• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ کالم ماہ نومبر کی اکیسویں تاریخ کو لکھا جارہا ہے یعنی جنوبی امریکا کی قدیم مایا تہذیب کے ریاضی دانوں کے حساب سے دنیا کے وجود کا یہ آخری مہینہ ہے۔ انہوں نے چار ہزار سال پہلے پتھروں پر نقوش کھود کر جو کمپیوٹر بنایا تھا اس کی مدد سے قیامت تک کام آنے والا ایک کیلنڈربھی تیار کیا تھا ۔ وہ کیلنڈراس سال دسمبر کی اکیسویں تاریخ کو ختم ہونے والا ہے۔ اس سے بعض حلقوں میں یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ ہماری یہ دنیا اس کے بعد باقی نہیں رہے گی۔
مجھے کسی کی یہ بات ہمیشہ یاد رہے گی کہ محکمہ موسمیات والے پیش گوئی کرنے سے پہلے ذرا کھڑکی سے باہر بھی دیکھ لیا کریں۔ اب دنیا کے خاتمے کی پیش گوئی پر ایمان لانے والو ں کو خدا جانے اگلے مہینے کی قیامت کے آثار نظر آنا شروع ہوئے یا نہیں۔ زیادہ باریک بینی سے دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ کہیں کچھ ہو تو رہا ہے۔ کہیں ایسے ایسے طوفان آرہے ہیں کہ تاریخ میں لکھے جائیں گے اور کہیں ایسے گولے اور ایسی آگ برسائی جارہی ہے کہ مائیں اپنے جگر گوشوں کی لاشیں سینے سے لگائے گلیوں میں دیوانہ وار دوڑ رہی ہیں اور زمین کے سینے پر تازہ خون کی لکیریں کھنچ رہی ہیں۔ اس سے تو یہی لگتا ہے کہ دنیا کا چل چلاؤ قریب ہے۔ مگر ایک اور خیال مجھے ستانے آگیا ہے۔ وہ یہ کہ دنیا بڑی سخت جان ہے، یہ آسانی سے ختم ہونے والی نہیں۔ سوچتا ہوں کہ اگر یوں ہو جائے کہ مایا تہذیب کے وہ ریاضی دان جی اٹھیں اور اپنی بوڑھی سفید پلکیں اُٹھا کر ہماری دنیا کو دیکھیں اور ہم ان سے کہیں کہ تمہارا خیال غلط نکلا۔ یہ رہی ہماری ثابت و سالم دنیا تو دل گواہی دیتا ہے کہ اُن کا جواب کیا ہوگا۔ وہ کہیں گے’ یہ کیا حشر کیا ہے تم نے دنیا کا؟ یہ بھی کوئی دنیا ہے؟ ہم نے جس دنیا کی عمر کا حساب لگایا تھا وہ تو تم لوگوں کے ہاتھوں کبھی کی ختم ہو چکی ہے۔ ہم تو جاتے ہیں ، لو سنبھالو اپنی دنیا‘۔ذہن میں اٹھنے والے سوالوں کا ایک عجیب وطیرہ ہے، جواب ملیں یا نہ ملیں، ان کے پہلو سے کچھ اور سوال پھوٹنے لگتے ہیں ۔ مثلاً مجھے یہ سوال ستا رہا ہے کہ اگر قیامت آئی ،جو ضرور آئے گی، تو کیا اچانک آجائے گی یا رفتہ رفتہ آئے گی۔ کیا یوں ہوگا کہ ہماری آنکھ کھلے گی اور ہم دیکھیں گے کہ پہاڑ دھنکی ہوئی روئی کی طرح اُڑ رہے ہوں گے یا یہ ہوگا کہ دنیا میں ظلم اپنی انتہا کو پہنچے گا، اقتصادی زوال سر اٹھائے گا ، قدرتی آفات اپنا پورا زور صرف کردیں گی اور دیکھتے دیکھتے دنیا کسی بستر کی طرح لپیٹ د ی جائے گی۔
اگر یوں ہوا اور قیامت ٹھہر ٹھہر کر آئی تو دنیا والے غضب کے سیانے ہیں، یہ قیامت میں بھی جینا سیکھ جائیں گے اور اس طرح قیامت کی تاثیر کم ہوجائے گی۔ جو لوگ خاتمے کے خیال سے نیک ہو جاتے ہیں وہ نہ اپنی خو چھوڑیں گے نہ وضع بدلیں گے۔ اس پر مجھے بیروت کے وہ دو بچّے یاد آتے ہیں جنہیں میں نے ٹیلیوژن پر دیکھا تھا۔ لبنان میں خانہ جنگی دم لینے سے انکاری تھی اور کئی برس سے گلی کوچوں میں گولے برس رہے تھے اور گولیوں کی جھڑی لگی ہوئی تھی۔ ایسے ماحول میں پلنے والے یہ دو بھائی بہن اپنے فلیٹ میں بیٹھے ٹیلی وژن دیکھ رہے تھے کہ اچانک نیچے سڑک پر لوگ گولے داغنے لگے۔ ان کا شور بڑھا تو دونوں بچّے اٹھے، اپنے ٹیلی وژن کی آواز اونچی کی اور واپس اپنی نشست پر بیٹھ گئے۔ اس میں ان بچّوں کا نہیں، انسانی فطرت کا کمال تھا۔ عینی میری بھتیجی ہے۔ کراچی میں پیدا ہوئی اور وہیں پلی بڑھی ہے۔میں ٹھہرا لندن کا باسی، مجھے اس کی باتیں کسی عجوبے سے کم نہیں لگتیں۔ میرے ذہن سے شاید کراچی کا رنگ اتر گیا ہے۔وہ مجھے اپنے روزمرہ کے واقعات سناتی رہتی ہے اور میں حیرت سے سنا کرتا ہوں۔ ابھی کچھ دن ہوئے اس کے شوہر کی دکان پر کچھ بھتہ خور آئے اور ایک بھاری رقم لے گئے۔ میں نے سنا تو کہا کہ یہ تو بُرا ہو، کون کمبخت تھے جو دکان لوٹ کر لے گئے۔ کہنے لگی کہ یوں نہ کہئے۔ ضرورت مند ہوں گے تبھی تو سارے پیسے لے گئے۔ ایک روز شوہر کے ساتھ کار میں بیٹھی کہیں جا رہی تھی۔ راستے میں کچھ لوگ مظاہرہ کر رہے تھے اور پولیس والے ان پر ڈنڈے بر سارہے تھے۔ عینی نے دیکھا کہ ایک سپاہی راہ چلتی ایک بزرگ خاتون کی پیٹھ پر ڈنڈے رسید کر رہا ہے۔ عینی نے آؤ دیکھا اور نہ تاؤ، کار کا دروازہ کھول کے جھپٹی اور پولیس والے کو دھکا دے کر گرادیا اور گری ہو خاتون کو اٹھا رہی تھی کہ وہی پولیس والا دوبارہ اٹھا اور بڑی بی کو چھوڑ کر عینی پر پل پڑا۔ اس کے گردے پر ضرب لگی اور اسے اسپتال جانا پڑا۔
اس کا تیسرا واقعہ تازہ ہے۔ عینی کو ان لوگوں کا بہت خیال رہتا ہے جو کبھی نامور تھے ، پھر گمنام ہوگئے اور دنیا نے انہیں بھلا دیا۔ اُسے پتہ چلا کہ اپنے وقت کی ریڈیو پاکستان کی نہایت عمدہ گلوکارہ نجم آراء اس کی والدہ کے گھر کے قریب رہتی ہیں۔ عینی جا پہنچی اور نجم آرا ء کو اپنی قدر دانی کا تحفہ پیش کیا۔ وہ بھی بہت متاثر ہوئیں ۔ ڈھیر سارے پیار کئے اور اسے رخصت کرنے دروازے تک آئیں۔ عینی نے کہا کہ والدہ کا گھر قریب ہے ، وہ پیدل چلی جائے گی مگر نجم آرا ء نے اصرار کیا کہ وہ رکشہ پر جائے کیونکہ زمانہ خراب ہے۔ رکشہ روکا گیا، ڈرائیور سے پیسے طے ہوئے۔ عینی اپنا پرس سنبھالے رکشہ میں بیٹھی ہی تھی کہ ایک موٹر سائیکل قریب آکر ایک لمحے کو رُکی اور اس پر بیٹھے ہوئے دوجوان اس کے ہاتھ سے پرس چھین کر فرار ہوگئے۔ بات یہاں ختم نہیں ہوئی۔ رکشہ ڈرائیورنے عینی سے کہا۔’ تمہارا پرس چھن گیاہے، پیسے بھی چھن گئے، گاڑی سے اُتر جاؤ‘۔ یہ سوچ کر لرز اٹھتا ہوں کہ پاکستان کی اقتصادی حالت نازک ہے۔ خزانہ خالی ہوا چاہتا ہے۔ قرضے ہیں کہ بڑھے چلے جاتے ہیں اور نوٹ چھاپ چھاپ کر قرض اس طرح چکایا جارہا ہے کہ نوٹ کی قدر بھی کاغذ جتنی رہ گئی ہے۔اگر یہی حال رہا اور ہمارا پرس ہم سے چھن گیا تو کہیں یہ نہ ہو کہ ہمارا ڈرائیور ہم سے کہے کہ تم قلاش ہو گئے ، گاڑی سے اتر جاؤ۔
پیچھے پلٹ کر دیکھتے ہیں تو خیال آتا ہے ،کتنے چاؤ سے بیٹھے تھے ہم اس گاڑی میں۔
تازہ ترین