• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے ایک دوست نے پوچھا ”کیا تم نظریاتی شخص ہو؟“۔
میں نے کہا ”خدا نہ کرے ایسا ہو“۔
اس نے حیران ہو کر پوچھا ”وہ کیوں؟“۔
میں نے کہا ”نظریات کے نام پر لوگ کروڑ پتی بن گئے ہیں، کسی نے قرآن کی تعلیم کے نام پر بیسیوں ایکڑ زمین الاٹ کرا لی ہے۔ کسی نے حدیث کی تعلیم کے نام پر سرکاری زمین کوڑیوں کے مول خریدی ہے،کوئی نظریاتی تعلیم کے نام پر کاروباری تعلیمی ادارے بناتا جا رہا ہے، نظریاتی کالم نگار پلازے بنارہے ہیں۔ نظریاتی دانشور ڈمی اداروں کے ذریعے حکومت سے کروڑوں روپے بٹور رہے ہیں ”امریکی سوشلسٹ“ این جی اوز کے ذریعے مال کھا رہے ہیں، کیا تم نہیں چاہتے کہ اتنے سارے ”نظریاتی“ لوگوں کے درمیان کوئی ”غیر نظریاتی“ شخص بھی ہو ۔
دوست میری اس گفتگو سے کچھ پریشان ہوا، کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولا ”اگر کوئی شخص نظریہ کیش کرانا نہیں چاہتا تو اچھی بات ہے لیکن اسے کسی نظریاتی گروپ کے ساتھ ہونا تو چاہئے“ میں نے کہا ”یہ بھی کوئی ضروری نہیں کیونکہ گروپ کے سچ کے علاوہ اس کے جھوٹ میں بھی شامل ہونا پڑتا ہے جبکہ سورج کی کرنوں کی طرح سچائی بھی کئی آنگنوں میں پھیلی ہوتی ہے، دائیں بازو اور بائیں بازو کی ساری سوچ نہ مثبت ہے اور نہ ساری سوچ منفی ہے۔ کچھ حقیقتیں فرائیڈ کے ہاں بھی ہیں۔ کارل مارکس کے ہاں بھی ہیں اور ان کے ہاں بھی جو انسانی مسائل کو ان مفکروں کی نظر سے نہیں دیکھتے۔ اس وقت ہمارے معاشرے میں جتنا گند ہے، وہ نظریاتی گروپوں کی وجہ سے ہے۔ یہ شیعہ کیا ہے، یہ سنی کیا ہے، یہ دیوبندی کیا ہے، یہ بریلوی کیا ہے اور ان کی مسلح عسکری تنظیمیں کیا ہیں؟ سیاست میں بھی جتنا گند ہے، اس کی وجہ یہ نظریاتی گروپ ہی ہیں۔ ”لوٹے“ بھی نظریاتی ہیں اور انہیں پوری ڈھٹائی سے ”لوٹا“ کہنے والے ”لوٹے“ بھی نظریاتی گروپوں کے کارکن ہیں۔ الیکشن میں بھی دو نظریاتی گروپ آمنے سامنے ہوتے ہیں اور ان دونوں گروپوں سے ایک جیسے لوگ ہی جیتنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ہمیں نظریے کے نام پر اپنے گروپ کے کسی تھرڈ کلاس شخص کو ووٹ دینا پڑتا ہے۔ لہٰذا یہ باتیں چھوڑو، کوئی اور بات کرو۔ میرا دوست پہلے میری گفتگو سے صرف پریشان ہوا تھا، اس دفعہ وہ ”حیران و پریشان“ ہوگیا اور بولا ”دراصل ہمارے ہاں کوئی نظریاتی گروپ ہے ہی نہیں، مفاد پرستوں کے ٹولے ہیں جنہوں نے اپنی دھڑے بندیوں کو نظریاتی گروپ قرار دے رکھا ہے“۔میں نے کہا ”تم ٹھیک کہتے ہو لیکن جہاں خالص نظریاتی جنگ لڑی گئی وہاں آج کیا ہو رہا ہے، میں اور تم افغان جہاد پر نظمیں اور کالم لکھ لکھ کر ہلکان ہوگئے لیکن مجاہدین ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے ہیں۔ اب اگر وہ کسی معاہدے پر پہنچ بھی جائیں تو ان بے گناہوں کی موت کا تاوان کون ادا کرے گا جو قتال جہاد کے نام پر جاری ہے، ہمارے شہروں کی سڑکیں خون کی ندیوں میں تبدیل ہوگئی ہیں۔ یہ سن کر میرا دوست کچھ چڑ سا گیا اور کہنے لگا ”تم آخر کہنا کیا چاہتے ہو“؟ میں نے کہا ”میں کچھ نہیں کہنا چاہتا، سوائے اس کے کہ نظریہ کسی اصول کی بنیاد پر قائم ہونا چاہئے، اس صورت میں نظریہ دھڑے بندی کو جنم نہیں دے گا بلکہ یہ حق اور انصاف تک پہنچنے میں ممدومعاون ثابت ہوگا، انسان کو ”نظریاتی“ نہیں اصولی ہونا چاہئے“۔
”اور اگر اصول، مذہب کے ساتھ ٹکراتا ہو؟“ دوست نے پوچھا ”کوئی مذہب بے اصولی نہیں سکھاتا“ میں نے کہا ”یہ ہماری اپنی تعبیر ہوتی ہے جو ہم مذہب کے اصولوں کو سامنے رکھ کر اخذ کرتے ہیں اور پھر بدقسمتی سے اس تعبیر کو حتمی عقیدہ بنا لیتے ہیں، ابلیس نہایت ”مذہبی شخص“ تھا بلکہ اللہ تعالیٰ کا برگزیدہ فرشتہ تھا، اس نے کسی اصول سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ آگ، مٹی سے افضل ہے وہ آدم کو سجدہ نہیں کرے گا کیونکہ آدم مٹی سے بنا ہے اور اس کی تخلیق آگ سے ہوئی ہے۔ اپنے ”نظریئے“ پر سختی سے قائم رہنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ راندہ درگاہ ہوا اور اسے جنت سے نکال دیا گیا۔ اگر وہ خدا کی اطاعت کے ”اصول“ پر قائم رہتا اور اپنی خود ساختہ تعبیر کو حتمی عقیدہ نہ سمجھتا تو اسے اور اسکے ساتھ ہمیں آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا“۔ دوست کے چہرے پر ایک الجھن سی ابھری، اس نے کہا ”کیا تم یہ تو نہیں کہنا چاہتے کہ اگر تمہارا نظریاتی گروپ جھوٹ کے راستے پر چل رہا ہے تو تمہیں آنکھیں بند کرکے اس کا ساتھ نہیں دینا چاہئے؟“۔
میں نے جواب دیا ”میں یقینا یہی کہنا چاہتا ہوں اور اس کے علاوہ یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے نظریات میں متشدد ہونا ملک، قوم، ملت اور مذہب کے لئے تباہ کن ہے۔ ابوجہل کتنا قابل شخص تھا۔ اپنے قبیلے کا سردار تھا لیکن اس کے نظریاتی تشدد نے لوگوں کو اس کا اصل نام تک بھلا دیا ہے۔ اب اسے اس کے ہم خیال بھی ابو جہل ہی کہتے ہیں۔ اس وقت ہمارے تمام سیاسی مذہبی، سماجی اور ادبی دھڑے اپنے اپنے نظریات میں اتنے متشدد ہوچکے ہیں کہ کسی دوسرے کا نقطہ نظر سننے کے بھی روا دار نہیں۔ ہم ابوجہل بنتے جا رہے ہیں۔ ہمیں ابوجہل کی طرح نئے خیال کو محض اس لئے رد نہیں کرنا چاہئے کہ یہ ہمارے بنے ہوئے معتقدات کے خلاف بلکہ حضرت ابوبکر اور حضرت علیکی طرح اسے خوش آمدید کہنا چاہئے“۔ یہ سن کر میرا دوست غصے سے لال بھبوکا ہوگیا اور پاؤں پٹختا ہوا بولا ”میں نے اپنے نظریات بہت سوچ سمجھ کر قائم کئے ہیں۔ میرے باپ دادا بھی انہی خیالات کے حامل تھے۔ تم یہ نہ سمجھنا کہ میں تمہاری کسی بات سے قائل ہوا ہوں۔ میں اپنے خیالات پر سختی سے قائم ہوں۔ معاف کرنا میں نظریاتی شخص ہوں۔
تازہ ترین