• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے اپنے بچپن میں گلی محلے کے ننگ دھڑنگ بچوں کو گالیاں دیتے دیکھا ہے لیکن اب احساس ہوتا ہے کہ ان کی وو کیبلری بہت محدود تھی، ان کے مقابلے میں سوشل میڈیاپر اعلیٰ تعلیم یافتہ مگر اندر سے ننگ دھڑنگ جس’’کلاس‘‘ کے افراد کی گالیاں پڑھتا ہوں تو سوچتا ہوں گلی محلے کے بچوں کو ان کی صحبت نصیب نہیں ہوئی ورنہ ان کی گالیوں کا دائرہ اتنا محدود نہ ہوتا۔ سلیم صافی کے ایک وضاحتی جملے پر اس ننگ دھڑنگ مخلوق نے جس طرح آسمان سر پر اٹھایا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک تو گالی اب ہمارا کلچر بن چکی ہے اور دوسرے یہ کہ جس قسم کی جمہوریت یہ چاہتے تھے اور اس کی مثالیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر مہذب ملکوں سے لاتے تھے ، یہ اس پر یقین نہیں رکھتے تھے بلکہ ان کی جمہوریت کی تعریف یہ ہے کہ کسی سے تعریف سن کر اسے مہاتما کا درجہ دے دو اور اختلاف کرنے والوں کو ماں بہن کے حوالے سے اتنی تنوع قسم کی گالیاں دو جو کسی بھی لغات میں کہیں بھی نظر نہ آئیں۔

ایسا صرف سلیم صافی کے ساتھ نہیں ہوا، میں دوستوں کے ٹویٹ پڑھتا ہوں جس میں نہایت سنجیدگی سے کوئی بات کی گئی ہوتی ہے مگر ننگ دھڑنگ مخلوق کو وہ بات پسند نہ آئے تو ان کی قیمتی آراء پڑھنے والی ہوتی ہیں ، اللہ جانے یہ لوگ کن کونوں کھدروں سے نکل کر ہمارے درمیان آ گئے ہیں کیونکہ ہم لوگ ایک دوسرے سے اختلافی مسائل پر گھنٹوں بحث کیا کرتے تھے، درمیان میں تلخی بھی آ جاتی تھی ، مگر اس سے پیدا ہونے والی تلخی لمحاتی ہوتی تھی اس کے ساتھ ہی ماحول نارمل ہو جاتا تھا، اب تو ’’یس سر ،یس سر‘‘ کہتے رہیں تو عزت بچ سکتی ہے ، بصورت دیگر آپ کے گھرانے کی کوئی عفت مآب خاتون ان کی ہرزہ سرائی کی زد میں آئے بغیر نہ رہ سکے گی۔سلیم صافی کو گالیاں دینے والوں کی خوش قسمی ہے کہ یہ پٹھان اب صرف قلم سے کام لیتا ہے یا ٹی وی پر زبان سے کہتا ہے جو کہنا ہو ۔ اس نے اپنی بندوق گھر کے آخری کمرے میں دھری سب سے آخری کنارے پر دھری لوہے کی پیٹی کے سامان کے آخری حصے میں چھپا کر رکھ دی ہوئی ہے کہ اگر کبھی اشتعال آ بھی جائے تو بندوق نکالتے نکالتے اتنا وقت لگ جائے کہ غصہ ٹھنڈا پڑ جائے۔ اگر ایسا نہ کیا ہوتا تو دو چار بندے تو اس وقت منکر نکیر کے سوالوں کا جواب دے رہے ہوتے۔

خود میرے ساتھ سلیم صافی سے بھی کہیں زیادہ ’’سلوک‘‘ ہوا ہے۔ اس مخلوق کےمنہ سے جھڑتے ہوئے پھولوں کی زد میں آیا ہوں اور آتا ہی چلا جا رہا ہوں، مگر بدقسمتی سے ہمارے گھر میں تو صرف سبزیاں کاٹنے والا ایک کھنڈا سا چاقو ہے یا ایک ہزار سال سے کتابوں کے ڈھیر ہیں۔مگر غصہ تو مجھے بھی آتا ہے تاہم میں نے اس کا ایک بہت سائنسی حل نکالا ہے اور وہ یہ کہ پی جاتا ہوں، چنانچہ اب جتنا بھی غصہ ہے وہ میرے اندر جمع ہو چکا ہے ، اگر کبھی مجھے کسی آپریشن سے گزرنا پڑا تو ڈاکٹر حیران رہ جائیں گے کہ خون کی تو ایک بوند بھی نہیں نکلی۔ مگر ایک عجیب و غریب قسم کا مادہ کثیر تعداد میں دکھائی دے رہا ہے ۔ انہیں تو سمجھ نہیں آئے گی ، مجھے ہی بتانا پڑے گا کہ جناب یہ غصہ ہے۔ اسےنہ نکالیں، میں جو کچھ آج تک لکھ سکا ہوں، اپنے دکھ کو اپنے اندر رکھنے کی وجہ سے لکھ سکا ہوں ۔ دکھ مجھےفرسٹریٹ کرتا ہے اور میں اپنی فرسٹریشن ختم کرنے کے لئےغزل ، نظم، ڈرامہ، کالم سفر نامے اور مزاحیہ تحریریں لکھنے بیٹھ جاتا ہوں ۔ اسے اندر ہی رہنے دیں ۔ اگر یہ نکالا تو اس کے بعد میں صرف لڑائی مار کٹائی ہی کر سکوں گا، لکھنے پڑھنے کا کام بالکل نہیں ہوگا۔ دکھ انسان کو لکھاری بناتے ہیں بصورت دیگر انسان ’’دکھی پریم نگر ی‘‘ بن کر رہ جاتا ہے۔

یہ سب کچھ اپنی جگہ لیکن یہ خیال مجھ بہت تنگ کرتا ہے کہ گالی تو ازل سے موجود ہے اور ابد تک رہے گی۔ مگر یہ ہمیشہ ایک محدود طبقے تک محدود رہتی ہے اور اس کا زیادہ استعمال محروم طبقے میں ہوتا ہے جو اپنی محرومیوں کا غصہ گالی دے کر نکال لیتے ہیں ۔ پڑھے لکھےاور کھاتے پیتے لوگ بھی گالی دیتے ہیں مگر وہ عموماً ایک محدود دائرے میں رہتی ہے۔ ہمارے درمیان یہ طبقہ کب پیدا ہوا جس کا اوڑھنا بچھونا ہی گالی ہے۔ ان کو کسی کی ماں بہن بیٹی کی حرمت کا خیال تک نہیں آتا ۔ گالی ہر کوئی برداشت نہیں کرتا اس کا رد عمل بھی کئی دفعہ سامنے آتاہے اور وہ آنا شروع بھی ہو چکا ہے۔ بلکہ نوبت ہاتھا پائی تک بھی پہنچ گئی ہے، ذرا سوچیں کہ کوئی ہمیں خانہ جنگی کی طرف تو نہیں دھکیل رہا؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین