• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب سے حکومتیں بنی ہیںپاکستان تحریک انصاف غائب ہے۔ ایک پارٹی ہوا کرتی تھی۔ جو عوام کو اچھی خبریں دیا کرتی تھی۔ ایک ولولۂ تازہ پیدا کرتی تھی۔ اب وزیر اعظم تو ہے۔ وفاقی وزراء ہیں گورنر ہیں۔ وزرائے اعلیٰ ہیں۔ لیکن پارٹی چیئرمین۔ وائس چیئرمین۔ سیکرٹری جنرل اور دوسرے عہدیدار نہیں ہیں۔یہ بھی معلوم نہیں کہ پی ٹی آئی کے صدر دفتر کہاں گئے۔ وہاں کوئی بیٹھتا ہے یا نہیں۔ پارٹی کی کوئی سینٹرل کمیٹی موجودہ صورت حال پر غور کررہی ہے یا نہیں۔

اس گمشدگی پر تفصیل سے بات کریں گے۔

پہلے سیاسی کارکن مائوزے تنگ۔ کارل مارکس کی کتابیں پڑھ کر سیاسی جدو جہد کرتے تھے۔ باچا خان ۔ ذوالفقار علی بھٹو۔ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی تصنیفات کی روشنی میں تقریریں کرتے تھے۔ اب صرف اسمارٹ فون ہے اور وہ ۔ جس کی پاور بھی آف ہوجاتی ہے۔ بیلنس بھی ختم ہوسکتا ہے۔ اسمارٹ فون کو بھی جلدی ہوتی ہے۔ آج کے لیڈروں اور کارکنوں کو بھی صبر نہیں ہوتا۔ ٹویٹ بھی کردیتے ہیں۔ فیس بک پر بھی اپنی بے صبری پوسٹ کردیتے ہیں۔ پہلے تولو۔ پھر بولو کی فرصت ہی نہیں ہے۔ گوگل زدہ لیڈر بعد میں وضاحتیں کرتے رہتے ہیں۔ آرام سے گھر بیٹھی نرگسوں اور میگھائوں کو زبان کھولنے پر مجبور کردیتے ہیں۔

ادھر تفریحی چینلوں پر جتنے ڈرامے چل رہے ہیں ان میں سازشی ساسیں اور ان کے اتحادی چھائے ہوئے ہیں کوئی بے نقاب نہیں ہورہا ہے۔ یہی حال گوادر سے واہگہ تک پاکستانی عوام کا ہے۔ وہ اسی طرح سازشیوں کے گزشتہ اور موجودہ مظالم کا شکار ہیں۔ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے۔ انہیں تسلّی دینے والا اور دکھ بانٹنے والا کوئی نہیں ہے۔

ایک امریکی اخبار میں یہ سرخی میرے دل و دماغ پر چھاگئی ہے۔ Puppets are getting out of hand پتلیاں قابو سے باہر ہورہی ہیں۔ ڈور جس کے ہاتھ میں ہوتی ہے اس کے لئے یہ منظر بڑا بھیانک ہوتا ہے۔ پاکستان میں جمہوری تجربے کے ابھی تک نتیجہ خیز نہ ہونے اور اس کے ثمرات عام پاکستانی تک نہ پہنچنے کے اور بھی کئی اسباب ہوں گے۔ لیکن میرے مشاہدے اور تجربے کے مطابق بڑی وجہ سیاسی پارٹیوں کا اپنی حکومتوں پر بالادست نہ ہونا بھی ہے۔ پارٹیوں کی تنظیم ویسے بھی کمزور ہوتی ہے۔ اس پر خاندان کا غلبہ ہوتا ہے۔ لیکن جب یہ تخت سنبھالتی ہیں تو سارے پارٹی عہدیداروں اور کارکنوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ بھی کوئی حکومتی عہدہ لے کر تخت پر براجمان ہوجائیں۔ اس طرح پارٹی کا اسٹیج خالی ہوتا رہتا ہے ۔ سرکاری اسٹیج پر وزن بڑھتا رہتا ہے ایک روز یہ اسٹیج اس غیر معمولی دبائو سے بیٹھ جاتا ہے۔

پی ٹی آئی بھی گزشتہ دو تین ہفتوں سے اسی عالم سے گزر رہی ہے۔ وفاقی کابینہ میں مزید توسیع کی خبریں چل رہی ہیں پارلیمانی نظام کا یہ پیدائشی نقص ہے کہ چار ایم این اے ناراض ہوجائیں تو پورا ڈھانچہ لرزنے لگتا ہے۔ مہذب اور ترقی یافتہ معاشروں میں تو یہ ہوتا ہے کہ حکومتی عہدوں پر جانے والے پارٹی عہدے چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کی جگہ نئے پارٹی عہدیدار آجاتے ہیں۔ بنیادی ذمہ داریاں پارٹی کے پاس ہی ہوتی ہیں۔ داخلہ خارجہ پالیسی اور دیگر سیاسی سماجی فیصلے پارٹی کی اعلیٰ کمان کرتی ہے۔سرکار ان پر عملدرآمد کرواتی ہے ۔ ہر وزارت سے متعلقہ پارٹی کی اپنی اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی ہوتی ہے جس کا اپنا سیکرٹریٹ ہوتا ہے ۔ حکومت میں ہوں یا باہر یہ کمیٹیاں اپنے شعبوں میں مسلسل کام کرتی رہتی ہیں۔

پی ٹی آئی بحیثیت پارٹی اب کہیں جلوہ گر نہیں ہے۔ پارٹی کے ترجمان وزیرا طلاعات بن گئے ہیں۔ پارٹی کا ترجمان اب کوئی نہیں ہے۔

وزیر اعظم پارٹی چیئرمین بھی ہیں۔ لیکن اب ان کی آواز وزیر اعظم کی حیثیت سے سنائی دیتی ہے ۔ پارٹی کی چیئرمینی انہوں نے بنی گالا کی رہائش گاہ کے کسی اسٹور میں رکھ چھوڑی ہے۔

لگتا یوں ہے کہ پارٹی کوئی سواری تھی۔ حکومت منزل تھی۔ اس کے بعد اب پارٹی کی ضرورت نہیں رہی۔ حالانکہ پی ٹی آئی کی طاقت پارٹی اور اس کے کارکن ہیں اور وہ پُر جوش حامی جنہوں نے عمران خان کو کسی بڑے فلسفے کے لئے نہیں کرپشن کے خاتمے کے لئے ووٹ دیے ہیں۔ عمران خان کی کرپشن سرکاری خزانے کی لوٹ مار کے خلاف آواز عوام کی آواز تھی۔ کیونکہ قومی دولت پر چند خاندانوں کے ڈاکے نے سب سے زیادہ کنگال عوام کی اکثریت کو کیا ہے۔ پاکستانیوں کی بڑی تعداد میر و سلطان سے بے زار تھی۔ اس مٹھی بھر اشرافیہ کے ملک پر قبضے سے برہم تھی۔ پارٹی کے کارکنوں اور عام شہریوں کے اتحاد نے عمران خان کو ملک کی باگ ڈور دی ہے۔ اصل طاقت یہ ہے اور اسی قوت کی وجہ سے دوسری قوتیں عمران سے ہاتھ ملانے ۔ انہیں سیلوٹ مارنے پر آمادہ ہوتی ہیں۔ سب کی قدر مشترک کرپشن کا خاتمہ ہے۔

بالی وڈ کی ایک فلم یاد آتی ہے۔ ناک آئوٹ۔ جس میں ملک سے ناجائز طریقوں سے باہر بھیجی گئی دولت چندگھنٹوں میں واپس سرکاری خزانے میں جمع کروادی جاتی ہے۔ پورا ہندوستان براہِ راست ٹی وی دیکھ رہا ہے ہر سیکنڈ بعد لاکھوں ڈالر سوئس بینکوں سے واپس آرہے ہیں۔ قومی خزانے میں جمع ہورہے ہیں۔ اس فلم کو 20thسنچری کی ’ فون بوتھ‘ کاچربہ قرار دیا گیا تھا۔ پاکستانی عوام بھی کچھ ایسا ہی خواب دیکھ رہے ہیں۔ عمران خان سے یہ توقعات کررہے ہیں کہ امریکہ۔ برطانیہ۔ سوئٹزرلینڈ کے بینکوں سے اسی طرح کسی دن کروڑوں ڈالر اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں منتقل ہونے کی نوید دیں۔ بہت سوں کی خواہش ہے کہ یہ چند سو خاندان جو یہاں سے دولت سمیٹ کر باہر لے گئے ہیں یہ از خود یہ سرمایہ قوم کے حوالے کردیں۔

قومی خزانے میں یہ دولت واپس آنی چاہئے۔ عوام کو وزیر اعظم ہائوسوں۔ گورنر ہائوسوں کی نیلامی یا فروخت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ایسے کھلونے دے کر انہیں بہلایا نہ جائے۔

اوّلیں ترجیح تو اس ناجائز دولت کی واپسی ہے۔ عمران خان کی کامیابی یا ناکامی کی کسوٹی یہی ہوگی اس کے لئے عوامی تائید اور حمایت ہر قدم پر درکار ہوگی۔ یہ حمایت کسی سرکاری آرڈیننس۔ ٹاسک فورس کے ذریعے نہیںبلکہ پارٹی کی طاقت سے ہی مل سکتی ہے۔ حکومت صرف 5سال کے لئے ہوتی ہے۔ اس سے پہلے بھی جاسکتی ہے۔ سیاسی نجومی تو ابھی سے ایک ڈیڑھ سال کی بات کررہے ہیں۔ جی ایچ کیو کے کامیاب دورے سے پانچ چھ مہینے اور بڑھ سکتے ہیں۔ حکومت مستقل نہیں ہے۔ پارٹی مستقل ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ جو طاقت دیرپا ہے اسے منظّم کریں۔ منزل مضبوط پارٹی اور مضبوط پاکستان ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ پارٹی عہدے الگ کریں۔وزراء اور وزیر اعظم پارٹی کے سامنے جواب دہ ہونے چاہئیں۔ پاکستان میں پارٹی سربراہ کے لئے تو مشکل رہا ہے کہ وزیر اعظم یاصدر بننے کے بعد پارٹی چیئرمینی چھوڑ دے۔ اس لئے اگر عمران خان یہ قربانی نہیں دینا چاہتے تو پارٹی کے وائس چیئرمین۔ سیکرٹری جنرل اور صوبائی سربراہ تو نئے لائے جائیں۔ پارٹی کا ایک چیف آرگنائزر مقرر کیا جائے۔ سینٹرل کمیٹی بھی نئے سرے سے تشکیل دی جائے۔ اس میں کوئی سرکاری عہدے والا شامل نہ ہو۔ سینٹرل کمیٹی کی ذمہ داری ہو کہ وہ مانیٹرنگ کرے کہ پارٹی حکومت اپنے منشور۔ ایجنڈے۔ اور پاکستان کے دستور کے مطابق فیصلے کررہی ہے یا نہیں۔

آپ کا کیا خیال ہے۔ ای میل کریں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین