• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں کرکٹ کو مذہب کے بعد شاید سب سے زیادہ اہمیت اور حیثیت حاصل ہے اور جب بھی قومی کرکٹ ٹیم کرکٹ کے میدانوں میں فتح حاصل کررہی ہوتی ہے تو قوم خوشیوں سے نہال ہوجاتی ہے ان خوشیوں میں ہر رنگ قوم زبان مذہب فرقے اور علاقے کے لوگ ایک ساتھ شامل ہوتے ہیں جس سے پاکستان کو مزید مضبوطی اور اتحاد کی طاقت ملتی ہے جس کی شاید موجودہ دور میں ہمیں سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ ہماری کرکٹ میں محبت اتحاد اور خوشیوں کے اصل رنگ PSL نے بھرے ہیں اور اس کے لیے اس کی انتظامیہ کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے یقیناً یہ پاکستانی قوم پر ایک بہت بڑا احسان ہے جس کی ہماری نسلیں شکر گزار ہونگی PSL کے ذریعے جہاں ہمیں کرکٹ کا ٹیلنٹ ملا وہیں زندگی کے دیگر میدانوں میں بھی فائدہ ہورہا ہے اور روز بروز PSL سے منسلک فرنچائزز قوم کو ایک دوسرے سے قریب لارہی ہیں اس سلسلے میں پشاور زلمی اور لاہور قلندرز کی کوششیں انتہائی قابل ذکر ہیں جس طرح وہ نوجوانوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کررہی ہیں جہاں وہ اپنی زندگی کو کامیابی کے ساتھ آگے بڑھاسکیں ۔ نومنتخب وزیر اعظم عمران خان نے اپنی ابتدائی تقریر میں نوجوانوں کی تعلیم اور ترقی پر انتہائی زور دیا اور انھوں نے کہا کہ جس طرح کالجوں اور اسکولوں کے طلباآگے جاکر قومی دھارے میں شامل ہوتے ہیں اسی طرح مدرسے کے طلبا کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ یہ یقیناً ایک انتہائی شاندار اور جاندار نظریہ ہے جسے فوری طور پر عملی جامہ پہنانے کے لیے پشاور زلمی آگے آئی اور پاکستان کی پہلی مدرسہ کرکٹ لیگ کرانے کا بیڑہ اٹھایا جس میں پہلے مرحلے میں خیبر پختونخوا میں واقع ہر مسلک اور مکتب کے مدرسوں کی دس ٹیموں کے درمیان لیگ کا انعقاد کیا۔ جس طرح سے مدرسہ لیگ میں مدرسوں کے طلباء نے جوش و خروش کا مظاہرہ کیا اور یک جان ہوکر ایک متحد پاکستان کا جھنڈا بلند کیا یقیناً یہ مستقبل میں پاکستان کی کامیابی اور اتحاد میں ایک بہت بڑا کردار ادا کرے گا۔ پشاور زلمی کی انتظامیہ کو اس سلسلے میں خراج تحسین پیش کرنا چاہیے ۔ اگر ہم مدرسہ لیگ کے پیچھے چھپے حقیقی مقصد کو دیکھیں تو ہمیں مدرسہ لیگ کی اہمیت کا اندازہ ہوگا کہ کتنی زیادہ ضرورت ہے اس طرح کی کوششوں کو کامیابی سے آگے بڑھانے کی خصوصاً کے پی میں ۔ دشمن قوتیں سازشوں کے ذریعے ہمارے نوجوانوں میں ایک منظم انداز سے ملک سے بددلی پیدا کر رہی ہیں اور حالیہ کچھ عرصے میں اس طرح کے بہت سے واقعات سامنے آئے جہاں انتہائی معتبر تعلیمی اداروں کے طلبا انتہا پسندی کی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے اور گرفتاری کے بعد سب نے ہی یہ تسلیم کیا کہ وہ منفی پروپیگنڈے کے ذریعے اس ملک دشمن سوچ سے متاثر ہوئے اور اس کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس طرح ایک طالبعلم اس طرح کی سوچ کا اسیر ہوجاتا ہے یا اس انتہا پر جاکر سوچنے لگتا ہے کہ سب کچھ جھوٹ اور فریب ہے اور اُسے اس کو قلم سے نہیں بلکہ بندوق سے بدلنے کی ضرورت ہے۔ دراصل اس سوچ کا نوجوانوں میں پچھلے چند سالوں میں بہت شدت سے آغاز ہوا جب میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے کچھ عاقبت نااندیشوں نے پاکستان کو ایک ناکام اور نااہل ریاست کے طور پر پیش کیا اور اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لئے وہ میڈیا یا سوشل میڈیا ہی نہیں بلکہ جلسے جلوسوں کا بھی سہارا لینے لگے جس سے نوجوانوں میں ریاست کے خلاف بغاوت کی سوچ طاقتور ہوتی چلی گئی اور انہوں نے اپنے تعلیمی اداروں سمیت ہر قومی ادارے کو مذاق سمجھ لیا اور ان سے منسلک افراد کو اپنے دشمن کے طور پر لینا شروع کردیا کچھ زبان و بیان تک محدود رہے کچھ اس سے آگے نکل گئے کچھ سیاسی میدان تک محدود رہے کچھ جھگڑے اور فساد کا حصہ بن گئے اور جب ہمارے ہی کچھ دوستوں کی طرف سے ان کے اس عمل کی حمایت ہونے لگی تو اس سوچ میں مزید شدت آگئی اور زیادہ سے زیادہ نوجوان اس کی طرف راغب ہوگئے جن میں سے کئی دہشت گردوں کے ہتھے چڑھ گئے جنہوں نے مسیحا کے روپ میں اپنے آپ کو پیش کرکے ان نوجوانوں کو دہشت گردی کا حصہ بننے کے لئے تیار کیا اور کہا یہ گیا کہ اس طرح تم اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا بدلہ لے سکتے ہو۔

اگر واقعی نوجوانوں کو اس طرح کے عوامل سے دور رکھنا ہے تو سب سے پہلے انہیں ایک تمیزدار اور ترقی پذیر معاشرے کا حصہ بنانا ہوگا کیونکہ انتہا پسندی کا حصہ وہ ہی نوجوان بنتا ہے جس کے نزدیک سب کچھ جھوٹ اور بے ایمانی ہے سوائے اس کے جو وہ کرنا چاہتا ہے۔ ایک پُر امن اور کامیاب معاشرے کے لئے پہلے نوجوانوں کو اخلاق اور تمیز کے دائرہ میں لانا ہوگا جہاں وہ دی گئی تعلیمات کا احترام کریں اور اگر کوئی اس سے انحراف کرتا ہے تو اُس کا بائیکاٹ۔ ایک معاشرہ اُسی وقت ترقی کرسکتا ہے جب اُس میں زبان و اخلاق کا خیال رکھا جائے ادب و احترام سے کوئی سوال رکھا جائے نہ کہ بدتمیزی و بدزبانی کو شامل حال رکھا جائے بصورت دیگر وہ ایک ایسی بنجر زمین بن جاتا ہے جہاں پر کامیابی کی فصل اُگنا ناممکن ہوتا ہے اور یہ سب اسی صورت ممکن ہے جب ہم اپنے نوجوانوں کو زندگی میں آگے بڑھنے کے لئے برابر کے مواقع دیں گے چاہے وہ نوجوان کراچی کی اعلیٰ ترین جامعہ کا طالبعلم ہو یا وزیرستان کی پہاڑیوں پر قائم کسی مدرسے کا۔ جب ہم ان کے درمیان زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے مقابلے کی یکساں اور مثبت فضا قائم کریں گے اور کسی کو بھی اُس کے معیار زندگی زبان یا لباس کی بنیاد پر جانچنا چھوڑ دیں گے تو کامیابی نہ صرف اُن کے قدم چومے گی بلکہ پاکستان بھی ہر شعبے میں ترقی کرے گا۔ پشاور زلمی نے مدرسہ لیگ کا ایک ایسے وقت میں انعقاد کیا ہے جب ہر طرف نئے پاکستان کی دھوم ہے اور پشاور زلمی کی انتظامیہ کی نہ صرف مقامی میڈیا بلکہ بین الاقوامی میڈیا بھی تعریف کررہا ہے کہ مدرسہ لیگ کا انعقاد کرکے ایسے نوجوانوں میں ایک نئی روح پھونکی گئی ہے جن کی مادر وطن کو اس وقت شدید ضرورت ہے۔ ہم نئے پاکستان میں داخل تو ہوگئے ہیں مگر ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ جس طرح ایک منظم سازش کے تحت ہمارے معاشرے خصوصاً نوجوانوں کو وطن سے محبت، ادب اوراحترام کے اُس دائرہ سے باہر نکال کر جو کبھی ہمارا فخر ہوتا تھا عسکریت پسندی بدتہذیبی اور بدتمیزی کی ایک ایسی ڈگر پر ڈالا جارہا ہے جہاں امید کو مایوسی میں سکون کو بے سکونی میں اور بدشگونی کی ایسی شکلِ جنونی میں ڈھالا جارہا ہے کہ جہاں سے واپس آتے آتے نہ جانے کتنے اور سال لگ جائیں اور ہمارے معاشرے کی حقیقی اقدار جن ہر ہم کو ناز ہے کہیں تاریخ میں جاکر سوجائیں۔ حال ہی میں آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے واضح الفاظ میں کہا کہ نوجوانوں کو انتہا پسندی کی سوچ سے دور رکھنے کے لئے اساتذہ سماجی ادارے اور میڈیا کی بہت بڑی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ قوم کو سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا سکھائیں جو کہ یقیناً ہمارے اُن نام نہاد دانشوروں مفکروں اور تجزیہ نگاروں جو کہ معاشرے کو بدتہذیبی کے انگاروں پر دھکیل رہے ہیں اور ہر رات ٹی وی پر بیٹھ کر اس قوم کی صبح سے کھیل رہے ہیں کے لئے ایک پیغام ہے کہ آپ اپنے اس اداکارانہ انداز کو اپنی اس ڈوبتی آواز کو خودساختہ محرومی کےاس لباس کو نفرت اور حسد سے بھرے اس احساس کو جھوٹ پر مبنی ہر قیاس کو اور اس سازش کے پیچھے چھپے ہر راز کو چھوڑ کر اس قوم کے نوجوانوں کو ایک مستحکم و محترم پاکستان کی تعمیر کی طرف راغب کریں نہ کہ ایک ایسی مایوسی کو پھیلانے قوم کو ہر وقت آنسوئوں سے رلانے اور پھر سڑکوں اور پہاڑوں پر نکل کر جھوٹی تسلی اور دلاسے دلانے کی سازش کا حصہ بنیں ۔ آپ کو ایسے عناصر کو رد کرکے پشاور زلمی جیسے محب وطن سماجی اداروں کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا ان کی طاقت بننا ہوگا تاکہ پھر ہمارے دشمن ہمیں ٹکڑوں میں بانٹنے کی کوشش نہ کریں اور اگر کریں بھی تو ناکامی کا منہ دیکھیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین