• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جناب عطاء الحق قاسمی کے لنچ سے رخصتی پر ایازامیر سے میاں نوازشریف کا مصافحہ کچھ زیادہ ہی پرجوش تھا۔ ان کا کہنا تھا، یہ میرے سخت ترین ناقد ہیں اور بہترین دوست بھی۔ میاں صاحب کے ساتھ اس لنچ میں لاہور کے کچھ مدیرانِ گرامی اور سینئر کالم نگار مدعو تھے اور ایازامیر کی شرکت بھی اسی حیثیت میں تھی۔ ایاز چکوال کے ایک ممتاز سیاسی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد محترم چودھری محمد امیر خان 1970ء میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوئے۔ ایاز 1997ء کی پنجاب اسمبلی میں نوازشریف والی مسلم لیگ کے رکن تھے۔ معروف معنوں میں دائیں بازو کی چھاپ رکھنے والی مسلم لیگ میں بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے ایازامیر نے کبھی ان کمفرٹیبل محسوس نہیں کیا۔ اکتوبر 2002ء کے الیکشن میں وہ پرویزمشرف کے ناپسندیدہ ترین افراد کی فہرست میں شامل تھے جنہیں وہ کسی صورت اسمبلی میں دیکھنے کا روادار نہیں تھا، چنانچہ انہیں 2 ہزار ووٹوں سے ہرا دیا گیا۔ فروری 2008ء کے الیکشن میں سوا لاکھ سے زائد ووٹوں کے ساتھ انہیں اپنے حریف پر 35 ہزار ووٹوں کی برتری حاصل تھی۔
سنیٹر پرویز رشید بھی ترقی پسندوں میں شمار ہوتے ہیں اور پارٹی میں ان کی بات بھی پوری توجہ سے سنی جاتی ہے۔ وہ پنجاب حکومت کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کی ترجمانی کا اعزاز بھی رکھتے ہیں۔ لیکن پرویز کا معاملہ اس لحاظ سے ایاز سے مختلف ہے کہ وہ کسی مسئلے پر جو بھی رائے رکھتے ہوں، اس کا اظہار پارٹی کے اندر ”پراپرفورم“ پر کرتے ہیں اور اس کے بعد پارٹی پالیسی کے پابند جبکہ ایاز اس تکلف میں نہیں پڑتے۔ اپنے معروف و مقبول کالم اور ٹی وی ٹاک شوز کے علاوہ قومی اسمبلی کے ایوان میں بھی پارٹی پالیسی سے اختلاف اور کبھی کبھار اس پر تنقید میں بھی انہیں کوئی عار نہیں ہوتی۔ عطاء الحق قاسمی کے ہاں وقت رخصت انہوں نے میاں صاحب کی بات پر ہلکا سا قہقہہ لگایا اور کہا کہ وہ یہ بات ایک ٹی وی ٹاک شو میں بھی کہہ چکے ہیں کہ انہیں مسلم لیگ میں اپنے فکر و نظر کے حوالے سے کبھی گھٹن کا احساس نہیں ہوا۔ یہ بات پارٹی میں جمہوری ماحول اور قیادت کے جمہوری مزاج کی آئینہ دار ہے۔
آج پہلو بدل بدل کر نوازشریف اور مسلم لیگ (ن) پر تبریٰ کرنے والے ہمارے باغی بھائی نے بھی اپنی خودنوشت میں اپنے سابق لیڈر کی تعریف و توصیف میں سو سو طرح سے باندھے جانے والے مضمون میں یہ بھی لکھا کہ ”میاں صاحب میں برداشت کا مادہ بہت ہے۔ وہ مشکل ترین حالات میں بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ ایک خوبی جو بہت کم سیاستدانوں میں پائی جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ وہ بہت اچھے سامع ہیں… 1991ء میں نوازشریف نے مجھے وزیر بننے کی دعوت دی تو میں نے انکار کر دیا۔ شہبازشریف میرے گھر چودھری نثار علی خاں کے ہمراہ آئے اور مجبور کرکے میاں صاحب کے پاس لے گئے۔ میں نے عرض کی، میں وزیر بنوں گا تو کابینہ میں بیٹھ کر تنقید کروں گا۔ انہوں نے کہا، میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ ایسے افراد کابینہ میں ہوں، میں آپ کی تنقید کو خوش آمدید کہوں گا۔“ دو تہائی اکثریت والی دوسری حکومت میں بھی وزیراعظم نوازشریف کا رویہ ملاحظہ ہو، ”میں میاں نوازشریف کی تعریف کے بغیر نہیں رہ سکتا، وہ خندہ پیشانی سے میری تنقید برداشت کرتے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے فیصلوں میں انہوں نے کبھی مداخلت نہ کی۔ ہمیں آزادانہ فیصلے کرنے کا اختیار تھا۔ ہمارے غلط فیصلوں کی ذمہ داری بھی وزیراعظم اپنے سر لے لیتے۔ انہی میں ایک فیصلہ زرمبادلہ کے ذخائر سے متعلق بھی تھا۔“ ایک اور واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ہاشمی صاحب نے لکھا، ”میں استعفےٰ لکھ کر میاں صاحب کے پاس گیا۔ انہوں نے استعفےٰ پھاڑ کر میری جیب میں ڈالتے ہوئے کہا، آپ کا اور میرا زندگی بھر کا ساتھ ہے۔“پرویز مشرف دور میں ہاشمی حوالہٴ زنداں ہوئے تو میاں صاحب سعودی عرب میں جلاوطنی میں بھی ان سے مسلسل رابطے میں رہتے۔ رات گئے، جاوید ہاشمی سے فون پر رابطہ ہوتا۔ دونوں میں دیر تک راز و نیاز کی باتیں ہوتیں۔ اپنے اسیر دوست کی سو سو طرح سے دلداری کرنے والی بعض ٹیلی فونک گفتگوؤں کے تو ہم بھی ”عینی شاہد“ ہیں (کہ ان دنوں سعودی عرب کے ایک اخباری ادارے میں ملازمت کے باعث ہم بھی جدہ میں مقیم تھے اور وقتاً فوقتاً سرور پیلس جاتے رہتے تھے)۔فروری 2008ء کے الیکشن میں میاں صاحب نے اپنے ہمدمِ دیرینہ کو قومی اسمبلی کے 4 حلقوں سے ٹکٹ دیا۔ ہاشمی صاحب حسب روایت اپنے آبائی حلقے سے ہار گئے، ملتان، لاہور اور پنڈی کے مسلم لیگی حلقوں میں انہوں نے اپنے حریفوں کو بآسانی پچھاڑ دیا۔ خواتین کی مخصوص نشستوں پر میمونہ بیٹی کے لئے ٹکٹ ان کے علاوہ تھا۔ الیکشن کے بعد قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کا منصب چودھری نثار علی خاں کو ملنے پر ہاشمی صاحب کے دل میں ایسی گرہ پڑی جو وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ گنجلک ہوتی گئی۔ اب وہ اسمبلی کے اندر اور باہر بھی کسی نہ کسی بہانے نوازشریف پر تنقید کا پہلو نکال لیتے۔ کبھی کبھی تو معاملہ ناگوار حد تک پہنچ جاتا لیکن اس کے باوجود میاں صاحب کی طرف سے محبت اور احترام میں کسی کمی کا اظہار نہ ہوا۔ پارٹی میں ان کے پروٹوکول میں بھی کوئی فرق نہ آیا۔ سینئر نائب صدر کی حیثیت سے وہ پارٹی کے ہر اہم اجلاس میں میاں صاحب کے دائیں یا بائیں موجود ہوتے۔ زرداری کے ساتھ مارچ 2008ء کے معاہدہ بھوربن میں بھی وہ موجود تھے اور اس معاہدے کو ان کی مکمل تائید حاصل تھی لیکن 30 روز کے اندر عدلیہ کی بحالی کی شرط کے ساتھ، وفاقی کابینہ میں شمولیت کا وقت آیا تو انہوں نے معذرت کرلی۔ یہ اپنے دیگر دوستوں پر ”اخلاقی برتری“ جمانے کے سوا کیا تھا؟ انہوں نے مسلم لیگ چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو بیگم کلثوم نواز صاحبہ اپنے روٹھے بھائی کو منانے کے لئے خود سعد رفیق کے گھر آئیں۔بات لمبی ہوگئی، ہم مسلم لیگ (ن) میں جمہوری ماحول اور اس کی قیادت کے جمہوری مزاج کی بات کررہے تھے۔ اب ذرا اس حوالے سے انصاف اور تبدیلی کی دعویدار جماعت پر بھی ایک نظر ڈال لیجئے۔ جہاں شیریں مزاری اس لئے تحریک انصاف سے سالہا سال کی وابستگی ترک کرنے پر مجبور ہوگئیں کہ انہوں نے راجن پور کے اجتماع میں کپتان اور جہانگیر ترین پر تنقید کر دی تھی۔ جس پر ان سے معافی مانگنے کا تقاضا کیا گیا۔ لیکن بلوچ خون کی غیرت نے پارٹی سے استعفیٰ کو ترجیح دی۔ ایڈمرل جاوید اقبال نے اس وقت کپتان کا ہاتھ تھاما جب تحریک انصاف میں ویرانیوں کے ڈیرے تھے۔ انہوں نے ظفرعلی روڈ پر اپنا وسیع و عریض دفتر بھی پارٹی سیکرٹریٹ کی نذر کردیا لیکن ایک ٹاک شو میں ایئرمارشل اصغر خاں پر تنقید ان کا جرم بن گئی جس پر خود کپتان نے ان کی سرزنش کرتے ہوئے تاحکم ثانی ٹاک شوز سے دور رہنے کا فرمان جاری کردیا۔ جاوید اقبال نے بھی استعفیٰ کو باعث عزت سمجھا۔ رابعہ ضیا انگلستان میں سالہا سال تحریک انصاف کی صدر رہیں اور وہاں لاکھوں پونڈ جمع کرکے تحریک انصاف اور شوکت خانم ہسپتال کو عطیہ کئے۔ گزشتہ دنوں یہ کہتے ہوئے تحریک سے علیحدگی اختیار کر لی کہ اب یہاں ٹرانسپرنسی رہی ہے، نہ اکاؤنٹیبلٹی۔ انہیں گلہ تھا کہ انصاف کی علمبردار تحریک پر پیسے والوں کا قبضہ ہو گیا ہے۔
ایک طرف پرانے ساتھیوں کی علیحدگی اور دوسری طرف سونامی کا زور ٹوٹنے پر Electables کی واپسی سے لگتا ہے کہ کپتان کے مضبوط اعصاب بھی متاثر ہونے لگے ہیں۔ جھنجھلاہٹ اور تنگ مزاجی پہلے بھی ان کے مزاج کا حصہ تھی لیکن محسوس ہوتا ہے کہ اب اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تازہ ترین ارشاد ہے کہ اصغرخاں کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر پیپلزپارٹی کی نظرثانی کی اپیل مسلم لیگ (ن) کو بچانے کے لئے ہے حالانکہ یہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں صرف صدر کے غیرسیاسی کردار والے حصے پر ہے۔ ادھر گھریلو کالم نگار نے لاہور میں میٹرو بس سروس کے 27 بلین کے منصوبے کو 100 بلین منصوبہ قرار دے دیا ہے، حیرت ہے انہوں نے رعایت کیوں کی، وہ بلین کو ٹریلین بھی بنا سکتے تھے۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ سپریم کورٹ کی اخلاقی ساکھ کی دہائی دیتے ہوئے انہوں نے جناب چیف جسٹس سے ایل این جی معاہدے کی طرح میٹرو بس منصوبے اور لیپ ٹاپ سکیم کو بھی روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ تحریک انصاف ”یوتھ“ پر اجارہ داری کی دعویدار تھی، یہ طلسم ٹوٹ رہا ہے تو ایک طرف تحریک نے الیکشن کمیشن کو شہبازشریف کے یوتھ انیشی ایٹوز کا نوٹس لینے کے لئے خط لکھا ہے (مگر کس قانون کے تحت؟) تو دوسری طرف میڈیا کے محاذ پر چیخ و پکار شروع کردی ہے۔ نوازشریف نے گزشتہ دنوں یوتھ انٹرن شپ اور لیپ ٹاپ کے دوسرے مرحلے کا افتتاح کیا تو سوفیصد میرٹ پر مبنی اس سکیم کو کپتان کے مدح سرا نے نوازشریف کے ملازموں میں لیپ ٹاپ کی تقسیم کا نام دے دیا۔ سپریم کورٹ نے LNG منصوبے کا نوٹس اس لئے لیا کہ اس میں کروڑوں ڈالر کا گھپلا پایا گیا تھا جبکہ لیپ ٹاپ سکیم سمیت پنجاب حکومت کے منصوبوں کو ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل، ورلڈبینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک صاف شفاف قرار دے چکے ہیں۔ کسی کے پاس کرپشن کے ثبوت و شواہد ہیں تو اخباری کالموں میں چیخ و پکار کرنے کی بجائے سپریم کورٹ کا دروازہ کیوں نہ کھٹکھٹایا جائے۔ خواجہ محمد آصف کی مثال سامنے ہے جو رینٹل پاور سے لے کر این آر او اور میموگیٹ تک کتنے ہی معاملات میں سپریم کورٹ میں باقاعدہ درخواست گزار بنے۔ ہاتھ کنگن کو آر سی کیا؟
تازہ ترین