• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
1985ء کے موسم سرما میں نیلسن منڈیلا کو قید ہوئے 23 برس گزر چکے تھے۔ کئی دہائیوں پر محیط اس جدوجہد کے دوران جنوبی افریقہ کے ہزاروں سیاہ فام شہریوں نے قید و بند کی صعوبتیں جھیلی تھیں۔ سینکڑوں افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ قابل فہم بات ہے کہ نیلسن منڈیلا کے ساتھی بہت پرجوش تھے اور سیاسی مفاہمت کے معمولی سے اشارے کو بھی اپنے عظیم مقصد سے غداری سمجھتے تھے۔ اس موقع پر جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت اور نیلسن منڈیلا کے درمیان مذاکرات شروع ہوئے۔ اس معاملے کی اطلاع ملنے پر منڈیلا کے ساتھیوں نے بھر پور مزاحمت کی۔ اپنی خود نوشت سوانح میں اس مرحلے کا ذکر کرتے ہوئے منڈیلا نے مدبرانہ رائے دی ہے۔ ”سیاسی رہنما کی زندگی میں ایک ایسا وقت آتا ہے جب اس کے لیے اپنے ساتھیوں سے آگے نکلنا ضروری ہوتا ہے تاکہ وہ کوئی نئی سمت تلاش کر سکے“۔ مارچ 1971ء میں بھٹو صاحب اور شیخ مجیب الرحمن کے رویوں کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک مورخ نے لکھا کہ دونوں اپنے جوشیلے کارکنو ں کے محاصرے میں تھے۔ ”بڑے رہنما کی ایک خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ نازک سے نازک موقع پر بھی اپنے عمل کی آزادی کسی نہ کسی حد تک اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے۔“
بھٹو، مجیب کشمکش کو 40 برس گزرگئے، اس دوران ہم نے دو مارشل لأ بھگتے، ایک آئین کا حلیہ بگاڑا، دو وزیر اعظم قتل کیے اور کوئی نصف درجن منتخب حکومتوں کو قبل از وقت درگور کیا۔ اس قدر مشکلات سے گزرنے کے باوجود ہمارے عوامی شعور میں متوقع بلوغت کے آثار نظر نہیں آتے- 2006ء میں میثاق جمہوریت ہمارے سیاسی ارتقاء کے ایک اہم سنگ میل کے طور پر سامنے آیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے مابین سیاسی مفاہمت کے اس قابل تعریف نمونے کو ہم نے کوچہ و بازار میں تضحیک کا نشانہ بنایا۔ 2008ء کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ میں اتحاد ہوا، پھر دونوں بڑی جماعتوں کی راہیں جدا ہوئیں۔ مقام اطمینان تھا کہ دو بڑے سیاسی حریفوں میں اختلاف کے باوجود جمہوری بندوبست قائم رہا۔ تعجب کی بات ہے کہ برسراقتدار جماعت پیپلز پارٹی کو بھی مفاہمت کا طعنہ دیا گیا اور حزب اختلاف کی بڑی جماعت مسلم لیگ (نواز) پر بھی فرینڈلی اپوزیشن کی پھبتی کسی گئی۔ کیوں صاحب یہ سیاسی میدان ہے، پہلوانی کا اکھاڑا نہیں کہ آپ کی تفنن طبع کے لیے دنگل کا اہتمام کیا جائے۔ ہمیں تو خوش ہونا چاہیے کہ ہماری سیاسی قیادت نے بالغ نظری کا ثبوت دیا ہے ۔ ہم ان کا خاکہ اڑا رہے ہیں ۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ نواز شریف یا آصف زرداری کی تعریف کرنا گویا اپنے پیچھے بلا لگانے کے مترادف ٹھہرا۔ ایم کیو ایم، اے این پی او رجمعیت علمائے اسلام نے جہاں سیاسی درجہ حرارت کم کرنے میں حصہ ڈالا، ہم نے ان کی ٹانگ لی۔ سیاسی رہنماؤں کے لیے نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن کی کیفیت ہے ۔ اگر جمہوری عمل کو مضبوط بناتے ہیں تو مقبولیت کھونے کا خدشہ ہے اور طفلانِ گلی کوچہ کی ہاؤ ہو میں شریک ہوتے ہیں تو ملک کی بہتری خطرے میں پڑتی ہے۔ ہمیں پاکستانی ذہن کی اس بناوٹ پر غور کرنا چاہیے ۔
دنیا بھر میں جہاں جمہوریت کا پودا لگایا جاتا ہے وہاں ابتدائی طور پر سیاسی مخالفین میں کانٹے کا جوڑ پڑتا ہے۔ ایک دوسرے کے حسب نسب کی خبر لی جاتی ہے۔ مخالفین کی حب الوطنی پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں۔ مقصد اپنا سیاسی تشخص قائم کرنا ہوتا ہے۔ اس کشمکش میں نظریاتی قطعیت، فکری قطبیت اور دو ٹوک تصادم کا منظر پیدا ہوتا ہے۔ لیکن سیاسی اختلاف باپ مارے کا بیر نہیں ہوتا۔ معاشرے میں معاشی، سماجی،ثقافتی سطح پر بہت سے مفادات کا رفرما ہوتے ہیں۔ جمہوریت ان متنوع مفادات کو پرامن طریقے سے ایک سمجھوتے پر لانے کا نام ہے۔ اس سمجھوتے کی شکلیں بدلتی رہتی ہیں۔ سیاسی رہنما کو اپنے ساتھیوں میں قیاس کی قوس قائم رکھتے ہوئے عملیت پسند بننا پڑتا ہے۔ سیاسی رہنما قدرتی آفت نہیں ہوتے کہ جدھر نکلیں، تباہی اور کھنڈر کا سماں پیدا ہوجائے۔ اچھا جمہوری عمل ندی کے بہاؤ کی طرح آہستہ آہستہ اپنا راستہ بناتا ہے۔ سیاسی قیادت کو پل باندھ کر ممکنات کا کھوج لگانا ہوتا ہے۔ ہماری غالب خواہش یہ ہے کہ ہمارا رہنما پلک جھپکتے میں دما دم مست قلندر کر دے۔ ہر وقت تخت یا تختہ کی کیفیت میں رہے۔قوم کی تعمیر کا یہ ڈھنگ نہیں۔ اچھے سیاسی عمل کا ایک نشان یہ ہے کہ اس میں خبر بننے یا بنانے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ دنیا بھر میں ناروے ، فن لینڈاور سویڈن جیسے ملکوں کے صدر یا وزیرا عظم کا نام کتنوں کو معلوم ہے۔ سیاسی قیادت کا ہر وقت خبروں کی زینت بنے رہنا قومی ترقی کی ضمانت نہیں۔ برطانیہ اور امریکہ جیسے ممالک میں دو جماعتی نظام پختہ ہو چکا ہے۔ جاپان اور جنوبی کوریا اور بھارت جیسے ممالک میں بیک وقت بہت سی سیاسی جماعتیں موجود ہیں۔ ان دونوں نمونوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ تمام سیاسی قوتیں جمہوری بندوبست سے وابستگی رکھتی ہیں۔ انتخابی ہار جیت سے قطع نظر بنیادی نصب العین عوام کی بہتری اور قومی استحکام ہوتا ہے۔ ہم آئندہ انتخابات کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران جلسے جلوس کی گرما گرمی میں بہت کچھ دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے اور یہ سب جمہوری عمل کا حصہ ہے۔ ہمیں اپنے سیاسی رہنماؤں پر توقعات کا دباؤ اس قدر نہیں بڑھانا چاہیے کہ وہ عملیت پسندی کی صلاحیت سے محروم ہوجائیں۔ ہمیں اپنی قیادت کی خامیوں پر نظر رکھنی چاہیے۔ جمہوریت نام ہی جواب دہ حکمرانی کا ہے۔ تاہم جواب دہی کا مطلب یہ نہیں کہ سیاسی عمل کی بنیادوں میں بارودی سرنگیں بچھائی جائیں۔ حدود کی باڑ اس قدر بڑھ جائے کہ کھیتی کے لیے جگہ باقی نہ بچے۔ ملک کی داخلی سیاست میں حقیقت پسندی کا رجحان موجود نہیں ہو گا تو سیاسی رہنما بیرونی دنیا کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے بھی بے بس ہو جائیں گے۔ سیاسی رہنماؤں میں یہ احساس موجود رہنا چاہیے کہ عوام ان کی کارکردگی پر کڑی نظر رکھتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہیں اس قدر بے بس کر دیا جائے کہ وہ قومی مفاد کے لیے ضروری فیصلہ سازی کی ہمت بھی کھو بیٹھیں۔اگر عوام موجودہ سیاسی قیادت کی صلاحیت یا اہلیت پر اعتماد نہیں رکھتے تو انہیں کسی دوسری سیاسی جماعت کے حق میں فیصلہ کرنے کا پورا حق ہے لیکن یہ خیال رہے کہ جو سیاسی قیادت بھی حکومت بنائے گی، اسے بہرصورت زمینی حقائق کی روشنی میں کام کرنا ہو گا۔
تازہ ترین