• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
”ماضی میں سب سے غلطیاں ہوئیں جنرل اشفاق پرویز کیانی کا یہ اعتراف ”کبیرہ گناہ“ نہیں ”کبیرہ صداقت“ کا نایاب لمحہ تھا۔ شاید ہمیں توازن کا محور نصیب ہوجاتا، ووٹ کی طاقت پر ہم پاکستانیوں کے خستہ و مجروح یقین کا اندمال ہو جاتامگر ”درگزر کرو، بھول جاؤ اور آگے چلو“ کی اجتماعی خبر ہماری سرشت ہی میں نہیں، کس بھی قسم کا ”این آر او“ ہمارے منقسم مزاج شعلوں کی ضد ہے۔ انہیں ”آنے“ کے لئے ”اجازت یا جواز“ کی ضرورت ہوتی ہے کہ نہیں؟ لیکن اس جھنجٹ میں پڑنا ہی نہیں چاہتا۔ ہم نے چار فوجی دورانئے گزارے ہیں، بطور مثال صرف سب سے پہلے جرنیل کی تشریف آوری کے قصے پر اکتفا کرتے ہیں۔ جنرل ایوب خان نے 7اور 8اکتوبر کی درمیانی رات کو حق حکومت اپنے نام کرانے کا آغاز کیا جس کی تکمیل اس وقت کے صدر پاکستان سکندرمرزا کے مستعفی اور ملک بدر کئے جانے پر ہوئی۔ اکتوبر 1958ء میں پاکستان کا قومی دھارا کسی نظام اور منزل کی طرف رواں دواں تھا؟ یہ کہ فروری 1959ء میں قومی انتخابات کاانعقاد طے ہو چکا تھا۔ گویا عام قومی انتخابات سے تقریباً صرف چار ماہ پیشتر ایوب خان نے ملک کی حکمرانی سنبھال لی۔ حسن اتفاق سے موجودہ منتخب جمہوری حکومت کے تحت بھی عام قومی انتخابات میں چار پانچ ماہ ہی باقی ہیں چنانچہ اکتوبر 1958ء کے دنوں میں مغربی، مشرقی صوبوں والا پاکستان جمہوری پارلیمانی نظام کے تسلسل کا پرچم تھامے اپنی قومی منزل کی طرف رواں دوا ں تھا۔ مغربی پاکستان میں مسلم لیگ کے خان قیوم اور مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے حسین شہید سہروردی سب سے زیادہ مقبول عام لیڈروں کی حیثیت سے اپنی اپنی انتخابی مہمات میں شب و روز مصروف تھے۔ دوسری تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں اور عام پاکستانی بھی اپنے اپنے انتہائی جذبہ شرکت کے ساتھ ”پرچی سے فیصلے“ کے اس آئینی سیلاب میں بہے جا رہے تھے۔ اکتوبر 1958ء سے چند ماہ قبل ہی مسلم لیگ مشرقی پاکستان کے بلدیاتی انتخابات میں سویپ کر چکی تھی۔ عوامی سطح پر بہرحال عوامی لیگ مشرقی پاکستان اور مسلم لیگ مغربی پاکستان کی اکثریتی جماعتیں تھیں تاہم عوامی لیگ کو مغربی پاکستان اور مسلم لیگ کو مشرقی پاکستان میں بھی نشستیں جیتنے کا یقین تھا، گویا قومی یکجہتی کا ماحول پاکستان کے سنہری مقدر کا ستارہ بن کر جگمگا رہا تھا۔ مغربی پاکستان میں خان قیوم نے انہی انتخابات کے پس منظر میں 32میل کے طویل ترین انتخابی جلوس کی قیادت بھی کی جس کی دوسری نظیر پاکستان کی تاریخ میں موجود نہیں پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ 1958ء میں افواج پاکستان کے کمانڈر انچیف نے اس قومی یکجہتی اور قومی دھارے کو ”افراتفری“ ڈیکلیئر کرکے پاکستان کی عنانِ اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لی۔ قوم مٹھائی کی دکانوں پہ جالیاں لگا کے مکھیاں پکڑتی رہی۔ فوج سمندر میں چھپے سمگلروں سے سونا برآمد کرنے لگی، مشرقی پاکستان میں پٹ سن کے لہلہاتے روپیلے ریشوں پر مردنی چھاگئی۔ ایسی مردنی جس کے ہاتھوں بالآخر ہم نے اپنے وطن کے دو لخت ہونے کا جنازہ اٹھایا۔ اب آپ ایوب خان کے اقدام کے سلسلے میں ”اجازت“ اور ”جواز“ کے جرثومے تلاش کرتے رہیں اور یہ میڈیا؟ آخرت کے یوم جزا پر ایمان رکھتے ہوئے چاروں جرنیلوں کے دورانیوں میں اس حریت پسند پاکستانی میڈیا کے خصوصی اشتہاری نمبروں، روٹین کے سرکاری اشتہاری بزنس، صحافتی سیمیناروں اور مذاکرات میں ان فوجی حکمرانوں سے ملاقاتوں، غیر ملکی دوروں سمیت ان ”آئینی غاصبوں“ کے زیر سایہ اور ہمراہی میں بسر کئے ہوئے چاروں عہدوں کا ریسرچ پیپر تیار کریں۔ حریت پسندی کے الفاظ اپنے ”استعمال“ کے بجائے قبر میں دفن ہونا پسند کریں گے ۔آپ اس منتخب حکومت کے چار ساڑھے چار برسوں کی کتھا ذہن میں تازہ کریں۔ ایک جانور ”ٹیڈی“ کی مانند بزعم خود اپنی اپنی پیٹھ پر ”آسمان اٹھائے“ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے پانچ دس افراد نے فروری 2008ء میں معرض وجود میں آنے والے اس جمہوری نظام کی رخصتی کے حوالے سے ”پیش گوئیوں اور تاریخوں“ کے اعلانات سے عام پاکستانی کو نفسیاتی عارضے کا قیدی بنانے کا گنہگارانہ شغل اختیار کرلیا۔ ان پانچ دس میں سے ایک دو وہ ہیں جو ”صدر“ کو ”جبراً“ یا ”ایمبولینس“ پر بھیجے جانے کی تاریخیں دینے کا فریضہ نعوذ باللہ ”امر بالمعروف ونہی عن المنکر“ سمجھ کر ادا کرنے لگے۔ منتخب حکومت اور صدر دونوں وہیں ہیں جہاں انہیں آئین کی رو سے ہونا چاہئے۔ نتیجتاً دونوں کی رخصتی کی کوئی ”ہزارہا“ تاریخوں اور پیش گوئیوں کا ملبہ کوہ گراں بن کے ان کے سروں پر آپڑااور ان کی عقلوں کا مغز آوارہ رستوں کی غذا بن گیا۔ اپنی صحافتی کریڈبیلٹی کے مکمل عریاں ہونے کی حجالت محسوس کرنے کی بجائے اب” شفاف انتخابات“کے موضوع کی شرائط ”فرشتوں کے معیارات“ کی روشنی میں بیان کی جاتی ہیں۔ خدا کی زمین کا ”انسان“ جس کے ضمیر میں قدرت نے ”خطاء کی رگ“ بھی رکھ دی تھی، وہ بے چارا زیر غور ہی نہیں، ظاہر ہے موجودہ سیاسی قیادت اپوزیشن سے مل کر ان انتخابات کے شفاف ہونے کی واقعی جو ہر ممکن تدبیر کر رہی ہے، اس کا تو کسی کھاتے میں ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔پاکستان کا قومی ماضی قومی المیوں اور قومی جرائم سے عبارت ہے۔ قوموں کی زندگی میں یہی مرحلہ ”درگزر کرو، بھول جاؤ اور آگے بڑھو“ کا ہوتا ہے، اس کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں ہوتا۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اس ”اسی کبیرہ صداقت“ کی جانب توجہ دلائی تھی۔ اس میں ”ٹینکوں اور میزائلوں کی طاقت کا زمانہ نہیں“ کے نعرے کی ضرورت کہاں سے پیدا ہوگئی؟ ان کی سروس کی توسیع کے مسئلہ پر اچانک جی ایچ کیو کے قوانین کی دیواروں میں ارتعاش کیوں در آیا؟ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی کو ”افواج پاکستان کے احتساب“ وغیرہ پر ”تصادم کی صدا“ سے مرکب قرارداد پاس کرنے کی کیا جلدی پڑی تھی؟
ہمیں کراچی، بلوچستان، دہشت گردی، عدل کے فقدان، وطن کی گلی گلی میں 246مذہبی تنظیموں کے تباہ کن اثرات، جمہوریت کے آئینی تسلسل کے لئے ”مکالمے“ کی جانب بڑھنا ہوگا، ان میں سے کوئی مصیبت ایک دن کی پیداوار نہیں یہ سب کم از کم ہمارے گزشتہ پچاس برس کے اجتماعی اور انفرادی اعمال کا پھل ہے، قوموں میں ایسے مراحل ایک دوسرے کے گریبانوں سے لٹک کر نہیں، ٹیبل پر طے ہوتے ہیں۔ ہماری کتاب میں بھی قوانین کا اعلان اور اطلاق ایک وقفہ دار شیڈول کی ہدایت سامنے لاتا ہے۔ یہی صراط مستقیم ہے۔ ان پانچ دس حضرات کو بھی قوم سے ”ضرورت سے زیادہ دانشور“ہونے کی قیمت وصول نہیں کرنی چاہئے۔ پہلے ”صدر“کا ”سیاپا“ ان کا منتہائے مقصود تھا، اب جنرل اشفاق پرویز کیانی اور افواج پاکستان کو ”افواج پاکستان سے محبت“ اور ”افواج پاکستان کے فرائض“ کے عنوانات سے قوم کی اجتماعی نظروں میں سوالات اور موشگافیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، بازآؤ، جیو اور جینے دو!
تازہ ترین