• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ گورنمنٹ کالج لاہور کا طالبعلم تھا، اس کے تایا پنجاب کے گورنر تھے، گورنر صاحب بڑے دلیر آدمی تھے، عمدہ سیاسی سوجھ بوجھ کے علاوہ قانونی نکات بھی خوب جانتے تھے، وزیر اعظم ان سے بہت زیادہ سیاسی مشاورت کرتی تھیں، سیاسی تاریخ کا علم رکھنے والے اس سے بخوبی آگاہ ہیں، تایا کے گورنر ہونے کے باعث یہ نوجوان گورنر ہائوس میں رہتا تھا، گورنمنٹ کالج لاہور میں ہمارا جونیئر تھا مگر اس وقت بھی اس کی تمام چالیں سیاسی ہوتی تھیں، اصغر ندیم سید جیسے استاد اسے اردو پڑھاتے تھے، وہ ہماری طرح نیو ہوسٹل میں نہیں رہتا تھا بلکہ کالج ٹائم کے بعد گورنر ہائوس چلا جاتا تھا، جہاں مختلف سیاسی شخصیات کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ وہ اس آمد و رفت کو بغور دیکھتا، سوچتا اور سیاسی مقبولیت کے دائو پیچ سیکھتا۔ پھر ایک دن ایسا آیا کہ اُس نے اپنے تایا کو حیران کر دیا، اُس نے بڑی خاموشی کے ساتھ گورنر ہائوس سے لاہور کے معززین کی فہرست حاصل کی، نامی گرامی صحافیوں کی فہرست بھی پکڑ لی، وہ عید سے قبل یہ دونوں فہرستیں لے کر ایک بڑے ہوٹل میں چلا گیا، وہاں آرڈر دیا کہ میں چاہتا ہوں کہ عید کے موقع پر ان گھروں میں گورنر صاحب کی طرف سے کیک جائے۔ ہوٹل والوں نے کہا کہ ان تمام گھروں میں کیک پہنچ جائیں گے، ساتھ ہی انہوں نے بل بتا دیا، اس نوجوان نے بل ادا کیا اور چلا گیا۔ اس کے تایا گورنر صاحب کو اس بات کا بالکل علم نہیں تھا، جونہی عید کا مرحلہ آیا تو کچھ معززین نے گورنر صاحب کو مبارک دی، ان کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے عید کے موقع پر انہیں یاد رکھا۔ جب مزید فون آئے تو کیک کا تذکرہ ذرا زیادہ ہونے لگا، گورنر صاحب حیران تھے کہ یہ کام کس نے کیا ہے۔ انہوں نے اسٹاف سے پوچھا مگر کسی کو پتہ ہی نہیں تھا، اس پر تحقیقات شروع ہو گئیں تو پتہ چلا کہ یہ نیک کام گورنر صاحب کے اس نوجوان بھتیجے نے کیا ہے جو گورنمنٹ کالج لاہور میں زیر تعلیم ہے۔ خیر گورنر صاحب اپنے بھتیجے کی اس چال پر خوش ہی نہیں بلکہ بہت خوش ہوئے۔ برسوں پرانی بات ہے پھر ایک شام کھانے پر گورنر صاحب اپنے بھائیوں سے کہنے لگے کہ یہ درست ہے کہ میری زمینی وراثت میرے اپنے صاحبزادے کو جائے گی مگر میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میری ذہنی وراثت میرے اس بھتیجے کو جائے گی جس نے عید کے موقع پر معززین شہر کے ہاں کیک بھجوا کر میری عید کا مزہ دوبالا کر دیا ہے۔

دوستو! یہ کوئی صدیوں پرانا یا مغل بادشاہوں کا قصہ نہیں ہے بلکہ پچیس تیس سال پرانا ہے۔ یہ کہانی پنجاب کے سابق گورنر چوہدری الطاف حسین اور ان کے بھتیجے فواد چوہدری کی ہے۔ فواد چوہدری آج کل پاکستان میں اطلاعات کے وفاقی وزیر ہیں، ان کے کزن اور چوہدری الطاف حسین کے صاحبزادے فرخ الطاف قومی اسمبلی کے رکن ہیں، جہلم کی ایک نشست سے وہ جیتے جبکہ دو نشستوں سے چوہدری فواد حسین کامیاب ہوئے، ان کی اس کامیابی کے پس پردہ جہاں اور بہت سے کردار ہیں وہاں ان کا اپنا بھائی فراز چوہدری بہت نمایاں ہے۔ اس نوجوان کا کردار بڑا موثر رہا، اس نے الیکشن جیتنے کے لئے الگ سے حکمت عملی ترتیب دی اور اس کی حکمت عملی اوروں سے زیادہ کامیاب رہی۔ پھر ان نوجوانوں کے سر پر چوہدری شہباز حسین موجود تھے، مشرف دور میں جو وفاقی کابینہ تھی، اس میں ایک ہی ڈھنگ کا آدمی تھا، اس کا نام تھا چوہدری شہباز حسین۔ جی ہاں یہی چوہدری شہباز حسین جو فواد چوہدری کے انکل ہیں۔ مجھے یہ تمام باتیں اس لئے یاد آ رہی ہیں کہ آج کل فواد چوہدری کی ہیلی کاپٹر سے متعلقہ گفتگو زبان زدعام ہے، کئی لوگوں نے اس پر بڑی پھبتیاں کسنے کی کوشش کی ہے۔ فواد چوہدری نے تو یہ بات علامتی طور پر کی تھی مگر سیاسی مخالفین نے اسے خوب اچھالا، اوپر سے پی ٹی آئی مخالف میڈیا پرسنز نے جلتی پر تیل ڈالا مگر کاش وہ تحقیق کر لیتے۔ اگر آپ تحقیق کریں تو یہ بات کھل کر سامنے آئے گی کہ اگر ہیلی کاپٹر کرائے کا نہ ہو تو وہ واقعی وزیر اعظم ہائوس سے بنی گالہ جانے کے لئے سستا پڑتا ہے۔ ہیلی کاپٹر میں جیٹ فیول استعمال ہوتا ہے، اگر آپ جیٹ فیول کی قیمت اور وزیر اعظم ہائوس سے بنی گالہ کا فضائی فاصلہ دیکھیں پھر جمع تفریق کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ جو قیمت فواد چوہدری نے بتائی ہے، ہیلی کاپٹر اس سے بھی سستا پڑتا ہے۔ یہ جاننے کے لئے کوئی لمبی چوڑی سائنس نہیں چاہئے آپ صرف پاکستان میں جیٹ فیول کی قیمت دیکھ لیں، وزیر اعظم ہائوس سے بنی گالہ کا فضائی فاصلہ دیکھ لیں اور اس کے بعد ہیلی کاپٹر کمپنی کی طرف سے دیا گیا فی کلو میٹر خرچا دیکھ لیں، آپ کو یقین ہو جائے گا کہ فواد چوہدری نے جو کہا ہے وہ درست کہا ہے۔

خواتین و حضرات! آج کل صدارتی الیکشن ہو رہے ہیں، امیدواروں کا آپ کو پتہ ہی ہے، میں یہاں ایک ضروری بات کرنا چاہتا ہوں کہ اگر میں مسلم لیگی ہوتا تو کبھی ایسے شخص کے ساتھ کھڑا نہ ہوتا جس نے پاکستان کا یومِ آزادی منانے سے انکار کیا ہو، میں کبھی ایسے شخص سے ملتا بھی نہ، میں ایسے صدارتی امیدوار کے حق میں کوئی بات نہ کرتا جس کے اجداد نے میرے پیارے پاکستان کے بانی کے بارے میں غلط باتیں کی ہوئی ہوں، میں ایسے امیدوار کے اردگرد کھڑے لوگوں کو کبھی مسلم لیگی بھی نہ مانتا کیونکہ کوئی سچا مسلم لیگی ایسا کر ہی نہیں سکتا، ہاں البتہ جماعت اسلامی یا دوسری پارٹیوں سے مسلم لیگ میں آنے والے ایسی باتیں کر سکتے ہیں۔

خواتین و حضرات! اگر میں صدارتی امیدوار کا ووٹر ہوتا تو میں چوہدری اعتزاز احسن کو ووٹ دیتا، میری نظر میں تینوں امیدواروں میں سے چوہدری اعتزاز احسن سب سے بہتر امیدوار ہیں، سب سے زیادہ پڑھے لکھے ہیں، دانشور ہیں، شاعر ہیں، ان کی پارلیمانی خدمات بہت زیادہ ہیں، ان کی جدوجہد پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بہت زیادہ ہے، وہ نامور قانون دان ہی نہیں بڑے پائے کے مقرر ہیں، خدا نے انہیں خطابت کا جوہر دے رکھا ہے، ان کی کئی طولانی تقریریں قومی اسمبلی کا حسن ہیں۔ اعتزاز احسن خود بھی خوبصورت آدمی ہیں، تینوں امیدواروں میں سے سب سے زیادہ خوبصورت ہیں، کئی زبانوں کے ماہر ہیں، کئی کتابوں کے خالق ہیں، تحریر اور تقریر دونوں پر عبور رکھتے ہیں۔ راوین ہیں، گورنمنٹ کالج لاہور کی ڈبیٹنگ کلب کا ’’چہرہ‘‘ ہیں۔ سچی بات تو یہی ہے کہ تینوں صدارتی امیدواروں میں سے سب سے بہتر چوہدری اعتزاز احسن ہی ہیں مگر یہ جمہوریت ہے، جمہوریت میں بہتر کو کون دیکھتا ہے، جمہوریت میں تو عددی اکثریت کی بات چلتی ہے، عددی اکثریت کے اعتبار سے ڈاکٹر عارف علوی جیت جائیں گے، مغربی طرز جمہوریت بھی کیا غلامی کی نشانی ہے جو بہتر کو پیچھے کر دیتی ہے۔ آج کل چوہدری اعتزاز احسن کی ایک نظم ’’کل، آج اور کل‘‘ سوشل میڈیا پر بہت چل رہی ہے، میں اس نظم میں سے نہیں بلکہ اعتزاز احسن کی ایک غزل کا شعر پیش کرنا چاہتا ہوں کہ ؎

اعتزازؔ یہ بستی سائے کو ترستی ہے

سارے چھت ہیں شیشے کے، سائباں شیشے کا

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین