• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن سے وفا کی ایک لازوال داستان ختم ہو چکی ہے ۔ سپاہی مقبول حسین اس مٹی کے سپرد ہو گئے ہیں ، جس کی محبت میں انہوں نے ساری زندگی دکھ جھیلے ۔ ہم ہر سال 6 ستمبر کو یوم دفاع پاکستان مناتے ہیں ۔ یہ دن 1965 میں بھارتی جارحیت کے خلاف کامیاب دفاع کی یاد میں منایا جاتا ہے ۔ پاکستان کی مسلح افواج کے بہادر افسروں اور جوانوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر وطن کا دفاع کیا ۔ متعدد افسر اور جوان شہید ہوئے لیکن ایک جوان ایسا بھی تھا ، جس کے لئے 6 ستمبر 1965 کی جنگ کے بعد مصائب اور دکھ شروع ہوئے اور 40 سال تک وہ یہ جنگ لڑتا رہا ۔ پاکستان کا یہ عظیم سپوت سپاہی مقبول حسین تھا ۔

مقبول حسین کی دستان بڑی عجیب ہے ۔ 1965 ء کی پاک بھارت جنگ میں انہوں نے سر ی نگر میں اپنا مشن مکمل کیا ۔ لڑائی کے دوران وہ زخمی ہوئے اور کسی طرح بھارتی سرحد کے اس پار چلے گئے ۔ اس کے بعد انہوں نے پاکستان کے لئے جو دکھ جھیلے ، اس کا کوئی تصور ہی نہیں کر سکتا ۔ 40 سال تک انہوں نے بھارتی جیل میں قیدی بن کر زندگی گزاری لیکن انہیں ’’ جنگی قیدی ‘‘کا درجہ نہیں دیا گیا کیونکہ جنگی قیدیوں کو کچھ مراعات حاصل ہوتی ہیں ۔ جیل میں ان پر مظالم کی انتہا کر دی گئی ۔ انہیں روزانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا اور ان سے کہا جاتا تھا کہ وہ پاکستان کے خلاف غلط زبان استعمال کریں ۔ ان کے ہاتھوں اور پاؤں کے ناخن نکال لئے جاتے تھے لیکن انہوں نے کبھی بھی پاکستان کے خلاف بات نہیں کی ۔ کہا جاتا ہے کہ جب تشدد کے دوران ان کا خون بہنے لگتا تھا تو وہ اپنے خون سے جیل کی دیواروں پر ’’ پاکستان زندہ باد ‘‘ لکھتے تھے ۔ بھارتیوں نے انہیں ہر قسم کے ظلم اور غیر انسانی سلوک کا نشانہ بنایا۔ حالانکہ جنگی قیدیوں کو بھی جنیوا کنونشن میں کچھ حقوق دیئے گئے ۔ بھارت نے انہیں کبھی جنگی قیدی کا درجہ بھی نہیں دیا ۔ مقبول حسین سے کہا جاتا تھا کہ وہ پاکستان کی افواج کے بارے میں کچھ خفیہ معلومات فراہم کریں تو انہیں چھوڑ دیا جائے گا لیکن مقبول حسین کہتے تھے کہ ان کی زبان کاٹ دی جائے ۔ وہ کبھی ایک لفظ بھی ایسا نہیں بولیں گے ، جس سے وطن سے غداری کا ارتکاب ہو ۔ زندگی کے 40 سال دشمن کی قید میں گزارنا کوئی ایسی بات نہیں ، جسے صرف بیان کر دیا جائے اور کچھ محسوس کیے بغیر سن لیا جائے ۔ یہ کوئی معمولی قیدی نہیں تھے ۔ بھارتیوں کے ہاتھ میں ایک پاکستانی فوجی آ گیا تھا ، جس پر تشدد کرنا وہ اپنا فرض سمجھتے تھے ۔ وہ اپنے غضب اور قہر کی مشق کرتے تھے لیکن مقبول حسین نے وطن سے وفا اور محبت کی طاقت کے ساتھ اس صورت حال کا مقابلہ کیا اور دشمن کو بتا دیا کہ ان کے ظلم و ستم مقبول حسین کی ہمت کو شکست نہیں دے سکتے ۔ دھرتی کا یہ عظیم بیٹا جرات و بہادری ، وفااور محبت کی روزانہ ایک نئی داستان رقم کرتا رہا ۔ 20 اگست 1965 ء کو مقبول حسین کو لاپتہ قرار دیا گیا تھا ۔ طویل عرصے بعد معلوم ہوا کہ مقبول حسین حیات ہیں اور بھارت کی قید میں ہیں ۔ اگر وہ بھارتی جیل میں پاکستان مخالف نعرہ لگاتے تو انہیں فوراً رہائی مل سکتی تھی لیکن انہوں نے ایسا کبھی نہیں کیا ۔ مقبول حسین جانتے تھے کہ ان کے بارے میں کسی کو علم بھی نہیں ہے اور انہیں بچانے کے لئے بھی کوئی نہیں آئے گا لیکن انہوں نے بھارتی جیل کی دیواروں پر اپنے خون سے ’’ پاکستان زندہ باد ‘‘ لکھا ۔ مقبول حسین یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ وہ زندہ وطن واپس جا سکیں گے یا نہیں اور ان کی اس عظیم قربانی اور وطن سے محبت کے اس لازوال جذبے کا کوئی اعتراف بھی کرے گا یا نہیں ۔ مٹی سے محبت ان کے خون میں شامل تھی اور ایسی محبت کسی صلے یا ستائش کی محتاج نہیں ہوتی ۔

1965 ء میں وطن کا دفاع کرنے والے شہداء کے ساتھ ساتھ سپاہی مقبول حسین کی قربانیوں پر بھی انہیں سلام پیش کرتے ہیں ۔ دھرتی کا یہ عظیم سپوت 28 اگست 2018 ء کو مٹی ماں کے حوالے ہوگیا ہے۔ ہم ایسے لوگوں کی وجہ سے فخریہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایک عظیم قوم ہیں ۔ مقبول حسین نے اپنے خون سے بھارتی جیل کی دیواروں پر پاکستان زندہ باد لکھ کر پاکستان کو امر کر دیا ہے۔ جو لوگ پاکستان کے وجود کو نہیں مانتے ، انہیں مقبول حسین نے باور کرا دیا ہے کہ پاکستان ایک حقیقت ہے۔

کچھ لوگ سیاسی غلط فہمیوں کی وجہ سے پاکستان کی مسلح افواج کی ان قربانیوں کا ادراک نہیں کر پاتے ہیں ، جو وطن کے دفاع میں پیش کرتی ہیں ۔ بھارت نے 1965ء میں جس طرح کی جارحیت کا مظاہرہ کیا تھا ، اس کا اگر کامیاب دفاع نہ کیا جاتا تو آج شاید ہمارے ملک کا یہ نقشہ نہ ہوتا اور ہمارے حالات بھی بدتر ہوتے ۔ 1965ء کی بھارتی جارحیت کا مسلح افواج کے افسروں اور جوانوں نے اپنے خون سے دفاع کیا ۔ غیر معمولی بہادری اور جرأت کے لئے مختص ’’ نشان حیدر ‘‘ سب سے زیادہ اسی جنگ میں شہید ہونے والوں کو ملا ۔ کیپٹن سرور شہید ، میجر طفیل شہید ، میجر راجہ عزیز بھٹی شہید ، میجر شبیر شریف شہید ، میجر محمد اکرم شہید ، محمد حسین جنجوعہ شہید ، لارنس نائیک محمد محفوظ شہید اور حوالدار لالک جان شہید نے جرات اور بہادری کے ایسے کارنامے انجام دیئے ، جو رہتی دنیا تک جانبازوں کے لئے مثال بنے رہیں گے۔ اسی بنیاد پر ان سب کو ’’ نشان حیدر ‘‘ سے نوازا گیا ۔ ہمیں سیاسی مغالطوں سے نکل کر ان قربانیوں کا ادراک کرنا چاہئے ۔ وطن کے یہ عظیم بیٹے ہماری آزادی کی حفاظت کے لئے قربان ہوئے ۔ مقبول حسین نے 40 سال تک (1965ء سے 2005 ء تک) بھارتی قید میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا کر یہ بتا دیا کہ وطن سے وفا کیا ہوتی ہے اور دھرتی سے محبت کا مطلب کیا ہے ۔ وطن کے رکھوالوں کو ہمارا سلام ۔ اس مرتبہ 6 ستمبر کا فلسفہ مقبول حسین کی داستان سے سمجھا جا سکتا ہے ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین