• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس ہفتے جو خودکش دھماکے اور دہشت گردی کے دوسرے واقعات ہوئے ہیں ان کا آپ کے دل و دماغ پر کیا اثر پڑا ہے؟ ان میں سے بیشتر کا فرقہ واریت سے جو تعلق ہے اسے آپ کیسے دیکھتے ہیں؟ مسئلہ یہ ہے کہ دہشت گردی، انتہا پسندی اور تشدد کی کہانی اب پرانی ہوچکی ہے۔ البتہ کبھی کبھی درجہ حرارت اچانک زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ جیسے محرم کے ان دنوں میں… اسی طرح عوامی ردعمل بھی گزشتہ سے پیوستہ کی صورت میں ایک مخصوص ڈگر پر قائم ہے۔ نجی محفلوں میں تقریباً سب اپنی بے بسی اور مایوسی کا اظہار کرتے ہیں۔ خوف، دہشت اور بے یقینی کی فضا میں، آنے والے کسی طوفان کی سرسراہٹ صاف سنائی دیتی ہے۔
یہ سب تو ہے لیکن حالات کا سنجیدگی سے تجزیہ کرنے اور مسائل کا قابل عمل حل تلاش کرنے کی فکری جدوجہد کے اشارے نہیں ملتے۔ میڈیا بھی بڑی حد تک اجتماعی ذہنی انتشار کی عکاسی کرتا ہے۔ ہمارے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت بھی قانون کے نفاذ کی طرح بہت کمزور ہے۔ جسے ہم ’کریٹیکل تھنکنگ‘ یعنی تنقیدی سوچ کہیں، اس کی کمی بھی ایک ایسا سانحہ ہے جو کسی اندرونی چوٹ کی طرح ہماری قوت مدافعت کو کمزور کررہا ہے۔ اس ضمن میں مجھے وہ گفتگو یاد آرہی ہے جو کوئی دس روز قبل پشاور میں ہوئی تھی۔ ہوا یہ کہ بچوں کے ادبی میلے کے سلسلے میں، میں نے تین دن پشاور میں گزارے۔ اس میلے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اسکول کے طلبہ میں درسی کتابوں کے علاوہ مطالعہ کے شوق کو بڑھایا جائے اور ان کے تخیل کو بیدار کیا جائے۔ میلے کی متنوع سرگرمیوں کا ذکر یہاں ممکن نہیں۔ میں صرف ایک سیشن کا ذکر کررہا ہوں جس کا موضوع ’کریٹیکل تھنکنگ‘ تھا اور جس کی میں نے میزبانی کی تھی۔ یہ سیشن والدین اور اساتذہ کیلئے تھا اور اس میں باچا خاں ایجوکیشن ٹرسٹ کے سربراہ، خادم حسین، استاد ذکیہ سرور اور سماجی کارکن نرگس سلطانہ شریک گفتگو تھے۔ حاضرین میں موجود ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو اور فہمیدہ ریاض جیسی شخصیات نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
سچی بات یہ ہے کہ سوچنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص خالی اور خاموش بیٹھا ہو تو آپ یہ فرض نہیں کرسکتے کہ وہ سوچ رہا ہے۔ یا یہ کہ اس کی سوچ تنقیدی اور ایجادی نوعیت کی ہے۔ جس سیشن کی میں بات کررہا ہوں اس کا عنوان، ظاہر ہے، انگریزی میں تھا اور گفتگو، انگریزی اصطلاحات کے چھڑکاؤ کے ساتھ، اردو میں تھی۔ یہ لسانی آمیزش ہماری بات چیت کا معمول بن گئی ہے اور اس سے بھی شاید سوچنے کے عمل میں کچھ رکاوٹ پیدا ہوتی ہو۔ بہرحال، تنقیدی سوچ یا فکر اس لئے مشکل ہے کہ اس کیلئے علم کی، معلومات کی اور معروضی حالات کے غیرجذباتی ادراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے، اعلٰی تعلیم کے اداروں کو تنقیدی سوچ کی آماجگاہ ہونا چاہئے۔ ایک ایسی جگہ جہاں ذہنی آزادی میسر ہو اور اختلاف رائے کے تقدس کو تسلیم کیا جاتا ہو۔ ہم جس فکری اور تہذیبی پسماندگی کا شکار ہیں اس کا مظاہرہ آپ اپنے اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں دیکھ سکتے ہیں۔ دوچار کو چھوڑ کر آپ کوہر کالج یا یونیورسٹی کے کیمپس پر ایسا ماحول ملے گا کہ جس میں کتابیں پڑھنے، سنجیدہ بحث کرنے، تحقیق کرنے اور نئے خیالات کا کھوج لگانے کی کوئی روایت نہیں ہے۔ پورے معاشرے کو دیکھیں تو اس میں عدم برداشت، انتہا پسندی اور عقیدہ پرستی کا دور دورہ ہے۔ مروجہ سوچ سے بغاوت کرنا، یہ کہنا کہ ’میں نہیں مانتا‘ اپنے آپ کو خطرے میں ڈالنا ہے۔ بیشتر لوگ آئین نو سے ڈرتے ہیں اور طرز کہن پر اڑتے ہیں۔ فیض بھی یہ دعا مانگتے رہے کہ ’جن کا دین بیرونی کذب دریا ہے انکو/ ہمت کفر ملے، جرأت تحقیق ملے‘۔
اصل مسئلہ ہمارا نظام تعلیم ہے۔ اور ہاں، یہ لنگڑی لولی تعلیم بھی تو سب کو میسر نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا اجتماعی ذہن بے عملی اور لاعلمی کی گرفت میں، ایک پیچیدہ اور تکلیف دہ صورتحال کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ صرف ایک مثال۔ چند ہفتے پہلے کسی نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ پانی سے کار چلا کر دکھا سکتا ہے۔ اس پر میڈیا میں بہت شور برپا ہوا۔ اسی عرصے میں گیلپ پاکستان نے رائے عامہ کا ایک سروے کیا۔ خواتین و حضرات کے ایک نمائندہ گروپ سے یہ سوال کیا گیا کہ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پانی سے کار چل سکتی ہے اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ ایک فراڈ ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟“ اگر آپ اس سروے کے نتائج سے واقف ہیں تو دوسری بات ہے۔ اگر نہیں تو ذرا سنبھل کر بیٹھ جائیے۔ جواب دینے والوں میں سے 69 فیصد نے یہ مانا کہ ہاں، پانی سے کار چل سکتی ہے۔ 69 فیصد یعنی 70 سے ایک کم… دس فیصد نے اسے ایک مذاق سمجھا اور اکیس فیصد نے وہی آسان جواب دیا کہ ”پتہ نہیں۔“
اصولاً تو ٹیلیویژن پر جو مباحثے یعنی ٹاک شوز ہوتے ہیں ان سے تنقیدی سوچ کو سہارا ملنا چاہئے۔ لیکن یہاں تو منطقی سوچ اور استدلال کے بجائے، ایک جذباتی لہجے میں الزام اور جوابی الزام کی تکرار سنائی دیتی ہے۔ ساری توجہ سیاست پر رہتی ہے اور معاشرتی مسائل نظر انداز کئے جاتے ہیں۔ چیخ کر بات کرنے والے بظاہر جیت جاتے ہیں۔ وہی لوگ، وہی باتیں بار بار کرتے رہتے ہیں۔ سوچنے کے جس عمل کی میں بات کررہا ہوں اس کا تعلق تخلیق اور تحقیق سے ہے جیسے شاعر سوچتا ہے۔ جیسے سائنسدان سوچتا ہے۔ جیسے کسی اہم ادارے کا سربراہ سوچتا ہے اور اس طرح سوچنے کیلئے جس ماحول کی ضرورت ہے اس میں ادب اور فنون کی ایک خاص حیثیت ہوتی ہے۔ سائنس، انڈسٹری اور معیشت میں وہی معاشرے آگے بڑھتے ہیں جو اپنے ادیبوں، شاعروں، مفکروں اور موسیقاروں کی قدر کرتے ہیں۔ جہاں تھیٹر، سینما گھر، میوزیم اور لائبریریاں آباد رہتی ہیں۔ ایک شک یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم ’غیر شعوری طور پر‘ نئے خیالات سے اور سوچنے سے ڈرتے ہیں کیونکہ اس طرح شاید ہمیں اپنے عقیدوں، روایات اور رویوں کو رد کرنا پڑے۔ مثلاً ہم اپنے قبائلی اور جاگیردارانہ ذہن کو تبدیل کرنے سے کتراتے ہیں۔ اس جدید دنیا میں زندہ رہتے ہوئے بھی ہم کئی معنوں میں ایک کھوئے ہوئے ماضی میں اپنی جڑیں تلاش کرتے ہیں۔
اتنے سال ہوگئے ہمیں دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے اور قبائلی علاقوں میں ترقی اور تبدیلی کے خاطر خواہ آثار ابھی تک پیدا نہیں ہوئے۔
نظام تعلیم کا میں نے ذکر کیا۔ اس نظام میں فلسفے کو بطور ایک مضمون کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ ایسے ممالک ہیں جہاں فلسفہ کالجوں اور یونیورسٹی میں نہیں، بلکہ اسکولوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ اصل مسئلہ بچوں میں تجسس پیدا کرنا ہے کہ وہ اپنے سوالوں کی کھوج میں نئی دنیائیں دریافت کرسکیں۔ پیرس ساری دنیا میں رومانس کا شہر ہے لیکن وہ فلسفے کا شہر بھی ہے۔ چائے خانوں اور ریستورانوں میں ادیب، شاعر اور طالب علم زندگی اور موت کے گمبھیر مسائل پر بحث کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کیونکہ میں نے خود کسی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل نہیں کی(اور اس کی ایک وجہ میری آوارگی بھی تھی) اس لئے میں کیمپس پر گزاری جانے والی زندگی کو ہمیشہ حسرت سے دیکھتا ہوں۔ مجھے شوق ہے دنیا کی بڑی بڑی جامعات کے کیمپس کو دیکھنے کا اور ایک صحافی کی حیثیت سے مجھے اس کا موقع بھی ملا… میں نے دیکھا کہ وہاں پڑھنے لکھنے کا اور علمی سرگرمیوں کا معیار کتنا بلند ہے۔ اس کا موازنہ جب میں اپنی جامعات سے کرتا ہوں تو دل ڈوب جاتا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم کب تک علم اور تہذیب کے اس خسارے کو برداشت کرسکیں گے۔ یہ جو ہفتہ گزرا ہے اس نے ہماری پریشانی اور خوف میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ پتہ نہیں کہ ہمارے حکمرانوں کو سوچنے کی مہلت کب ملے گی۔ اور کیا ان میں اتنی دانش اور اتنی قوت باقی ہے کہ وہ سوچ سکیں۔
تازہ ترین