تفصیلات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

میرے لئے یہ باعث اطمینان ہے کہ موجودہ حکومت نے تعلیم کو ترجیح قرار دیا ہے اور وفاقی سطح پر ایک اہل اور قابل وزیر تعلیم بھی مقرر کردیا ہے۔ خود عمران خان ’’نمل‘‘ کے حوالے سے تعلیم کی اہمیت سے آگاہ ہیں اور اس شعبے کا وژن اور تجربہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ یہ توقع کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ موجودہ حکومت تعلیم کی ڈوبتی کشتی کو نہ صرف ڈوبنے سے بچائے گی بلکہ تعلیمی معیار کو بھی عالمی سطح کے برابر لانے کے لئے سنجیدہ اقدامات کرے گی۔ چند روز قبل ایک معزز ماہر تعلیم نے اپنے کالم میں لکھا کہ انہوں نے اب تک بنائی جانے والی تعلیمی پالیسیوں کا مطالعہ کرنے کے بعد کتاب لکھی ہے اور تعلیمی اہداف حاصل کرنے میں ناکامی کا تجزیہ کیا ہے۔ 1998ء کی قومی تعلیمی پالیسی میری نگرانی میں تشکیل دی گئی تھی۔ ہم نے کئی ماہ اس پر دن رات محنت کی تھی۔ صوبوں کے علاوہ اساتذہ، طلبہ، پرائیویٹ سیکٹر اور ماہرین تعلیم کو اس ایکسر سائز میں شامل کیا تھا۔ تعلیمی پالیسی پر عمل درآمد کرنے کے لئے فنڈز اور حکومتی توجہ کی ضرورت تھی۔ کابینہ نے پالیسی کو منظور کرتے ہوئے تعلیم کے لئے بتدریج قومی آمدنی کا پانچ فیصد مختص کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ تعلیمی پالیسی منظور ہوئی اور پھر ایٹمی دھماکہ ہوگیا جس کے سبب بین الاقوامی پابندیاں لگ گئیں اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ حکومت پاکستان کے خرچ پر بیرون ملک بھیجے گئے طلبہ کے اسکالر شپ اور پاکستان چیئرز پر تعینات اسکالرز کی تنخواہیں تک رک گئیں۔ یہ میری زندگی کا نہایت تکلیف دہ مرحلہ تھا کیونکہ انگلستان سے طلبہ اور اسکالرز فون کر کے پوچھتے تھے کہ وہ کس سے قرض لیں اور کہاں سے بھیک مانگیں۔ صوبوں سے فیڈ بیک لینے اور تعلیمی پالیسی کی تکمیل کا جائزہ لینے کے لئے وزیراعظم کی سربراہی میں بورڈ بنایا گیا تھا۔ میری متعدد کوششوں کے باوجود اس کی ایک میٹنگ بھی نہ ہوسکی۔ میں ہر سال یونیسکو کی سفارش کے مطابق تعلیم کے لئے قومی آمدنی کا بتدریج پانچ فیصد مختص کرنے کا مطالبہ کرتا رہا لیکن ہمیں کبھی بھی دو فیصد سے زیادہ نہ ملا۔ ان حالات میں تعلیمی پالیسی ایک نوحہ بن کر رہ گئی۔ اس پالیسی کے آخر میں ایک ورکنگ پلان دیا گیا تھا۔ مشرف حکومت نے اسی پلان کو منظور کر کے عمل درآمد شروع کیا تو دو تین برسوں میں ہائر ایجوکیشن کے میدان میں روشن مستقبل کے امکانات ظاہر ہونے لگے۔

وزیراعظم نے اسکولوں سے باہر دو کروڑ بچوں کے ہاتھوں میں کتابیں پکڑانے کا اعلان کیا ہے جو نہایت خوش آئند ہے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے صوبوں کو متحرک کرنا پڑے گا جہاں میرے علم کے مطابق ہزاروں اسکولوں میں اساتذہ کی کمی ہے، لاتعداد اسکولوں کی عمارتوں پر مقامی بااثر حضرات نے قبضہ کر رکھا ہے، بہت سے اسکول نامکمل عمارتوں حتیٰ کہ قبرستانوں اور درختوں کے نیچے چل رہے ہیں، بہت سے دور دراز دیہی علاقوں میں اسکول موجود ہی نہیں ہیں۔ میں نے اسکولوں کی ایسی عمارتیں بھی دیکھی ہیں جو ویران پڑی ہیں یا پھر کوڑے دان بن چکی ہیں۔

پہلے قدم کے طور پر تمام سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی آسامیوں کو پُر کرنا، اسکولوں میں بنیادی سہولیات فراہم کرنا اور اسکولوں کی نگرانی کے لئے مقامی کمیونٹی یا مقامی حکومت کے سرکاری اداروں کو ذمہ داری سونپنا ضروری ہے۔ ضلعی سطح پر ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی یا آفیسر کے ادارے کو متحرک کئے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا کیونکہ بطور صوبائی ایجوکیشن سیکرٹری میری سروے ٹیموں کی رپورٹیں یہ خوفناک حقائق بیان کرتی تھیں کہ بہت سے اساتذہ صرف تنخواہ لینے اسکول آتے تھے ، ایک بڑی تعداد نے گائوںمیں دکانیں کھول رکھی تھی یا ٹیوشن سنٹر چلانے میں ہمہ تن مصر وف رہتے تھے۔ ہمارے ملک میں تعلیم کا سب سے بڑا سانحہ اساتذہ کا پڑھانے کے جذبے سے محروم (De Motivated)ہونا اور پیسہ کمانے کی دوڑ میں شریک ہونا ہے۔ دن رات ٹیوشن پڑھانے والے یا ٹیوشن اکادمیاں چلانے والے اسکول اور کالج میں محض وقت گزارنے تشریف لاتے ہیں۔ دیہی علاقوں کے کالجوں میں سارے مضامین پڑھانے کے لئے اساتذہ ہی موجود نہیں اور خاص طور پر سائنس ، ریاضی، انگریزی وغیرہ پڑھانے والے اساتذہ کی آسامیاں خالی رہتی ہیں۔ چنانچہ ان علاقوں کے طلبہ خواہش کے باوجود میڈیکل یا انجینئرنگ نہیں پڑھ سکتے۔ مطلب یہ کہ دو کروڑ بچوں کو اسکولوں میں لانا تو دور کی بات ہے جو طلبا وطالبات سرکاری اداروں میں زیر تعلیم ہیں خود ان کی زبوں حالی نہایت تکلیف دہ ہے۔ اگرچہ اس خلا کو پرائیویٹ سیکٹر نے پر کرنے کی کوشش کی ہے لیکن بہت سے والدین ان کی فیسیں افورڈ نہیں کرسکتے۔ دوسرا ظلم یہ ہوا کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت کورس سلیبس یعنی کری کلم صوبوں کے حوالے کردیا گیا ہے جو اس سے قبل مشترکہ فہرست میں شامل تھا۔ وفاقی وزارت تعلیم پورے ملک کے کورس اور کری کلم پر نظر ثانی کر کے اسے ترقی یافتہ ممالک کے برابر (At Par)لانے کی مسلسل مشق (ایکسر سائز) کرتی رہتی تھی اور اس عمل میں بہترین، ماہرین تعلیم شامل کئے جاتے تھے۔ ان وقت صورت حال یہ ہے کہ ہم سائنس ٹیکنالوجی کمپیوٹر آئی ٹی اور ریسرچ کے دور میں اپنے بچوں کو کئی دہائیاں پرانا کری کلم پڑھا رہے ہیں۔ رہا دو کروڑ بچوں کو اسکولوں میں لانے کا ہدف تو یہ خواب محض تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے سے شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ ان بچوں کی ایک بڑی تعداد ’’کمائو بچوں‘‘ پر مشتمل ہے جو والدین کے لئے ذریعہ آمدنی ہیں۔ اس لئے جب تک کمائو بچوں کے والدین کو ماہانہ مالی امداد نہیں دی جائے گی۔ یہ بچے اسکولوں میں نہیں آئیں گے۔ پھر کیا ان کے لئے اسکول اور اساتذہ موجود ہیں۔ میری اطلاع کے مطابق بہت سی این جی اوز اسٹریٹ چلڈرن اور کمائو بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے کام کررہی ہیں۔ ان کی مالی امداد اور حوصلہ افزائی ضروری ہے اگرچہ ان کا دائرہ صرف شہروں تک محدود ہے۔ شرح خواندگی کو بڑھانے کے لئے بہت سے اقدامات کی ضرورت ہے ورنہ ہمارا شمار جاہل اقوام میں ہی ہوتا رہے گا۔

فکری، سائنسی اور ذہنی انقلاب ہائر ایجوکیشن کے میدان سے جنم لیتا ہے لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا ہائر ایجوکیشن کا معیار اور کوالٹی اس قدر پسماندہ ہے کہ ہماری کوئی یونیورسٹی بھی عالمی رینکنگ میں پہلی پانچ سو یونیورسٹی میں موجود نہیں۔ ریسرچ ہائر ایجوکیشن کی روح سمجھی جاتی ہے لیکن ریسرچ میں نقل (Plagrism)اور جعلی ڈگریاں عالمی سطح پر ہماری پہچان بن چکی ہیں۔ نہ اساتذہ میں پڑھانے کا جذبہ ہے اور نہ طلبہ میں تحصیل علم کی آرزو۔ چند یونیورسٹیوں کے سوا پرائیویٹ سیکٹر میں یونیورسٹیاں دولت کمانے کی فیکٹریاں اور ڈگریاں بانٹنے کی دکانیں بن چکی ہیں۔ہائیر ایجوکیشن کمیشن ان یونیورسٹیوں میں نہ معیار تعلیم کو یقینی بناسکا ہے نہ ان کی جعل سازیوں کا تدارک کرسکا ہے۔ سرکاری یونیورسٹیوں کے معیار کو بلند کرنے کے ساتھ ساتھ ’’نمل‘‘ کی مانند بین الاقوامی سطح کی یونیورسٹیوں کے کیمپس پاکستان میں قائم کرسکتے ہیں تو پاکستان بھی بہرحال کرسکتا ہے۔ ان یونیورسٹیوں میں مستحق طلبہ کے اخراجات کی ذمہ داری حکومت کی ذمہ داری ہونی چاہئے۔ ہزاروںباتیں رہ گئیں۔ باقی ان شاء اللہ پھر کبھی کیونکہ تعلیم میری دکھتی ہوئی رگ ہے۔ میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پراس شعبے سے وابستہ بھی رہا ہوں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین