• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 ارم فاطمہ، لاہور

’’پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھنے کی تڑپ دل میں لیے قافلے کا ہر فرد لبوں سے دعائیں کررہا تھا۔ بھوک پیاس سے بے نیاز تھکن سے چور ہونے کے باوجود دل میں بس ایک ہی خواہش تھی کہ کسی طرح پاکستان پہنچ جائیں۔ رات کا وقت تھا۔ پورے ملک میں فسادات برپا تھے، مسلمانون کا قتل عام ہورہا تھا۔ ماؤں کی گودیں اجڑ رہی تھیں۔ بہنوں بیٹیوں کی عزتیں پامال ہو رہی تھیں، مگر قدم نہیں رک رہے تھے۔ میری آنکھوں کے سامنے میرے بھائی، ماں اور چچا کے پورے خاندان کو بیدردی سے قتل کردیا گیا تھا۔ جانے کیسے مردہ لاشوں کے بیچ میں زندہ بچ گئی۔ ابا پاکستان جانے کے لیے سامان لینے گئے تھے۔ اپنے پیاروں کی لاشوں کو چھوڑ کر مجھے سینے سے لگائے قافلے میں شامل ہوگئے۔ پاکستان جانے والے ہر قافلے پر بلوائیوں نے حملے کیا مگر لوگوں کی ہمت نہیں ٹوٹی، میں اور میرے ابا بھی ان چند خوش نصیبوں میں شامل تھے، جنہوں نے پاکستان کی پاک سر زمین پر قدم رکھا، ابھی آزادی کو اٹھارہ برس ہی گزرے تھے کہ، دشمنوں نے ملک پر حملہ کر دیا، لیکن جو جذبہ آزادی کے وقت تھا وہی جذبہ اس وقت بھی دیکھنے کو ملا، قوم کی مائیں اپنے جوان بیٹوں کو ملک و قوم پر قربان کرنے سے پیچھے نہیں ہٹی تھیں، ان میں وہی جذبہ زندہ تھا جو آزادی کے وقت ہندوستان کے مسلمانوں میں تھا۔‘‘

دادی جان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ ہر سال جشن آزادی اور یوم دفاع کے مواقع پر دادی جان ہم سب بچوں کو پاکستان کے لیے دی گئی لازوال قربانیوں کی کہانی سناتی تھیں۔

اسد اور حمنہ ان کی باتیں سن کر اپنے دل میں ملک کے لیے ایک نیا ولولہ اور جوش محسوس کرتے تھے۔ ملک و قوم کے لیے کچھ کرنے کا عزم ان کے دل میں پیدا ہوتا تھا۔ ان کے اسکول میں یوم دفاع اسی شان کے ساتھ منایا جاتا تھا جس طرح یوم آزادی۔ اس بار بھی اسد نے ایک تقریر تیار کی تھی اور حمنہ نے ایک نظم پڑھنی تھی۔ دادی جان سے پاکستان کے لیے محبت اور تڑپ کو دیکھ کر اسد نے بھی یہ فیصلہ کیا کہ وہ پاک آرمی جوائن کرے گا اور اس ملک کے نادار بچوں کے لیے ایک بہترین اسکول بھی بنائے گا۔

6 ستمبر قریب تھی، اس نے ابو سے فرمائش کی کہ، ’’اس دن وہ انہیں واہگہ باڈر اور مینار پاکستان کی سیر کو لے کر جائیں‘‘۔

اس کے ابو دونوں بچوں کا جوش دیکھ کر خوش ہورے تھے۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ انہیں ضرور لے کر جائیں گے۔ ملک میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات سے سب کے دل پریشان تھے، سب دعاگو تھے کہ یہ دن خریت سے گزر جائے۔ اسد کہنے لگا، ’’ہمیں اپنے وطن سے بے حد محبت ہے اگر اس کے لیے جان بھی قربان کرنی پڑی تو جان دیں گے‘‘۔

یوم دفاع سے چند دن قبل اسد اپنے ابو کے ساتھ اپنے اور حمنہ کے لیے اسکول فنکشن میں پہننے کے لیے فوجی یونیفارم خریدنے بازار گیا۔ بازار میں خوب گھما گھمی تھی، سب لوگ جوش و خروش سے خریداری کر رہے تھے۔ اسد اور اس کے ابو لوگوں کا جوش و خروش دیکھ کر خوش ہو رہے تھے۔ فوجی یونیفارم خرید نے کے بعد اس کے ابو دکاندار کو پیسے دے رہے تھے کہ اچانک اس نے ایک آدمی کو دیکھا جو ایک بہت بڑی دکان کے سامنے کھڑا تھا، اس کے ہاتھ میں ایک کالے رنگ کا شاپر تھا جو اس نے دکان میں رکھ دیا، کسی کا اس طرف دھیان نہیں گیا۔

اسد پریشان ہوگیا، ابھی وہ آدمی ان کے آگے سے گزر ہی رہا تھا کہ اس نے شور مچا دیا، اسے پکڑیں یہ اس بازار میں دھماکہ خیز چیز رکھ کر جا رہا ہے۔ یہ سنتے ہی وہ آدمی تیزی سے بھاگ گیا۔ کسی نے اسد کی بات سنی کسی نے نہیں سنی۔ بھگڈر مچ گئی، سب لوگ اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ رہے تھے۔ اسد نے اپنے ابو کو بتایا کہ اس دکان میں شاپر ہے اس کے ابو اس کا ہاتھ پکڑ کر بھاگنے لگے مگر وہ ہاتھ چھڑا کر اس دکان کی طرف بھاگا، وہ چاہتا تھا کہ اس شاپر کو اٹھا کر لوگوں سے دور لے جائے، شاپر کو ہاتھ سے پکڑا ہی تھا کہ اس میں موجود بم پھٹ گیا اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ اُس کے والد سکتے میں اپنے معصوم بیٹے کی خون آلود لاش دیکھ رہے تھے جس نے اپنے دونوں ہاتھوں میں پاکستان کا جھنڈا تھام کر سینے سے لگا رکھا تھا۔

6 ستمبر کو یوم دفاع کی پروقار تقریب میں اس ننھے مجاہد کو خراج تحسین پیش کیا گیا، اسے تمغہ جرات سے نوازا گیا۔ اس ننھے مجاہد کی ہمت اور قربانی نے دنیا کو پیغام دیا کہ پاکستان مجاہدوں کی سرزمین ہے اس کا بچہ بچہ قربانی کے جذبے سے سرشار ہے۔

تازہ ترین