• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

25جولائی کے انتخابات میں مبینہ بے قاعدگیوں کا شور اُٹھا۔ الزامات کا طوفان اُٹھانے والوں میں تحریکِ انصاف کے سوا تمام سیاسی جماعتیں شامل تھیں۔ ان میں سے بعض نے حلف نہ اُٹھانے کی تجویز بھی دی، مگر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون نے اس طرف جانے سے گریز کیا اور اِس امر پر زور دیا کہ انتخابات میں الزامات کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیشن قائم کیا جائے۔ عمران خان نے انتخابی کامیابی کے بعد ٹی وی پر جو تقریر کی، اس میں واضح اعلان ہوا کہ وہ ان تمام انتخابی حلقوں کو کھولنے میں تعاون کریں گے جن کی نشان دہی اپوزیشن کرے گی۔ اس جذبۂ تعاون کو بڑی پذیرائی ملی، مگر جب خواجہ سعد رفیق لاہور کے ایک حلقے میں ووٹوں کی گنتی کا معاملہ لاہور ہائی کورٹ میں لے گئے جس نے دوبارہ گنتی کے احکام صادر کر دیے۔ اس پر عمران خاں سپریم کورٹ میں چلے گئے اور دوبارہ گنتی کی شدید مخالفت کی۔ سنجیدہ حلقے عمران خان کے اِس موقف پر حیران رہ گئے جس میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی میں تعاون کرنے سے انکار کیا تھا۔

انتخابات کو منعقد ہوئے ایک ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے، مگر مبینہ بے قاعدگیوں کی تحقیقات کے لیے ابھی تک پارلیمانی کمیشن وجود میں نہیں آیا ہے۔ وقتی طور پر انتخابات میں مبینہ بے قاعدگیوں کا تنازع پس منظر میں چلا گیا ہے اور مولانا فضل الرحمٰن جو اس تجویز کے محرک تھے کہ منتخب ارکان حلف نہ اُٹھائیں، اب وہ بھی سسٹم کا حصہ بن جانے پر آمادہ ہیں جو بگاڑ کے بجائے بناؤ کے عمل میں یقیناً مددگار ثابت ہو گا۔ حکمران جماعت کو انتخابات میں الزامات کا تنازع خوش اسلوبی سے نمٹانے کے لیے پیش قدمی کرنی چاہیے۔ انتخابات میں غیر سیاسی عناصر کا مستقل بنیادوں پر سدِباب جمہوری کلچر کے فروغ اور جمہوری اداروں کے استحکام کے لیے حددرجہ لازم ہے۔

جناب عمران خان جو بےپایاں صلاحیتوں کے حامل ہیں، اُنہیں اپنی تمام ترتوجہ اپنی توانائیوں کے درست استعمال پر مرکوز کرنا ہو گی۔ حلف ِوفاداری کی تقریب اور اس کے بعد پے درپے ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جو حالات کو غلط رُخ پر لے جا سکتے ہیں۔ وہ قوم کو تواتر کے ساتھ یہ تاثر دیتے رہے کہ ان کی سیاسی جماعت حکومت سنبھالنے کے لیے پوری طرح تیار ہے، ہوم ورک بڑی جانفشانی سے کیا جا چکا ہے اور باصلاحیت پروفیشنلز بڑی تعداد میں دستیاب ہیں، مگر جب وہ وزارتِ عظمیٰ کا حلف اُٹھانے آئے، تو اُن کی زبان لڑکھڑاتی رہی جو اِس بات کی چغلی کھا رہی تھی کہ ریہرسل نہیں کی گئی تھی۔ وہ خاتم النبیینؐ کے الفاظ بھی ادا نہیں کر سکے جس کے باعث عوام کے اندر طرح طرح کی افواہیں اور بدگمانیاں گردش کرنے لگیں۔ میرا دل اُن سے یہ کہنے کے لیے مضطرب ہے کہ اُنہیں اپنے منصب کا حلف دوبارہ اُٹھانا اور خاتم النبیینؐ کے الفاظ درست انداز میں ادا کرنے چاہئیں۔ دوبارہ حلف اُٹھانے کی مثالیں موجود ہیں۔ امریکی صدر اوباما نے حلف اُٹھانے میں خامی رہ جانے سے دو رَوز بعد اپنے منصب کا دوبارہ حلف اُٹھایا تھا۔ میرا وجدان کہتا ہے کہ صحیح انداز میں دوبارہ حلف اُٹھانے سے بناؤ کے راستے کھلتے جائیں گے اور دو ہفتوں کے دوران بگاڑ کے جو عجیب و غریب مناظر دیکھنے میں آئےہیں، ان کے اصلاح کے امکانات روشن ہوتے جائیں گے۔

وزیراعظم عمران خان نے ستر منٹ پر محیط قوم سے جو خطاب کیا، اس نے دوستوں اور حریفوں سب کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ ہمارے عظیم دانش ور اور صاحبِ اسلوب کالم نگار جناب ایاز امیر اس قدر متاثر ہوئے کہ وہ خان صاحب کی ذہانت، تجزیے کی قوت اور مستقبل بینی کی غیر معمولی صلاحیت پر ایمان لے آئے، مگر اس کے فوراً ہی بعد مملکت کی بنیادیں اور تہذیب و شائستگی کی متاعِ گراں مایہ کو بھسم کر دینے والے واقعات رونما ہونے لگے۔ میں 1996ء میں جناب محمودالرشید کے ہمراہ عمران خان سے ملا تھا جب اُنہوں نے پاکستان تحریکِ انصاف کی بنیاد رکھی تھی اور معاشرے کو انصاف اور میرٹ فراہم کرنے کا عزم کیا تھا۔ اکتوبر 2011ء میں ان کی سیاسی کاوشوں کا زبردست مظاہرہ ہوا اور مینارِ پاکستان کے سائے تلے اُن کے جلسۂ عام میں نوجوان اور خواتین کشاں کشاں چلی آئیں۔کمزور تنظیمی ڈھانچے اور حد سے بڑھی ہوئی خوداعتمادی کے سبب عمران خان وزیراعظم نہ بن سکے۔ اس ناکامی کا غصہ وہ پانچ برسوں کے دوران مختلف انداز سے نکالتے رہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ دعوے بھی کرتے رہے کہ وہ الیکٹ ایبلز، آزاد اُمیدواروں، بینکوں سے قرضے معاف کرانے والوں اور ناجائز ذرائع سے دولت سمیٹنے والوں کو شریکِ سفر نہیں کریں گے، لیکن ایک روز اُن پر منکشف ہوا کہ الیکٹ ایبلز تو انتخابات جیتنے کا ہنر جانتے ہیں۔ تب تحریکِ انصاف کے دروازے اخلاق باختہ عناصر پر بھی کھل گئے، لیکن عوامی بیداری کی بدولت 2018ء کے انتخابات میں الیکٹ ایبلز خاصی تعداد میں شکست کھا گئے، مگر جو کامیاب ہوئے اور آزاد اُمیدواروں کی شمولیت نے تحریکِ انصاف کے وفاشعار سیاسی ساتھیوں کو پس منظر میں دھکیل دیا۔ داخلی کشمکش سے جناب عمران خان کی قوتِ فیصلہ ماؤف ہوتی جا رہی ہے۔ اُنہیں پنجاب کا وزیرِاعلیٰ تلاش کرنے میں ایک ہفتہ لگا اور وفاقی کابینہ ابھی تک تشنۂ تکمیل ہے۔ جن افراد پر مشتمل وفاقی اور صوبائی کابینہ تشکیل دی گئی ہیں، ان میں بیشتر کرپشن میں لتھڑے ہوئے اور حقیقی تبدیلی کے ایجنڈے سےناآشنا ہیں۔

چند ہفتوں میں جو حادثے ہو گئے ہیں، وہ لوگوں کو قیامت تک یاد رہیں گے۔ جماعت کے مزاج میں خودسری کا یہ عالم ہے کہ سندھ اسمبلی میں تحریکِ انصاف کے رُکن عمران شاہ نے ایک شہری کو زدوکوب کر کے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ پاکپتن میں خاور مانیکا شاہی مسلط ہے۔ اُسے قانون توڑنے، اسلحہ لہرانے اور فرض شناس افسروں سے بدترین سلوک روا رَکھنے کی اجازت ہے۔ نہایت پس ماندہ علاقے سے منتخب کیے جانے والے وزیرِاعلیٰ جناب عثمان بُزدار نے ڈی پی او جناب رضوان گوندل اور آر پی او جناب شارق کمال صدیقی 7۔کلب روڈ طلب کیے اور اُنہیں خاور مانیکا کے گھر جا کر معافی مانگنے کا حکم دیا گیا۔ ان غیور افسروں نے اس پر عمل کرنے سے انکار کر دیا۔ اس دلخراش رویے پر انتظامیہ اور پولیس کے اندر شدید ردِعمل پایا جاتا ہے۔ بڑے کاموں پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے حکومت ہیلی کاپٹر کے استعمال اور پروٹوکول کے مسائل میں اُلجھ کر رہ گئی ہے۔ وزیرِاعلیٰ پنجاب ہیلی کاپٹر میں اپنی فیملی کے ساتھ میاں چنوں گئے اور ہسپتال آمد پر ڈاکٹر اُن کے گرد جمع ہو گئے اور اِسی دوران ایک بچی دم توڑ گئی۔ حالات کے بگاڑ میں سوشل میڈیا پر تحریکِ انصاف کے جیالے بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ عظیم اور جرأت مند صحافی سلیم صافی نے صرف اتنا کہا تھا کہ سابق وزیراعظم نوازشریف وزیراعظم ہاؤس کے باورچی خانے کے اخراجات خود اُٹھاتے رہے ہیں۔ اس پر ان کے خلاف غلاظت بھری زبان استعمال کی جا رہی ہے جو تحریک ِانصاف کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے۔ حیرت کی بات یہ کہ جو تجزیہ نگار ایک زمانے میں تحریک ِانصاف کے گُن گاتے تھے، آج وہ کڑی تنقید کر رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو اپنے ممدوحین کے فسطائی مزاج پر قابو پانا اور بالغ نظری اور کشادہ دلی کا ثبوت دینا ہوگا اور ستمبر کے مہینے میں جنرل اسمبلی میں جا کر خارجی اُمور کی گتھیاں سلجھانا ہوں گی۔ انہیں معیشت کی گرتی ہوئی صحت کو سنبھالا دینے کے لیےتارکینِ وطن میں اپنے اثرورسوخ کو بروئے کار لانا چاہیے۔

تازہ ترین