• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی کا مسئلہ سادہ ہے اور نہ اس کا حل سادہ ہوسکتا ہے ۔ سب سے بڑا مسئلہ تو انتظامی ہے ۔ بغیر کسی منصوبہ بندی کے ایک شہر کو اس قدر پھیلادیا گیا ہے کہ اس کا انتظام اب اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگیاہے ۔ یہاں کا فساد ہمہ پہلوہے اور تاریخ میں بھی اسکی جڑیں پیوست ہیں۔ انتظامی کے علاوہ کراچی کا بحران سیاسی بھی ہے‘ فرقہ وارانہ بھی ہے ‘ لسانی بھی ہے اور معاشی بھی ہے ۔ یوں اس کے دائمی اور پائیدار حل کیلئے ہمہ پہلو اور طویل المدت منصوبہ بندی کرنی ہوگی لیکن سردست بعض فوری اقدامات سے وقتی طورپر حالات کو کسی حد تک کنٹرول کیا جاسکتا ہے ۔ تاہم سوال یہ ہے کہ وہ اقدامات کون کرے ؟۔ وقت نے ثابت کردیا ہے کہ سندھ کی موجودہ سیاسی حکومت یہ کام نہیں کرسکتی ۔ وجہ صاف ظاہر ہے ۔ حکومتی اتحاد میں شامل تینوں جماعتیں( پی پی پی ‘ ایم کیوایم اور اے این پی) حل کا نہیں مسئلے کاحصہ ہیں۔ وہ اقتدار کی خاطر یا سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے بظاہرتو حلیف ہیں لیکن عملاً وہ ایک دوسرے کی حریف ہیں۔ بھتہ خوروں‘ ٹارگٹ کلرزاور دہشت گردوں کے آگے ریاستی اداروں کی بے بسی کا سب سے بڑا عامل یہی ہے کہ مقتدر جماعتیں قانون شکنوں کی سرپرستی کررہی ہیں اور الزام یہ ہے کہ انہوں نے اپنے اپنے عسکری ونگ بنارکھے ہیں ۔ سپریم کورٹ کی رائے کو ہم ایک طرف بھی رکھ دیں تو ایم کیوایم کے بارے میں اے این پی ‘ اے این پی کے بارے میں ایم کیوایم جبکہ پیپلز پارٹی کے بارے میں یہ دونوں گواہی دے چکی ہیں اور بار بار دے چکی ہیں کہ اس کے عسکری ونگ ہیں اور یہ کہ وہ جرائم پیشہ افراد کو پال رہی ہیں ۔ یہ تینوں جماعتیں پچھلے ساڑھے چار سال کے دوران کوئی حل نہ نکال سکیں خدشہ یہ ہے کہ وہ اب بھی کوئی مستقل حل نہیں نکال سکتیں۔ جب سینیٹ میں اے این پی کی قرارداد کی مخالفت کوئی اور نہیں بلکہ ایم کیوایم کررہی ہو اور ایم کیوایم کی قراردادکی کوئی اور نہیں بلکہ اے این پی کررہی ہو تو کس طرح وہ دونوں کسی ایک نکتے پر متفق ہوسکتی ہیں؟ ۔ اس تناظر میں کراچی کے حالات کی بہتری کے لئے پہلا قدم یہ ہونا چاہئیے کہ موجودہ سیاسی حکومت کو رخصت کرکے گورنر راج نافذ کیا جائے ۔ تین ماہ بعد یوں بھی تمام صوبوں کی حکومتیں ختم ہونی ہیں تو سندھ کی حکومت اگر چند ماہ قبل رخصت ہو تو کوئی قیامت نہیں آئے گی ۔ آئین میں گورنر راج کا آپشن موجود ہے چنانچہ گورنر راج لگاکر ایک ایسے شخص کو گورنر لگایاجائے جس پر تمام بڑے اسٹیک ہولڈرز اور بالخصوص پی پی پی ‘ ایم کیو ایم اور اے این پی متفق ہوں۔ ایسا ہر گز نہیں کہ سندھ میں اہل اور غیرمتنازعہ لوگ موجود نہیں ۔ فخرالدین جی ابراہیم بھی سندھ سے تعلق رکھنے والے ہیں جن پر پورا پاکستان متفق ہوگیا۔ ان کی طرح کے اور بھی لوگ سندھ میں مل سکیں گے ۔ ایسے ہی کسی غیرمتنازعہ مگر اہل شخص کو گورنر لگا یا جائے اور اسے یہ کام سونپ دیا جائے کہ وہ انتخابات سے قبل سندھ میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کو سیاسی مداخلت سے پاک کرے اور پھر جب باقی ملک میں انتخابات کا اعلان ہوتو اسی گورنر اور ان کی کابینہ کو نگران حکومت میں بدل کر منصفانہ اور شفاف انتخابات کا انتظام کیا جائے۔ کچھ لوگ ملٹری آپریشن کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن ملٹری آپریشن مسئلے کا حل نہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ فوج پہلے سے قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں بری طرح الجھی ہوئی ہے ۔ کراچی میں اس کو الجھانا ملک کے لئے تباہ کن ہوسکتا ہے ۔ فوج کا اپنا مزاج اور کام کرنے کا اپنا اندازہے ۔ جب اپنے ملک کے علاقوں میں اس کو بلایا جاتا ہے تو فوجی مقامی حالات سے واقف ہوتے ہیں اورنہ وہاں پر مجرم اور شریف کی پہچان رکھتے ہیں ۔ اس حوالے سے مقامی پولیس اور پٹواری وغیرہ ہی اتھارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اگر پولیس کو صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے تو فوجی آپریشن سے کئی گنا بہتر نتائج نکل سکتے ہیں لیکن اس وقت اگر کراچی میں پولیس بے بس ہے تو اس کی وجہ اس کا سیاست زدہ ہونا ہے ۔ یوں کراچی میں ملٹری آپریشن کی نہیں بلکہ پولیس کے خلاف ایک ایسے آپریشن کی ضرورت ہے کہ جس کے نتیجے میں وہ سیاسی مداخلت سے پاک ہوجائے ۔ اے این پی کراچی کو اور ایم کیوایم پورے پاکستان کو اسلحہ سے پاک کرنے کا مطالبہ کررہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سردست کراچی کو اسلحہ سے پاک کرنا ممکن ہے اور نہ پاکستان کو ۔ کراچی کا مسئلہ یہ نہیں کہ وہاں اسلحہ ہے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ یہاں سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے بعض گروہ مسلح ہوچکے ہیں۔ یوں کراچی میں اسلحہ کے خلاف نہیں بلکہ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے خلاف ایسا آپریشن ہونا چاہئیے کہ جس کے نتیجے میں وہ عسکری ونگ ختم کرنے اور اسلحہ کے کلچر کو ترک کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ ایک اور آپریشن خفیہ ایجنسیوں سے متعلق ہونا چاہئیے ۔ اس وقت پورے ملک اور بالخصوص کراچی میں یہ مسئلہ درپیش ہے کہ خفیہ ایجنسیوں کے مابین کوآرڈینیشن کا کوئی میکینزم موجود نہیں ۔ ان کی جمع کردہ معلومات کے ایک جگہ جمع ہونے اوران کا تجزیہ کرکے اس کے تناظر میں ایکشن لینے کا کوئی نظام موجود نہیں ۔ دوسری طرف اکثر اوقات ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کی بجائے وہ ایک دوسرے کے خلاف کام کرتی نظر آتی ہیں ۔ ایک کا سورس دوسرے کا ٹارگٹ ہوتا ہے اور دوسرے کا دشمن تیسرے کا چہیتا ۔یوں خفیہ ایجنسیوں سے متعلق ایک آپریشن کے ذریعے ایسا میکنزم بننا چاہئیے کہ جس کے نتیجے میں ان کی معلومات ایک جگہ اکٹھی ہوں ۔ جہاں ان کا تجزیہ ہواور پھر اس کی بنیاد پر کارروائی ہو ۔ اسی طرح یقینی بنایا جاسکے کہ خفیہ ایجنسیاں حریف کی بجائے حلیف کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتی ہوئی نظر آئیں ۔گویا کراچی میں ایک نہیں بلکہ چار آپریشنز کی ضرورت ہے پہلا سیاسی آپریشن، جس کے نتیجے میں اتفاق رائے سے اہل اور غیرمتنازعہ گورنر کا تقرر ہو ۔ دوسرا آپریشن پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سیاست سے پاک کرنے کا ۔ تیسرا آپریشن سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے عسکری ونگ ختم کرنے کا اور چوتھا آپریشن خفیہ ایجنسیوں کے کام اور نظام کو مربوط بنانے کا ۔
تازہ ترین