• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

25جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں عمران حکومت کے تشکیل پاتے ہی ہماری وزارت خا رجہ میں یکدم گرمجوشی آئی ہے اور پاکستانی سفارتی محاذ کئی سالوں کے بعد سرگرم ہو رہا ہے۔ ہمارے سب ہمسائے ، مخلص دوست اور عالمی و علاقائی سیاست کے اہم کھلاڑی بدلتی صورتحال کے مطابق پاکستان سے اپنے تعلقات استوار کرنے کے لئے اسلام آباد سے رجوع کر رہے ہیں۔ یوں لگا کہ وہ منتظر تھے کہ پاکستان میں کوئی مستعد حکومت آئے تو وہ اس سے اپنے مطلوب دو طرفہ تعلقات کے لئے اپنے سفارتی قدم بڑھائیں۔ سو جناب عمران خان کے وزار ت کا حلف اٹھاتے ہی ، یہ سلسلہ شروع ہو گیا۔ ایرانی وزیر خارجہ جناب محمد جواد ظریف نے تو اپنے دو روزہ قیام اسلام آباد میں مسئلہ کشمیر پر ایران کا تاریخی موقف دہراتے ہوئے کشمیریوں اور اس کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی کی حمایت کا اعادہ بھی کیا۔ یہ تو ایران سے از سر نو دو طرفہ تعلقات کی ابتداء ہے آئندہ چند ماہ میں اس جانب اہم اقدامات کی توقع ہے کہ ایران اور افغانستان نے بالآخر ’’سی پیک‘‘ کا بینی فشری بننا ہے۔ انشا اللہ ۔جاپانی وزیر مملکت برائے خارجی امور کا دورہ اسلام آباد بھی اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ عالمی و علاقائی سیاست میں اہم ممالک کا جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن کی ضرورت کا احساس بڑھ رہا ہے اس کے لئے وہ پاکستان سے اپنے تعلقات کو بڑھانے پر یقین رکھتے ہیں کہ خطے میں اپنے قومی مفادات کے حوالے سے وہ اسے ضروری سمجھتے ہیں نئی حکومت کے آغاز پر ہی جاپان کا یہ سفارتی جیسچر پاکستان کی جانب آسئین ریجن اور آسٹریلیا میں بھی پاکستان کی جانب نئی مطلوب سوچ کے لئے اہم ہے ۔ جاپان اور آ سئین کی اہمیت کے پیش نظر مودی حکومت بنتے ہی نئی دہلی نے بھی اس جانب خصوصی توجہ دینے کا آغاز کیا تھا، جبکہ پاکستان میں تبدیلی کے فوری بعد سفارتی اقدام جاپان کی طرف سے اٹھایا گیا، اب اسے بڑھانے کی ذمہ داری پاکستان کی ہے ۔ایرانی وزیر خارجہ نے اپنے حالیہ دورے میں وزیر اعظم عمران کو دورہ ایران کی جو دعوت دی ہے اس کے لئے دونوں ملکوں کے گہرے باہمی مفادات پر مبنی ایجنڈا بنانے میں اب اسلام آباد کی طرف سے تاخیر نہیں ہونی چاہئے اور تہران کو مثبت اور جلد جواب دینا اب ہماری وزارت خارجہ کا ترجیحی کام ہے۔

امر واقع یہ ہے، جسے اسلام آباد نے بڑے سلیقے سے اپنے سفارتی ابلاغ میں بھی نمایاں کرنا ہے کہ ، ہمارے نو منتخب وزیر اعظم کی زندگی چیلنجز اور ان سے نپٹنے کی جدوجہد سے عبارت ہے۔ پہلے کرکٹ کا اچھا کھلاڑی بننے کا جنون پھر قومی ٹیم میں جگہ بنانے کا کام پھر کپتان بننے کا، عالمی کپ جیتنے اور اس کے فالو اپ میں مرحومہ ماں کی یاد میں کینسراسپتال قائم کرنے کا، پھر سیاست میںآکر اسٹیٹس کو کو چیلنج کرنے کا۔پہلی اور مکمل انتخابی شکست کے بعد 22سال تک میدان میں رہ کر وزیر اعظم بن کر نظام بد کو ختم کر کے ، احتسابی عمل شروع کرنے اور نیا پاکستان قائم کرنے کا چیلنج ، وہ آخرالذکر’’نئے پاکستان ‘‘ کے قیام سے پہلے کے تمام اہداف بخوبی حاصل کر چکے، جس کا زمانہ اعتراف کر رہا ہے اور معترف بھی ہے۔ اب یہ جو نئے پاکستان کا چیلنج ہے، یہ ان سب پر بھاری ہے۔

دو روایتی سیاسی جماعتوں کی بدترین جمہوریت کی ایک ایک باری پر مشتمل دس سال میں پاکستان کی اقتصادیات کی جو تباہی ہوئی اور انتظامیہ کا جو حلیہ بگڑا ہے، اس نے قومی خدمات کے ادارے برباد کر دئیے۔ اب ایک طرف لٹے پٹے پاکستان کو معمول پر لانا اور بے پناہ عوامی توقعات کے ساتھ عوام کو مزید مایوسی سے بچا کر گرداب سے نکالنے کا چیلنج ، جس میں عالمی مالیاتی اداروں کے تعاون سے آپشن حاصل کرنے ہیں صرف امریکی رکاوٹ نہیں بلکہ ’’ڈومور‘‘ کے غیر حقیقت پسندانہ مطالبے کا برقرار رہنا اور اسے شدید سفارتی دبائو سے منوانے کا امریکی رویہ یقیناً تشویشناک ہے ، جبکہ وزیر اعظم عمران خان، قومی خودی کے حوالے سے بہت کچھ کہہ چکے، اور وہ بار بار امریکی مطالبے کو غیر حقیقت پسندانہ بھی قرار دے چکے ہیں۔ پاکستان میں انسانی ترقی کے تمام اشاریے، برباد قومی اقتصادیات کے اشاریوں کی طرح ہی مایوس کن ہیں۔ امریکی رویہ، امن کی اپنی تشریح کر کے ایک بار پھر پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ ’’کا اتحادی بناتا‘‘ جارح ہوتا معلوم دے رہا ہے ، لیکن دوسری جانب وزیر اعظم نے اپنی لی گئی پوزیشن کو قائم رکھتے ہوئے اپنا بیانیہ حکومت میں آنے سے پہلے ہی DEVELOPکیا ہوا ہے ۔ جو باکمال، مکمل سفارتی اور دنیا کے لئے قابل قبول اورقابل عمل درآمد ہے۔

آج کل سوشل میڈیا پر وزیر اعظم صاحب کی ایک ویڈیو کلپ وائریل ہوئی ہے، جس میں وہ (شاید) انتخابی فتح کے بعد بنی گالا میں (شاید) ایک ایشئین امریکی صحافی کے اس سوال کہ ’’آپ دس سال تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے بڑے اتحادی رہے ہیں، کیاآپ کہتے ہیں کہ اب پاکستان امریکہ کا مزید اتحادی نہیں ہے؟

وزیر اعظم عمران خان نے جتنی برجستگی سے اور جتنا ہماگیر جواب دیا، معلوم ہوا کہ یہ ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کے وزیر اعظم کا ہی جواب ہے، اس اسلامی جمہوریہ کا جو قوم کو شدت سے مطلوب ہے، اور جس کے لئے پاکستان بنا تھا۔ کیا کمال سفارتی انداز ہے کہ صحافی کے سوال کی تائید بھی نہیں کی، یعنی یہ نہیں کہا کہ ’’اب ہم اتحادی نہیں ہیں‘‘ بلکہ جواب تھا۔

’’اب ہم امن میں امن کے لئے اتحادی ہوں گے جنگ کے لئے نہیں۔وہ امن نہیں جس کی جو تشریح امریکہ کرتا ہے، یہ بات امریکی عوام کے بھی سمجھنے کی ہے، ہم نے تو سمجھ لی ، جس جنگ میں ہم اتحادی رہے اس میں 50ہزار پاکستانی جان سے گئے ، ہماری 80بلین ڈالر کی اکانومی برباد ہوئی جبکہ امریکی معاونت 20بلین ڈالر کی تھی۔ ہمارے ہاں انتہا پسندی بڑھی، عدم تحفظ اور غیر یقینی پیدا ہوئی غربت میں اضافہ ہوا۔ ’’امن میں اتحادی‘‘ کا مطلب امریکہ دشمنی نہیں اس پر پوری قوم متفق ہے ، وہ وقت گیا، پاکستان اس سے گزر گیا جب ہم نے امریکہ کی تشریح کے مطابق ہی ، اس کا اتحادی بننا تھا ۔ اس پر اب امریکیوں کو بھی سوچنا ہے‘‘

اس پس منظر میں آنے والے ہفتے میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور چیئر مین جوائنٹس چیف آف اسٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ پاکستان کا دورہ کرنے والے ہیں۔ خبروں اور تجزیوں کے مطابق وہ کوئی سخت پیغام لے کر آ رہے ہیں، جو یقیناً ’’ڈومور ‘‘ کا مطالبہ ہی ہے جو پاکستان بطور قوم کے مسترد کر چکا ہے اور ہمارے وزیر اعظم کی اس پر واضح پوزیشن وزیر اعظم بننے سے کافی پہلے کی ہے۔آئی این پی کے مطابق امریکی سیکرٹری (وزیر) دفاع جیمس میٹس نے کہا ہے کہ امریکی وفد پاکستانی رہنمائوں کے ساتھ مذاکرات میں’’دہشت گردوں سے لڑنے کی ضرورت‘‘ بنیادی حصہ ہو گا۔ گویا ملک کے گھمبیر اقتصادی مسائل کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم کو امریکہ کے غیر حقیقت پسندانہ دبائو ، جو پوری پاکستانی قوم کے مطابق ناجائز ہے، سے نپٹنا یقیناً بڑا سخت سفارتی چیلنج ہے ، جبکہ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے پاکستان مخالف رویہ بہت واضح ہے ۔

مذاکرات میں پاکستان کا یہ سوال اٹھانا بھی بنتا ہے کہ پاکستان نے اپنے ملک میں دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرنے میں کامیابی تو حاصل کر لی ہے، لیکن اس کے خلاف افغانستانبیسڈ دہشت گرد جس طرح دہشت گردی کر رہے ہیں ، اسے روکنے میں افغانستان میں امریکی عسکری موجودگی اور دوسرے اتحادی کس حد تک ہمارے معاون ہیں؟ہماری تو انتخابی مہم پر حملے ہوئے ، سیاسی رہنمائوں ، امیدواروں اور سیاسی کارکنوں پر انتخابی ، سیاسی سرگرمیوں کے دوران جس طرح اور جتنی شدت کے حملےبلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ہوئے ، وہ پاکستانیوں کے یقین کے مطابق افغان سرزمین کو استعمال کر کے ہوئے۔ اور اب جبکہ پاکستان حقیقی جمہوری عمل میں ہے، ہم کیونکر جنگ کا دائرہ بڑھا سکتے ہیں؟ لہٰذا ہمارا اور خود امریکی قیادت میں نیٹو کا افغانستان میں تجربہ یہ نہیں کہ ، اب امن کو موقع دیا جائے؟ اور اس کے لئے مشترکہ کوششوں کا اہتمام کیا جائے۔ مزید جنگی حل، پر انحصار، مسلسل جنگ زدہ افغانستان کو امن کا راستہ دے رہا ہے نہ امریکہ اور اتحادیوں اور پاکستان کو ۔ سو، دس گیارہ سال کے تجربے کی روشنی میں نئی حقیقتوں کا ادراک کیا جائے۔بلاشبہ، اس پر امریکہ کو قائل کرنا اور دوبارہ جنگ کی دلدل سے بچنا عمران حکومت کے لئے بہت سخت سفارتی چیلنج ہے۔ لیکن جناب عمران خان کی تمام عمر ہی چیلنجز سے عبارت ہے اور کامیابی حاصل۔

تازہ ترین