• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’پاکستان پیپلز پارٹی کیسے اجڑ سکتی ہے؟ عوام کے ووٹوں سے اس کی جیب کیونکر خالی ہو سکتی ہے، ابھی داستان چلے گی، انتظار فرمائیں‘‘۔ سوال سادہ سا ہے، ’’پاکستان پیپلز پارٹی ہی وقت کی صدا کیوں ہے؟‘‘ جواب بھی اس سادگی سے مرتب ہے، اس لئے کہ پیپلز پارٹی برصغیر کی سیاسی تاریخ کی روشنی میں ایک ایسی قومی سیاسی جماعت ہے جس نے قیام پاکستان کے بعد عوام کی لاشعوری آرزوئوں اور ناگزیر تاریخی ضرورت کی دھرتی سے سر ابھارا تھا۔ یہ محض سیاست کے شوق کی پیداوار نہیں تھی نہ اسے محض حصول اقتدار کے جاری ڈھانچے کی ایک سیڑھی کے طور پر تصور کیا گیا تھا۔ پی پی پاکستان کے نظریئے، اسلام کی آفاقیت، روٹی، کپڑے اور مکان کی صورت میں عوام کی اقتصادی آزادی اور قومی سیاست میں آئینی حاکمیت کے تخم کی آبیاری کا اعلان تھا۔ جس میں آج تک سرمو فرق نہیں پڑا۔ پی پی نے ان تینوں محاذوں پر پاکستانی عوام کے ساتھ اپنا عہد نبھایا۔ اس کا دامن قید و بند، مصائب و محن اور شہادتوں سے بھرا ہوا ہے۔ پی پی کسی فوجی نرسری کے گملے کا پودا نہیں عوام کی قلبی سلطنت کا تاج ہے۔

میں تاریخی کریڈٹ کے رومانس یا ڈس کریڈٹ کے عذاب جیسے معاملات پر کنفیوژ رہتا ہوں مگر سامنے کی تاریخ کو جھٹلانا صریحاً گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔ ہم آج 2018ء میں پی پی کے اسلامی، آئینی اور اقتصادی کردار کو پاکستان کی غیر اسلامی، غیر آئینی اور غیر جمہوری قوتوں کو مکمل طور پر پسپا ہوتا دیکھ رہے ہیں۔

قیام پاکستان کے بعد تیسری بار ایک منتخب سول جمہوری حکومت نے آئندہ کی منتخب سول جمہوری حکومت کو اقتدار منتقل کیا۔ میڈیا کی آزادی کے ناقوس کی گونج نے عوام کو اس مادر پدر آزادی پرمعترض کر دیا ہے۔ پی پی نے اس پر بھی کوئی بلاواسطہ یا بالواسطہ قدغن نہیں لگائی، عدلیہ کی برتری کے معیار نے پاکستان میں پہلی بار گو ’’جوڈیشل ڈکٹیٹر شپ‘‘ کی عوامی اصطلاح متعارف کروا دی لیکن پی پی نے ایوان عدل میں سر جھکانے کے آئینی کلچر کو تسلیم کرنے کے تسلسل سے انگشت بدنداں کر دیا۔ قومی پارلیمنٹ کے وقار کو چار چاند لگائے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ افواج پاکستان کے اعلیٰ عہدیداروں نے خود کو قوم کے سامنے جوابدہ سمجھنے کا عملی مظاہرہ کیا، ایک ایسی آئینی روایت کو غیر جمہوری پاتال سے باہر نکالا گیا جسے غیر جمہوری قوتوں کے نظریاتی جارحین نے تقدیس کا درجہ دے دیا تھا۔ ووٹ کے ذریعے تبدیلی اور ووٹ کی حرمت کی سچائی میں وہ سب گروہ، طاقتیں اور افراد بہہ چکے ہیں جنہوں نے گزرے دس برسوں میں لاعلمی، جہالت، بغض اور قدامت پسندی کے سبب عوام کے اس حق کی گردن ریتنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی اور سماجی تہذیب و قوانین اور انداز کار کی کتاب کا ہر صفحہ ریزہ ریزہ کر دیا انہیں ہم سڑکوں اور بسوں کی ’’ترقیات‘‘ کے صدقے ’’رہنما‘‘ کے بلند لقب سے ملقب کر دیتے ہیں۔ چنانچہ انتخابات کے انعقاد کا تسلسل ہی ہمارے تمام ذہنی اور سیاسی امراض کا واحد حل ہے۔

پی پی پر ماضی کے دوران میں ضرب کاریوں کے تذکرے میں جانے کا وقت نہیں، یہ خواہش تاریخ ہی کے سپرد کرنا پڑے گی۔ جس طرح محترمہ عاصمہ جہانگیر ’’وکلاء تحریک‘‘ اور عدلیہ کی آزادی کے لئے کسی Truthکمیشن کے بطن سے برآمد ہونے والی ’’سچائی‘‘ کی منتظر رہیں بعینہ آپ ’’لوڈ شیڈنگ‘‘ اور ’’مہنگائی‘‘ کی بھیانک سازش گریوں کو شاید کبھی نہ کبھی جان سکیں۔ پی پی بہرحال تاریخ میں سرخرو ہے، عوام کی جماعت نے پورے ملک کے حاضر و غائب حکمرانوں کو عوامی ووٹ کے در پر دستک دینے کی آئینی فرمانبرداری پر مجبور کر دیا۔ پی پی نے اپنے منشور کے آغاز میں کہا ہے ’’اب جمہوری اور آئینی قوائد و ضوابط کے مطابق پُر امن انتقال اقتدار ہو رہا ہے، صوبوں اور مرکز کے درمیان ایک نئے عمرانی معاہدے کے ذریعے وفاق کو مضبوط کیا گیا۔ سابق صدر نے رضاکارانہ طور پر اپنے اختیارات پارلیمنٹ کو سونپ دیئے، تمام سیاسی قیدیوں بشمول ججوں کو رہا کیا گیا، انتقام کی جگہ مفاہمت کی پالیسی کو آگے بڑھایا گیا،‘‘ کیا پی پی ایسا کہنے میں حق بجانب نہیں؟

وقت کی یہ صدا پاکستان پیپلز پارٹی پاکستانی میڈیا میں ہمیشہ ’’صدا بصحرا‘‘ ثابت ہوئی۔ سابق وزیراعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف نے ’’جیو‘‘ کے منیب فاروق کو انٹرویو دیتے ہوئے اعتراف کیا تھا ’’میں اپنی غلطی مانتا ہوں۔ میڈیا کے معاملے میں ہم اناڑی ہیں۔ لوگ اپنا گھٹیا مال بیچنے میں ہمیشہ کامیاب رہے ہم اپنا بڑھیا سودا بھی عوام تک نہ پہنچا سکے۔‘‘ سابق وزیراعظم پاکستان اور سیکرٹری جنرل پی پی راجہ پرویز اشرف کی گفتگو یاد کر کے مجھے بے ساختہ اپنا دوست، پی پی کا ریسرچ اسکالر، اضافی طور پر آپ اسے پی پی کا میڈیا منیجر بھی کہہ سکتے ہیں، ضیاء کھوکھر یاد آ گیا ضیاء نے اپنے کسی انٹرویو میں کہا تھا ’’ہم لوگ جو میڈیا منیجر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں حکومت میں آتے ہی مخالفوں کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ غیر جانبدار مخالف بن جاتا ہے اور جو ساتھی ہوتا ہے وہ غیر جانبدار ہو جاتا ہے۔

دہشت گردی کے سبب روایتی انتخابی رونقوں کے جلسوں، جلوسوں، میلوں ٹھیلوں، ڈیرہ داریوں اور جشن بازیوں سے قومی زندگی کی جولانیوں کے رنگ برنگے فوارے نہیں پھوٹے پھر بھی ہر پاکستانی ذہناً اپنے ووٹ کے استعمال کی انتہائوں سے سرشار ہے، اب کے ووٹوں کا ٹرن اوور شاید جمہور دشمنوں کی نظریاتی میتوں کی تعداد میں اتنا اضافہ کر دے جس کے بعد ان کی اجتماعی قبریں کھودنا پڑیں۔

نتیجہ یہ کہ آئندہ جو بھی منتخب حکومت ہو گی اسے پی پی کے اس جمہوری معیار کی پاسداری اور پابندی کرنا پڑے گی۔ پی پی کی جمہوری جدوجہد بالآخر سب متوقع صاحب اقتدار لوگوں کو وقت کے کٹہرے میں لے آئی ہے۔ اب عدلیہ میں پیش ہونے کی عظمت پر مبنی شہ سرخیاں لگوانے کے بعد سپریم کورٹ پر حملے کا خیال بھی دل میں لانا ناممکن ہو چکا، اب کوئی سیف الرحمٰن میڈیا پر علی الاعلان حملہ آوری کے بعد دندناتا نہیں پھرے گا۔ اب برسوں پر مشتمل Stayآرڈرز اور فیصلوں کے التواء کی ثقافت نیا سانس نہیں لے سکے گی، مذہبی دہشت گردی کے مرتکب سرخیلوں، گروہوں، افراد اور پرائیویٹ لشکروں کے ساتھ تعلق، امریکہ کی غلامی سے نجات کی بڑھکوں اور لوڈ شیڈنگ کے اصل حقائق اور سازشوں کو بے نقاب کرنا پڑے گا۔

سابق صدر نے ایک انٹرویو میں کہا تھا ’’ہمارے ہاں جمہوری سوسائٹی ابھی تشکیل پا رہی ہے، ابھی بہت کچھ زیر و زبر ہوتا دکھائی دے سکتا ہے۔ صبر اور انتظار کرنا ہو گا‘‘۔ کیا زرداری صاحب کے اس وژن کی تردید آسان ہے؟ شاید ایسا نہیں، ہم قومی سطح پر جمہوری پختگی کے توازن سے ابھی تشویشناک حد تک دور ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین