• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ثالثی سے امیدواری ٔ صدارت تک

پیپلزپارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے کہا ہے:فضل الرحمٰن منجھے ہوئے سیاستدان ہیں۔ اس مرتبہ مایوس کیا۔‘‘ جانےبھی دیں شاہ جی، مایوس توآپ نے مولانا کوکیا جو بڑی توقعات لے کر آپ کے پاس گئے تھے مگر آپ کی جماعت نے ان کی جھولی میں خشک تمنائیں ڈال کر انہیں واپس بھیجا۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارےہاں کے منجھے ہوئے سیاستدان بڑی سیاسی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں مگر اپنے لئے اگر یہ سیاسی دانش ملک و قوم کے لئےہوتی تو آج پاکستان گرے لسٹ میں نہ ہوتا۔ فضل الرحمٰن گھر سے چلے تھے ثالثی کرنے صدارت راہ میں کھڑی تھی اسے ہی جپھامار لیا۔ بہرحال یہ سچ ہے کہ سیاست میں کچھ بھی حتمی نہیںہوتا۔ جیسے کرکٹ میں۔ آخرایک منجھاہوا سیاستدان صدر پاکستان کیو ں نہیںہوسکتا؟ ممکن ہے یہ خیال مولاناکے ذہن میں ثالث بننے سے پہلے موجود ہو اور ثالثی کو اوٹ بنا لیاہو۔ ایک نے کہا ’’ماہی میریاروند نہ ماریں میں دا لایاجند جان دا‘‘ دوسرے نے کہا ’’اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں‘‘ فضل الرحمٰن ان باتوں کو دل پر نہ لیں کہ دل تو بچہ ہےکچھ بھی مانگ سکتا ہے۔ ہمیں سیاسی یقین ہے کہ فضل الرحمٰن اعتزاز احسن اور عارف علوی کو مات دےدیںگے۔ ان کے صدر بننے سے ریاست مدینہ سےہم کچھ ہی فاصلے پررہ جائیں گے۔ خان صاحب بھی دل بڑا کریں، مولانا ان کے خوابوںکی تعبیرہیں۔ وہ اگر ثالث سے صدارتی امیدوار بن سکتے ہیں تو عارف علوی بھی بن سکتے ہیں۔ ماشاء اللہ تینوں امیدوار سمجھدار ہیں ، پڑھےلکھے ہیں۔ نوشتہ ٔ دیوار پڑھ سکتے ہیں۔ دوتو پورے منجھے ہوئے ہیں ایک جو ½منجھے ہوئے، پیپلزپارٹی کی کرم نوازی سے ڈیڑھ بن کر جیت سکتے ہیں۔ ہم نے صدارتی انتخاب کےتمام امکانات روشن کردیئے ہیں۔ فضل الرحمٰن نے ثالثی پرسارازورصرف کردیا، جب ہرطرف سے امید نے ہوا دے دی تو پھر اپنے لئے نکل کھڑے ہوئے۔ ہر ایک کے پاس گئے اور یہ تاثر دیاکہ ؎

تماشا کہ اے محو ِ آئینہ داری

تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں

مگر ہونی کو کون روک سکتاہے۔

٭٭٭٭٭

تجھے کس بات پر رونا آیا

مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما خواجہ سعد رفیق کہتے ہیں:ملک پر مسلط شخص 10دنوں سے ہمیں مسلسل ہنسا رہاہے۔‘‘ قصور اس کابھی نہیں کہ قوم 70سال سے رو رہی ہے۔ اب اگر دس دن کے لئے کوئی ہنسا رہاہے تو خواجہ صاحب عوام کو ہنسنے دیں۔ یہ بھی قومی ضرورت ہے، اچھاہے پوری ہوجائے۔ اس ہنسی کے بعد مقامات ِ آہ و فغاں آنےوالے ہیں۔ پھر آپ بھی کھلکھلاکر ہنسیں گے۔ کیونکہ تاحال آپ بھی اپنی ہنسی سے مطمئن نہیں۔ آپ نے ریلوے میں سواریوں کوجتناہنسایا تھا ، اب شیخ صاحب نے آتے ہی ریلویز کےاعلیٰ افسران سے لے کر لال حویلی کے پاس کھڑی موٹرسائیکلوں کو بھی خون کے آنسورُلا دیئے حالانکہ موٹرسائیکلیں کہتی رہیں ہم نے تو آپ کی کیمپین کی تھی ہمارا کیا قصورہے؟خواجہ صاحب یہ جو ہمیں 10دنوں سے ہنسارہاہے اس کا نام ’’ایک شخص ہے؟‘‘ ہمیں آج بھی یاد ہے جب آپ نے ریلوے کی اصلاح میںدن رات ایک کردیئے تھے توہم نے آپ کو شاباش دی تھی اور آپ نے شکریہ اداکیا تھا۔ اب شاید ہی ایساکوئی موقع آئے اور یہ بھی کہتے ہیں کہ ابھی ہنسی کے 90دن باقی ہیں اس لئے پیٹ پراچھی طرح مالش کرلیں کہ انتڑیوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ایک شخص ملک پرمسلط ہے تو کیااس مرتبہ انتخابات نہیں ہوئے تھے؟ ہمارا خیال ہے کہ ساراقصور عوام کا ہے کہ انہوں نے ہنسانے والے کو رونے والوں پر مسلط کردیا ہے۔ ہم خواجہ صاحب کے درد کو سمجھ سکتے ہیں کیونکہ ان کے حلقے کو کھولا اورکھلاہی چھوڑ دیاگیامگر تسلی رکھیں ضمنی انتخابات میں ایسا ہونے کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔ ویسے یہ جو آپ کو 10دنوں سے ہنسارہاہے اس کا نام وزیر اعظم پاکستان عمران خان ہے۔ بس نوے دن اورہنسنا ہے پھر ’’عمران دارونا‘‘ آپ نے اپنی پارٹی سے ہرحال میں وفاداری نبھائی ہے۔ اس کی خاطرلوہے کے چنے بھی چبائے مگرصبرکریں، اس کا پھل میٹھاہوتاہے۔ ہم اب بھی یہ ضرور قوم کو بتانا چاہیں گےکہ آپ کی تقریر کبھی پٹڑی سے نہیں اتری۔ اخلاقیات کادامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ اب ضمنی انتخاب انشاءاللہ آپ کو مزید ہنسائے گا اور آپ خوش ہو جائیں گے۔

٭٭٭٭٭

امتحان کی تیاری کے لئے 100دن

امیر جماعت اسلامی سراج الحق:حکومت کو موقع دیناچاہتے ہیں 100روزہ پلان پرعمل کرے۔‘‘ بڑی اچھی بات ہے کہ موجودہ حکومت کو امتحان پاس کرنے کے لئے 100دن دے دیئے جائیں کیونکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کارنہیں۔ اگر 100دنوں میں اتنابھی پتاچل جائے کہ حکومت نے صحیح سمت میں چلنا شروع کردیاہے تو تیاری کے لئے سراج الحق صاحب مزید وقت بھی دے سکتے ہیں۔ جماعت اسلامی سنجیدہ سیاست کرتی ہے اور تنقید برائے تنقید بھی نہیںکرتی۔ جزوی حکمرانی کا تجربہ بھی رکھتی ہے۔ اس لئے حکومت کے کان پرہلکی پھلکی چٹکی بھی لے سکتی ہے۔ جماعت اسلامی دینی سیاسی جماعت ہے اور تمام جماعتوں سے عمررسیدوہے۔ اگر یہ جم کر سیاست کرتی توآج حکمران ہوتی۔ یہ تو مرحوم قاضی صاحب کے زمانے سے سیاست میں داخل ہوئی ہے اور اب سراج الحق نے بھی قبلہ قاضی صاحب کے مشن کو جاری رکھا ہواہے۔ ملک میں کوئی بھی جماعت، جماعت اسلامی سے بڑھ کر منظم نہیں۔ مگر کیاکیاجائےکہ اس ملک میں ایک چیزہے اسٹیٹس کو، جسے منفی کرنا بہت مشکل ہے۔ ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایک ایسی پارٹی ابھری ہے جس کا تعلق اسٹیٹس کو سے نہیں مگراس کے حجم میں اکثر بھرتی اسٹیٹس کو ہی کی ہے۔ سراج الحق پٹھان ہیں اس لئے ان کے پاس شعلہ بھی ہے بیان بھی۔ انہوں نے جماعت اسلامی کو خاموش تماشائی نہیں رہنے دیا۔ اگر حکومت نے اپنے 100دن میں کچھ نہ کچھ کر دکھایاتو وہ اسے پورے نمبر دےگی۔ عمران خان کہتے ہیں قوم کی مدد سے چیلنجز پر قابو پائیں گے۔ اگر قوم کی اشرافیہ ان کے ساتھ مالی تعاون کرے تو بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ اشرافیہ کو جماعت اسلامی تلقین کرے کہ وہ اپنی حق حلال کی کمائی واپس لائے اور پاکستان کوقرضوں سے نجات دلائے۔ جماعت اسلامی کارویہ مثبت ہے۔ اب حکومت کے کورٹ میں بال ہے۔ سراج الحق اس کے شامل حال ہیں۔

٭٭٭٭٭

ایک انار سو طلبگار

O۔ بلاول زرداری بھٹو:جمہوریت کو قدموں پر کھڑا کرنے کے لئے جدوجہد کرتے رہیں گے۔

پہلے غریب عوام کو پائوں پر کھڑاکردیں جمہوریت بھی کھڑی ہو جائےگی کیونکہ جمہور تنگی ٔ حالات کے باعث کھڑا ہونے کے قابل نہیں رہے۔

O۔ عامر لیاقت کے بعد پی ٹی آئی کے عابد جہانگیر بھی پارٹی سے ناراض۔

عمران خان کےقافلے میں جو افراد کچھ پانے کے لئے شامل ہوئے ہیں وہ دھیرے دھیرے مزیدناراض ہوتے جائیں گے کیونکہ اناروں کی تعداد سے بیمار بڑھ گئے ہیں۔

O۔ اعتزازاحسن:مشرف دور میں تین باروزیراعظم بنانے کی آفر کی گئی۔

اس کا مطلب ہے کہ مشرف کو آخر آئی ہوئی تھی اور آپ کس قدر اصول پسند ہیں کہ تین بار دروازے پر آئی لکشمی کو خالی ہاتھ بھیج دیا حالانکہ وہ تو ایک ہی بارآتی ہے۔ ’’جوانی پھر نہیں آنی‘‘ فلم دیکھنے میںبھی کوئی حرج نہیں اب نہ مشرف اور نہ وہ آفریں۔

O۔ رحمان ملک کا انکشاف، ایران میں 200 افراد کو سزائے موت سنائی گئی۔

کوئی اوربات سوچیں یہ انکشاف ذرا ماٹھاہے شاید آپ پر گیا ہے۔

تازہ ترین