• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اینکر چیخ رہے ہیں ہیلی کاپٹر سے زیادہ شور ہو رہا ہے۔ پاکپتن کے سابقہ ڈی پی او سے کہیں بڑھ کر خبریں پھڑ پھڑا رہی ہیں۔ ابھی تک تیسرے کسی کھڑکی توڑ الزام کا پوسٹر دیواروں پر چسپاں نہیں ہوا۔ بس انہی دو فلموں کے دن میں بارہ بارہ شو دکھائے جارہے ہیں۔ عامر لیاقت کے اک ذرا گلے پر مخالفین نے تن ننا ہا یاہو (لل لالالالا لا)کا نعرہ ِ سر مست بلند کیا جیسے سہاگ رات میں آوازہ ِ طلاق گونج اٹھا ہو ۔کیا کہوں اِس خودساختہ احتجاج پر۔ بے وجہ ذہن کی سڑک پر جلتے ہوئے ٹائر۔ حکومت کو کمزور کرنے کی خواہشِ نا تمام۔ میں انہیں کیا کہوں جنہیں چاق و چوبند حکومت لڑکھڑاتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ توپوں میں کیڑے پڑنے کی بددعائیں کہاں پوری ہوتی ہیں۔

نواز شریف سے جیل میں ملنے والے کالم نگار کامیاب۔ قربِ اقتدار کی تمنا پوری۔ وزیر اعظم ہائوس کے دروازے پر پہنچ گئے۔ سوشل میڈیا پر دشنام سننے والوں کے حق میں ریلیاں نکالنے کے خوابوں پر قہقہے لگانا اچھی بات نہیں۔ اینکرز اور کالم نگاروں کو بھی لیڈر بننے کا حق ہے۔ شہرت اور سرمایہ کے حصول کے بعد خواہشِ اقتدار کوئی اچبنے کی بات نہیں۔ شور مچانے دویار۔ارشاد بھٹی ’’تھوڑا صبر‘‘ کہنے کی کیا ضرورت ہے۔ انا کے زخم خوردوں کو پھپھولے پھوڑنے دو۔مجھے تو یہ ’’نمک حلال ‘‘ اچھے لگ رہے ہیں اور جو اپنی طرف آرہا ہے اسے بھی آنے دو۔ ہم مسلمان ہیں اور فتح ِ مکہ کا واقعہ ہمیں یہی سبق دیتا ہے مگر وہ جن کے کانوں میں سیسہ بھر دیا گیا ہے اور جن کی آنکھوں میں سلائیاں پھیر دی گئی ہیں ہم اُن کا تو کچھ نہیں کر سکتے۔

کچھ دوست ابھی تک بے یقینی کے عالم میں ہیں یا بڑے بے صبرے ہیں۔ بارہ دن پورے نہیں ہوئے اور کہنے لگے ہیں کہ’’یہ دن بھی وہی کل سا، دوبارہ نکل آیا‘‘۔ یہ بات وہی ہے جو فیض نے کہی تھی ’’یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر ‘‘۔ انہیں کیسے سمجھایا جائے کہ وزیر اعلیٰ اگر لاہور سے پاکپتن بائی روڈ جاتے تو سیکورٹی کے لئے کتنے سو پولیس کے ملازم راستے میں کھڑے کرنے پڑتے۔ پتہ نہیں کیا کیا کرنا پڑتا۔ ابھی دہشت گردی سے ملک پوری طرح محفوظ نہیں۔ ایسے میں ہیلی کاپٹر کا استعمال سب سے سستا سودا ہے۔ 

وہ جو کہتے ہیں بکریاں چرانے والا یعنی بزدار وزیر اعلیٰ بن گیا ہے۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ’’بزداری‘‘ یعنی بھیڑیں بکریاں چرانا سنت ِ نبویؐ ہے۔ کوسنے دینے والوں کو یہ بھی تکلیف ہے کہ وزیر اعلیٰ کو بات تک کرنا نہیں آتی۔ سمیع اللہ چوہدری کو پیچھے سے لقمے دینے پڑتے ہیں۔ ہائے ہائے۔ جب اہلِ سوال شرارت پر آمادہ ہوں تو سادہ لوح وزیر اعلیٰ کے مشیروں کا بھی کچھ تو حق ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مشیر اور وزیر ہوتے ہی اسی کام کے لئے ہیں۔ بس میڈیا کے سامنے آنے سے تھوڑا سا پہلے مشورہ دیا کرتے ہیں کہ کیا کہنا ہے مگر تونسہ کے ٹاٹوں والے اسکولوں میں پڑھنے والوں کو تھوڑا سا مارجن تو دیں۔ تھوڑی بہت بوکھلاہٹیں تو سامنے آئیں گی۔ خیر بوکھلاہٹیں چیک کرنے کے لئے عمران خان نے بھی خفیہ ٹاسک فورس بنا دی ہے۔ بہرحال اس وقت وزیر اعلیٰ کو چاہئے کہ وہ صاحبانِ میڈیا کو اپنے علاقے کا دورہ کرائیں۔ انہیں وہاں کے خستہ حال اسکول دکھائیں۔ وہاں اجڑے اسپتالوں کا معائنہ کرائیں، میڈیا کو بتائیں کہ پنجاب کے سابق حکمرانوں نے وہاں کی پسماندگی میں کتنا اضافہ کیا ہے۔ ابھی تک تو وزیر اعلیٰ کا جہاں گھر ہے وہاں سڑک اتنی ناگفتہ بہ ہے کہ جیو ٹی وی کی دو گاڑیاں وہاں تک پہنچنے کی لگن میں پانی میں بہہ گئی تھیں۔ بجلی وہاں نہیں ہے۔ اب تو بڑے بڑے بیورو کریٹس کو وہاں جانا پڑے گا۔ یقیناً اب بجلی بی بی بھی رقص کرتی ہوئی وہاں پہنچے گی۔ روڈ بھائی بھی دھمال ڈالتے ہوئے وزیر اعلیٰ کے گائوں میں داخل ہوں گے۔ اب وہاں بھی ’’ماڈل ولیج‘‘ بنیں گے۔ تونسہ میں ’’سرائیکی یونیورسٹی‘‘ بنے گی۔ واہ واہ۔ آرٹس کونسل بنائی جائے گی، وہاں بھی ڈرامے ہوا کریں گے۔ سرائیکی زبان کے سب سے بڑے شاعر اقبال سوکڑی کے ساتھ لاہور میں شامیں منائی جائیں گی اور ڈیرہ غازی خان کی گلی گلی میں لکھا ہوگا ’’ساڈا بزدار جیووے‘‘۔ ایک بزدار یعنی عاشق بزدار نے کہا تھا ’’اساں قیدی تخت لاہور دے‘‘ دوسرے بزدار یعنی عثمان بزدار نے تخت ِلاہور کو فتح کرلیا۔

پنجاب میں ابھی تک وزیر اعلیٰ نے کسی بیورو کریٹ کو تبدیل نہیں کیا بلکہ انہیں یہی کہا ہےکہ جیسے حکومت بدل گئی ہے اُسی طرح انہیں بھی اپنے آپ کو بدل لینا چاہئے وفاق میں عمران خان نے بہت سی تبدیلیاں کی ہیں جن پر طنز کے تیروں کی بوچھاڑ ہو رہی ہے کہ وہ سب نون لیگ کے چہیتے بیورو کرٹیس ہیں جن کے ہاتھوں سے عمران خان نیا پاکستان بنوانا چاہتا ہے۔ جن مستریوں نےتاج محل بنایا تھا۔ اس سے پہلے بھی انہوں بے شمار عمارتیں بنائی تھیں مگر تاج محل بنوانے والے نے اُنہی سے تاج محل بنوالیا تھا۔مجھے یقین ہے کہ یہی بیوروکریٹس نیاپاکستان بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ کیونکہ نیا پاکستان بنوانے والے کا ذہن کلیئر ہے کہ اُس کو کیسا پاکستان بنواناہے۔ اُس کے خد و خال اُس پر واضح ہیں۔ وہ گومگو کی کیفیت میں ہرگزنہیں۔

اُس نےچیئرمین نیب سے یہی کہا’’کرپٹ عناصر کا احتساب میری پہلی ترجیح ہے۔چاہےوہ میرے کیمپ ہو یا مخالف کیمپ میں۔‘‘ سنا ہے کہ لوٹی ہوئی دولت بیرون ملک سے واپس لانے کے لئے خصوصی ٹاسک فورس قائم کر دی گئی ہے۔

اسے اختیارات دے دیئے گئے ہیں۔ پاناما لیکس میں جن چار سو پاکستانیوں کا نام ہے اُن کی باری بھی آگئی ہے۔ اگرچہ پیپلز پارٹی نون لیگ کا ساتھ نہیں دے رہی مگر آصف علی زرداری اور اُن کے بچوں کے اثاثوں کی تحقیق کی جا رہی ہے۔ وہاں بھی یہی سوال سلگ رہا ہے کہ یہ اثاثے کہاں سے آئے ہیں یقیناً آصف علی رزداری کے لئے ذرائع آمدنی بتانا خاصا مشکل کام ہیں۔ شاید نواز شریف سے بھی زیادہ۔ وہاں تو اس سوال پر بھی خاموشی چیخ پڑتی ہے کہ اربوں روپے کا بلاول ہائوس اُس وقت آپ کو تحفے میں کیوں دیا گیا جب آپ صدرِ پاکستان تھے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین