• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ابن انشاء

شاہ جہاں ،جہانگیر کا بیٹا اور اکبر کا پوتا تھا کسی عمارتی ٹھیکیدار کا نور نظر نہ تھا، نہ کسی پی ڈبلیو ڈی والے کا مورث اعلیٰ تھا ،جیسا کہ لوگ اسے اتنی ساری عمارتیں بنانے کی وجہ سے سمجھ لیتے ہیں ۔تاج محل اس کی بنائی ہوئی عمارتوں میں زیادہ مشہور ہے، اس کی تعمیر میں بھی اتنے ہی برس لگے، جتنے قائد اعظم محمد علی جناح کے مقبرے کو لگے تھے، اگر کوئی فرق ان دونوں مقبروں کی خوبصورتی اور تعمیر میں ہے تو اس کی وجہ ظاہر ہے شا ہ جہاں کے زمانے تک تعمیر اور نقشہ سازی میں اتنی ترقیاں نہیں ہوئی تھیں۔ پتھر وغیرہ ڈھونے ،گھسنے ،چمکانے وغیرہ کے طریقے بھی پرانے اور دیر طلب تھے ۔مشینی گاڑیاں اور بجلی کی سریع الرفتار مشینیں بھی ایجاد نہیں ہوئی تھیں۔ایک بات یہ بھی ہے کہ قائد اعظم کروڑوں آدمیوں کے محبوب تھے، جبکہ ممتاز محل صرف ایک شخص کی محبوبہ، بایں ہمہ اس زمانے کے اعتبار سے ہم تاج محل کو بہت اچھی عمارت کہہ سکتے ہیں ۔

شاہ جہاں بہت دور کی نظر رکھتا تھا، تاج محل نہ ہوتا تو آج بھارت کی ٹورسٹ انڈسٹری کو اتنی ترقی نہ ہوتی، اتنا زرمبادلہ نہ حاصل ہوتا، اس کے دیگر نتائج بھی دور رس ہیں، تاج محل نہ ہوتا تو تاج محل بیٹری بھی نہ ہوتی، تاج محل چپل بھی نہ ہوتی، تاج محل مکھن بھی نہ ہوتا ،حتٰی کہ کپڑے دھونے کا تاج محل صابن بھی نہ ہوتا، یہ بھی سوچنا چاہیئے کہ تاج محل نہ ہوتا تو لوگ کیلینڈروں پر تصویریں کس چیز کی چھاپتے ۔

شاہ جہاں نے کئی مسجدیں بھی بنائیں ۔موتی مسجد اور دلی کی جامع مسجد وغیرہ اورلال قلعہ بھی بنایا۔ بہادر شاہ ظفر اسی میں مشاعرہ وغیرہ کرایا کرتے تھے، تخت طاؤس بھی شا ہ جہاں ہی نے بنایا تھا ،اس میں اپنی طرف سے ہیرے جواہر وغیرہ جڑے تھے لیکن اس کے جانشینوں کو پسند نہیں آیا۔ محمد شاہ نے اسے اٹھا کر نادر شاہ کو دے دیا ،وہ ایران لے گیا اور اس کا کھوپرا کھا لیا ۔شاہ جہاں کا زمانہ امن کا زمانہ تھا ،پھر بھی اس نے چند فتوحات کر ہی ڈالیں۔ تاریخ والے لکھتے ہیں کہ اس زمانے میں چوری چکاری بھی نہیں ہوتی تھی ،رشوت خوری بھی نہ تھی، خدا جانے اس زمانے کے اہلکار کیا کھاتے ہوں گے ۔

تازہ ترین