• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

احتشام الحسن، چکوال

ایک دن صبح کے وقت والدہ سے ناشتہ کے حوالے سے بات چیت ہورہی تھی کہ آج ناشتہ باہر سے لے آتے ہیں۔ پاس چھوٹی بہن سورہی تھی۔ دوران گفت گو اس بہن کا ذکر آیا تو والدہ نے کہا وہ تو سو رہی ہے۔ جیسے والدہ نے یہ بات کی تو چادر کے اندر سے اس کی آواز آئی کہ، ’’آدھا بھائیہ جاگ رہا ہے۔۔۔۔۔!!‘‘ اس کی یہ بات سن کر بے اختیار سب کی ہنسی چھوٹ گئی۔ 

آدھا بھائیہ کی ایک کھانی تھی، جو اکثر ہمیں دادا ابو سنایا کرتے تھے۔اس نے بھی شاید کچھ دن پہلے دادا ابو سے سنی تھی اور موقع محل کے مطابق بہت زبردست انداز میں اس کہانی کا ایک ’’جملہ‘‘ اٹھا کر اپنی کہانی میں لگا لیا۔ (یہ کہانی ادھار رہی۔) پہلے دادا ابو ہم بچوں کو بہت کہانیاں سناتے تھے۔ انبیاء، اولیاء، بزرگان دین، بادشاہوں اور فقیروں کی تربیتی، اخلاقی، مزاحیہ اور سبق آموز کہانیاں سناتے تھے۔ ہمیں ان کہانیوں سے بہت فائدہ ہوتا تھا۔ معلومات و تجربات ملتے تھے اور تربیت و سبق بھی حاصل ہوتا تھا۔اب چوکہ پیرانہ سالی اور ضعف بڑھ گیا ہے تو اس سلسلے میں بہت کمی آگئی ہے۔ کبھی کبھی کسی کی فرمائش پر کہانی سنا دیتے ہیں۔ پہلے لوگ اپنے بچوں کو کہانیاں سنا سنا کر ان کی تربیت کیا کرتے تھے اور ان کے اخلاق سنوارتے تھے۔اب تو والدین کے پاس اپنے بچوں کے لیے وقت ہی نہیں ہوتا۔

بس بچوں کے ہاتھ میں موبائل اور ٹائبلٹ پکڑا کر اپنی جان کی خلاصی کروا لیتے ہیں اور بچوں کی زندگیاں تباہ کر دیتے ہیں۔پھر جب بچے بد اخلاق اور بد تہذیب ہوجاتے ہیں تو زمانے کو گالیاں دینے لگتے ہیں۔اپنا نزلہ اٹھا کر کسی اور پر پھینک دینے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج روز بہ روز معاشرہ اخلاقی اور تہذیبی کے اعتبار سے تنزلی اور پستی کے جانب سرعت سے گامزن ہے۔افسوس یہ نہیں کہ تربیت نہیں ہورہی، بلکہ افسوس یہ ہے کہ تربیت کرنے والے اکثر والدین اور اساتذہ ہی تربیت یافتہ نہیں ہیں۔اگر آج ہم اپنے معاشرے کو بگاڑ اور فساد سے بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے بچوں کی تربیت کرنی ہوگی۔بچوں کی تربیت کا سب سے مؤثر ذریعہ کہانیاں ہیں۔ان کو اپنے پاس بٹھا کر سبق آموز واقعات اور کہانیاں سنائیں۔

تازہ ترین