• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تبدیلی 3ماہ کے فاصلے پر

وزیراعظم عمران خان:میڈیا 3ماہ بعد تنقید کرے، اس سے اصلاح ہوتی ہے لیکن پہلے ہماری کارکردگی دیکھ لے، بڑی اچھی بات ہے جہاں 70سال انتظار کیا 3ماہ اور سہی، پر اگر تبدیلی نہ آئی تو تنقید آ سکتی ہے۔ میڈیا سے مدت مانگی ہےدے دینی چاہئے کہ آج تک کسی نے یہ مطالبہ نہیں کیا۔ ہم میڈیا والے جان سکتے ہیں کہ مطالبہ جو دل سے نکلتا ہے اثر رکھتا ہے۔ انہوں نے تنقید کی افادیت بھی مان لی ہے اس لئے ہمیں تجزیہ کاروں کی اس رائے سے کامل اتفاق ہے کہ 3ماہ کی مہلت دینے میں حرج نہیں۔ اگرچہ تنقید تعمیری ہی ہوتی ہے تاہم نوے دن عمارت تعمیر کرنے کے آثار ظاہر ہونے کا انتظار کرنا کوئی بڑی بات نہیں، ویسے بھی ابھی کچھ ہوا نہیں تو تنقید کریں بھی کس کارکردگی پر، ہمیں البتہ یہ فکر ہے کہ ہم 3ماہ کریں گے کیا؟ بہرحال تبدیلی 3ماہ بعد، تنقید بھی 3ماہ بعد یہ دو موضوعات بھی 3ماہ گزارنے کے لئے کچھ زیادہ نہیں، پلک جھپکنے میں ایک پل گزر جاتا ہے، 3ماہ میں پلکیں کتنی بار جھپکیں گی اس کا حساب لگانے میں بھی 3ماہ آسانی سے گزارے جا سکتے ہیں، بریفنگ میں پہلی بار کسی پاکستانی وزیراعظم نے کہا ہے امریکا عزت سے بات کرے، اور یہ کہ دو بار فرانسیسی سربراہ حکومت کا فون آیا مگر وزیراعظم نے میڈیا کے ساتھ میٹنگ کے باعث بات نہیں کی، ابھی ہمیں تصور میں سب ہرا ہرا دیکھنے کی مشق کرنا ہو گی۔ 3ماہ میں نرسری میں پودے تو اگ پڑیں گے۔ اتنا بھی کافی ہو گا تنقید کھولنے کے لئے، 3ماہ کے بعد خود ہی ترجمان حکومت اعلان کر دے گا کہ خواتین و حضرات تنقید کھل گئی ہے، کاغذی پلیٹوں پر ضرورت سے زیادہ ڈال کر اپنی تنقید کو ضائع کرنے سے پرہیز کریں، اگر کسی کے قلم کو بدہضمی ہو جائے تو وزیراعظم ہائوس میں پھکی کا بھی انتظام کیا گیا ہے آواز دیکر طلب کر سکتے ہیں۔ ٹرمپ کو بھی معلوم ہو جائے گا کہ اک میں ہی نہیں تنہا، اس دنیا میں ٹرمپ کوئی اور بھی ہے، انہوں نے ہمارے انتظار کو لمبا ہونے سے بچانے کی خاطر جنرل اسمبلی کے اجلاس میں 4دن ضائع کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے، ہمیں یہ فکر بھی ہے کہ انہوں نے کہہ دیا ہے امریکا کی کوئی غلط بات نہیں مانیں گے، جبکہ امریکا نے ڈومور کے سوا کبھی کوئی اور غلط بات کی ہی نہیں الغرض میڈیا سے میٹنگ کا نتیجہ یہ ہے کہ میڈیا نے وزیراعظم کو 3ماہ کا وقت دے دیا ہے۔

٭٭٭٭

کیا صبح نہیں ہونی تھی؟

چیف جسٹس پاکستان کا فرمودہ ہی ہمارا عنوان ہے، انہوں نے ڈی پی او پاک پتن کے رات ایک بجے تبادلے پر حیرت کا اظہار کیا اور استفسار کیا کس کے کہنے پر تبادلہ کیا گیا، کڑیاں مل رہی ہیں وزیر اعلیٰ پر آرٹیکل 62ون ایف بھی لگ سکتا ہے، تبادلوں میں سیاسی مداخلت روکیں گے، بعض اوقات دن رات ایک بجے بھی چڑھ آتا ہے، اس لئے باقاعدہ صبح کا انتظار نہیں کیا گیا، آرٹیکل 62ون ایف تو کوئی آسمانی آرٹیکل لگتا ہے اس نے کیا کیا رنگ دکھائے، کہیں یہ وزیر اعلیٰ بزدار پر ہی نہ گر پڑے،بہرحال عدالت عظمیٰ قانون کی بالادستی کی جنگ لڑ رہی ہے زد میں کوئی بھی لاقانونیت کرنے والا آ سکتا ہے۔ وہ دن گئے جب غریب کے آشیانے پر بجلی گرتی تھی اب تو بجلی نے محلات کا رخ کر لیا ہے۔ قانون ویسے بھی اندھا ہوتا ہے، وہ یہ دیکھ ہی نہیں سکتا کہ سامنے کون ہے۔ اس کا کتنا بڑا نام ہے، بس وہ تو اتنا ہی دیکھ سکتا ہے کہ کتنا بڑا غلط کام ہے، لاقانونیت کے نصیب میں بھی دن کا چین ہے نہ رات کا آرام، یہ بھی قانون کے ساتھ رات دن جاگتی رہتی ہے، کیونکہ غلط کام کا کوئی حتمی وقت نہیں ہوتا بس موقع محل دیکھنا پڑتا ہے چاہے وہ رات ایک بجے ہی کیوں نہ میسر آئے، ویسے فرانسیسی صدر کو لگ پتہ گیا ہو گا جب یہ سنا ہو گا کہ ’’مصروف ہوں بعد میں بات کروں گا‘‘ یہ جملہ معترضہ تھا صرف اس لئے لکھ دیا کہ کہیں کوئی کسی بھول میں نہ رہے، ہم تو ایک فون پر حاضر جناب کہنے والے تھے۔ مگر دو دفعہ نام پکارنے پر بھی حاضری نہیں لگوائی اس کے اثرات پورے مغرب پر مرتب ہوں گے۔ ہاں تو بات ہو رہی تھی ڈی پی او پاک پتن کے ’’تبادلۂ نیم شبی‘‘ کی جس کی صبح ہونے کا شاید تبادلہ کرنے والوں کو یقین نہیں تھا، بات چل نکلی ہے دیکھیئے کہاں تک پہنچے؟ وقت نے کیا حسین منظر دکھایا ہے کہ ہماری پولیس پیدائشی خراب نہیں تھی اسے سیاسی مداخلت نے خراب کیا، اب یقیناً پولیس اپنی اچھی فطرت کی طرف لوٹے گی، ہمیں تو اگر سچ پوچھیں یقین ہونے لگا ہے کہ تبدیلی واقعی آ چکی ہے۔

٭٭٭٭

پنج رنگ

....Oچینی سفیر بھی شیخ رشید کے گرویدہ نکلے۔ ملاقات میں خوشگوار گفتگو

شیخ صاحب انجن دیکھ بھال کے خریدنا۔

....Oسدھو:پاکستان میں جس امن کا پیغام لے کر گیا اس کا اثر نظر آنے لگا ہے۔

سدھو بھائی! بہت شکریہ، ہم تو من حیث القوم بھی امن کا پیغام لے کر بھارت جانے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔

....O لیڈی ڈیانا کو دنیا سے رخصت ہوئے 21برس بیت گئے۔

مگر اس کے حسن و جمال کی خوشبو آج بھی بکنگھم پیلس میں محسوس کی جا سکتی ہے۔

....Oامریکی وزیر دفاع:تمام ملکوں کے ساتھ ملاقاتوں میں ہمارا ہدف دہشت گرد ہوتے ہیں۔

کبھی اپنے ملک سے بھی ملاقات کریں۔

....Oمعروف بھارتی ادارکارہ جوہی چاولہ پاکستان پہنچ گئیں۔

حسینوں کا آنا جانا شروع ہو گیا تو عشاق کے قافلے بھی چل نکلیں گے۔

تازہ ترین