• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نئی وفاقی حکومت ابھی اپنی عمر کے دوسرے ہفتے میں ہے تاہم نہایت اطمینان بخش بات ہے کہ خارجہ تعلقات سمیت قومی زندگی کے مختلف شعبوں کے حوالے سے اس کی جرأت مندانہ سوچ واضح ہوکر سامنے آرہی ہے ۔ خارجہ پالیسی کے ضمن میں جمعہ کو ایک نہایت اہم واقعہ امریکی وزیر خارجہ کی آمد سے محض چند روز پیشتر ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کے دورہ پاکستان کی شکل میں ہوا ۔ امریکہ ایران تعلقات ان دنوں ابتری کی جس انتہا پر ہیں، اس کے پیش نظر نئے دور حکومت میں ایران کا وہ پہلا ملک بننا جس کے وزیر خارجہ نے اسلام آباد آکر نہ صرف پاکستانی وزیر اعظم اور وزیر خارجہ سے تفصیلی مذاکرات کیے بلکہ جی ایچ کیو میں آرمی چیف جنرل باجوہ سے بھی براہ راست بات چیت کی، اس امر کا کھلا اظہار ہے کہ پاکستان کی موجودہ قیادت اپنے قومی مفادات کے مطابق ایک باوقار اور آزاد و خودمختار خارجہ پالیسی کی تشکیل پر یکسو ہے۔ امریکی بالادستی پر مبنی خارجہ پالیسی سے نجات بلاشبہ آج ہماری ناگزیر قومی ضرورت ہے جس کا بھرپور اظہار ایرانی وزیر خارجہ اورپاکستانی حکام کے درمیان ہونے والی بات چیت میں ہوا۔ وزیراعظم نے اپنی گفتگو میں اس حقیقت کی نشان دہی کی کہ پاک ایران وسیع تر باہمی رابطے علاقائی ترقی کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں اورپاکستان مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کیلئے ہر ممکن کاوش کرے گا جبکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور حکومت پاکستان کے دیگر متعلقہ ذمہ داروں سے مذاکرات میں جناب جواد ظریف کو یقین دہانی کرائی گئی کہ پاکستان جوہری معاہدے کے معاملے میں ایران کے ساتھ ہے۔ پاکستانی حکام نے صراحت کی کہ دفاعی اور تعمیری مقاصد کے لیے جوہری صلاحیت کاحصول ہمارے نزدیک دنیا کے ہر ملک کا حق ہے اور اسی بناء پر ہم اس معاملے میں ایران کے اصولی موقف کے مکمل حامی ہیں۔ جوہری معاہدے کے حوالے سے امریکہ کی ایران سے شدید ناراضگی کے باوجود پاکستان کا ایران کے ساتھ کھڑے رہنے کا اعلان پوری دنیا کے لیے واضح طور پر یہ پیغام ہے کہ پاکستان اب امریکہ کا تابع مہمل بن کررہنے کو تیار نہیں۔پاکستان کی پالیسیاں اب امریکی مفادات کے بجائے حق و انصاف اور اپنے قومی مفادات پر مبنی ہوں گی۔ نئی حکومت کے اس طرز فکر کا ایک اورمظاہرہ گزشتہ روز ہی سینئر صحافیوں سے وزیر اعظم کی ملاقات میں ہوا۔ پاک امریکہ تعلقات کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر انہوں نے دوٹوک الفاظ اور دبنگ لہجے میں کہا کہ ’’ امریکہ کو بات کرنی ہے تو عزت سے کرے،لڑ نہیں سکتے لیکن امریکہ کی کوئی غلط بات مانی نہیں جائے گی۔ ‘‘ نئی قومی قیادت کی یہ سوچ وقت کی ضرورت کے عین مطابق جرأت مندانہ اور باوقار خارجہ پالیسی کی بنیاد بنتی نظر آتی ہے۔عالمی سطح پر سیاست اور معیشت کے مراکز بدل رہے ہیں۔ موجودہ امریکی قیادت اپنی متنازع پالیسیوں سے اپنے ملک کو دنیا میں تنہا کرتی چلی جارہی ہے، ایران کے معاملے پر یورپی ممالک بھی واشنگٹن کے حامی نہیں، عالمی سطح پر چین اور روس کی سیاسی اور اقتصادی اہمیت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ، جنوبی ایشیامیں امریکہ نے اپنا سارا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈال کر خطے میں اپنی تنہائی کا خود ہی اہتمام کرلیا ہے۔ ان حالات میں پاکستان کے لیے ایسی نئی خارجہ پالیسی کی تشکیل لازمی ہے جو یک رخی نہیں بلکہ وسیع تر تعلقات پر مبنی ہو ۔ خصوصاً ایران اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم رکھتے ہوئے دونوں برادر مسلم ملکوں کے تنازعات کے تصفیے کی ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے کیونکہ مشرق وسطیٰ میں برسوں سے جاری بدامنی کا خاتمہ اور مسلم دنیا میں باہمی تعاون کا فروغ اس کے بغیر ممکن نہیں۔ حکومت پر تنقید سے پہلے اسے کام کرنے کے لیے تین ماہ کا موقع دینے کا جو مطالبہ وزیر اعظم نے صحافیوں سے ملاقات میں کیا وہ بھی بڑی حد تک جائز ہے تاکہ حکومت مختلف شعبوں میں اپنی سمت اور اہداف کا تعین کرسکے لیکن حکومت کی سنگین غلطیوں سے بہرحال میڈیا صرف نظر نہیں کرسکتا، نان ایشوز کو مسئلہ بنانے سے گریز البتہ ضروری ہے۔

تازہ ترین