• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دوستو ! قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک ملک کا بادشاہ مر گیا۔ بادشا ہ کی کوئی اولاد اس قابل نہیں تھی ۔ چنانچہ فیصلہ ہوا کہ صبح شہر میں جو شخص سب سے پہلے داخل ہو گا۔ اس کو بادشاہ بنا دیا جائے۔ صبح سویرے شہر کے مرکزی دروازے سے ایک فقیر داخل ہوا۔ اس ملک کی بیوروکریسی کے فیصلے کے مطابق اس فقیر کو بادشاہ بنا دیا گیا۔

وہ فقیر بادشاہ بن گیا اور بادشاہ بنتے ہی پہلا حکم دیا کہ حلوہ پکائو، خیر شاہی باورچیوں نے حلوہ پکانا شروع کر دیا۔ سارے شہر کے لوگوں کو حلوہ کھلوایا گیا۔ دن گزر گیا۔ دوسرے دن بادشاہ نے پھر حلوہ پکانے کا حکم دیا۔ کوئی ہفتہ بھر ملک میں حلوہ پکتا رہا اور تقسیم ہوتا رہا۔ اس دوران ہمسایہ ملک کو پتہ چلا کہ ایک ایسا بادشاہ یہاں پر حکمران ہے۔ جو صرف حلوہ پکواتا اور تقسیم کراتا رہتا ہے۔ اس ملک کے حکمرانوں نے حلوہ والے حکمران کے ملک پر حملے کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔ وزیروں نے بادشاہ کو خبر کی کہ ہمسایہ ملک کے ارادے کچھ صحیح نہیں لگ رہے۔ کچھ ہم بھی تیاری کر لیں۔ بادشاہ نے پھر حکم دیا کہ حلوہ پکائو۔ حتیٰ کہ دشمن نے حملہ کر دیا اور فوجیں اس ملک میں داخل ہو گئیں۔ بادشاہ نے پھر حکم دیا کہ حلوہ پکائو۔ حتیٰ کہ دشمن کی فوجوں نے قبضہ کر لیا۔ اس فقیر بادشاہ نے اپنا پرانا لباس اٹھایا اور چلا گیا اور جاتے جاتے کہا کہ میں نے زندگی بھر حلوہ نہیں کھایا تھا۔ سو میں نے اپنی خواہش پوری کر لی۔ مجھے کیا پتہ کہ امور سلطنت کیا ہوتے ہیں۔

گاندھی ٹرین کے تھرڈ کلاس کے ڈبے میں سفر کرتا تھا۔ البتہ اس ڈبے کے آگے اور پیچھے دونوں ڈبوں میں سکیورٹی کے پیش نظر سرکاری یا کانگریس گارڈ سفر کرتے تھے تو ایک مرتبہ سروجنی نائیڈو نے اس پر یہ کہا کہ ’’باپو آپ کو اندازہ نہیں کہ آپ کو غریب رکھنے کیلئے ہمیں کتنا خرچ کرنا پڑتا ہے‘‘۔

جنرل ضیاء الحق کو ایک دفعہ شوق چڑھا کہ دفتر سائیکل پر جائیں گے۔ چنانچہ انہوں نے اعلان کر دیا اور سائیکل پر دفتر روانہ ہو گئے۔ تب الیکٹرانک میڈیا نہیں تھا۔ اخبارات نے بڑی بڑی تصاویر شائع کیں۔ ضیاء الحق کے ایک دن کی سائیکل کے اس سفر پر غالباً سیکورٹی کے دس لاکھ روپے کےقریب خرچ ہوئے۔ دوبارہ ضیاء الحق پھر سائیکل پر نہ چڑھے۔ یہ کیسی سادگی تھی کہ سڑکیں سنسان اور پھر ہر دس قدم پر سفید کپڑوں میں سیکورٹی والے موجود تھے۔ قربان جائیے اس سادگی پہ۔یہ چند باتیں میں نے ویسے ہی سرراہ بیان کر دیں۔ ورنہ ہماری کیا مجال جو کسی کو کچھ کہہ سکیں۔

پی ٹی آئی کا ہر لیڈر اور خصوصاً پنجاب کی فی الحال اکلوتی خاتون وزیر صحت پروفیسر ڈاکٹر یاسمین راشد بار بار یہ کہہ رہی ہیں کہ سودن میں سب کچھ تبدیل ہو جائے گا۔ ہم تو یہ جانتے ہیں سو دن کیا کئی سو دن بھی آ جائیں۔ کچھ نہیں ہوگا۔

ہر وزیر میٹنگوں میں، ہر بیوروکریٹ میٹنگوں میں اور عوام پھر سیکرٹریٹ ، وزراء اور بیوروکریٹس کے دفاتر کے باہر ذلیل و خوار پچھلے ایک ہفتے سے صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد میٹنگوں میں ہیں۔ جب بھی فون کریں پتہ چلتا ہے کہ میٹنگ چل رہی ہے۔ یہی حال ن لیگ کے زمانے میں تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ ن لیگ کے دونوں سابق وزراء صحت خواجہ سلیمان رفیق اور خواجہ عمران نذیر میٹنگوں سے فارغ ہو کر یا میٹنگوں کے دوران فون سن لیا کرتے تھے۔ مگر کیا مجال پی ٹی آئی والے فون سن لیں۔ آج کل ہر میڈیکل کالج ، یونیورسٹی کا پرنسپل، وائس چانسلر پنجاب کی واحد خاتون وزیر صحت سے اپنے دیرینہ تعلقات بنانے کیلئے اپنے اپنے میڈیکل کالجوں، یونیورسٹیوں میں بلانے کے چکر میں پڑا ہوا ہے۔ کوئی شجر کاری کی مہم میں بلا رہا ہے۔ کوئی ویسے بلا رہا ہے۔ اگر پی ٹی آئی نے واقعی کام کرنا ہے۔ تو (ن) لیگ والی روش چھوڑ دے۔ میٹنگیں غیر ضروری تقریبات میں جا کر گھنٹوں وقت ضائع کرنا۔ ڈاکٹر یاسمین راشد آپ خود گائنی کی پروفیسر ہیں۔ آپ کو علم ہے کہ ہماری خواتین کو کن مسائل کا سامنا ہے۔ پنجاب میں صحت کے کتنے بڑے بڑے مسائل ہیں اور آپ نے بھی بیوروکریسی کے کہنے پر میٹنگ میٹنگ کھیلنا شروع کر دیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس ملک کے غریب مریضوں اور شہریوں کو آپ کیا دے رہے ہیں؟ ان کے چھوٹے چھوٹے کام نہیں ہو رہے۔ تھانوں میں کل بھی شہری ذلیل ہو رہے تھے اور آج بھی ہو رہے ہیں۔ ایک ایک دن میں پندرہ سے بیس بیس وارداتیں ہو رہی ہیں۔ آئی جی اور ڈی آئی جی سے ملنا مشکل ہے۔ لوگ اذیت میں ہیں ۔ یہ وہ وارداتیں ہیں جو رپورٹ ہو رہی ہیں اور جو وارداتیں رپورٹ نہیں ہو رہی ہیں۔ وہ اس سے علیحدہ ہیں۔دوسری جانب ڈولفن فورس بنا رکھی ہے۔ 700 ہیوی بائیک سوار 2500 نوجوانوں اور افسروں پر مشتمل ڈولفن فورس ماہانہ کروڑوں روپے کے اخراجات اور شہر بھر میں روزانہ بیسیوں وارداتیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ جعلی پولیس مقابلوں کی بھرمار۔ جعلی ناکے جن کا کوئی حساب کتاب نہیں۔ ایک معروف تجزیہ نگار نے بالکل درست کہا بغیر ہوم ڈیپارٹمنٹ کی اجازت کے ناکے نہیں لگائے جاسکتے۔ جب ان ناکوں کے بارے میں پوچھا جاتا ہے کوئی کچھ نہیں بتاسکتا۔ ہوم ڈیپارٹمنٹ کی اجازت سے ناکے لگائے جاتے ہیں مگر یہاں تو کچھ پتہ نہیں۔

پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزادر بھی شہباز شریف کی راہ پر چل پڑے ہیں۔ وہی پروٹوکول وہی طمطراق وہی آگے پچھے لال اور نیلی بتیوں والی گاڑیوں کی لائنیں پھر چونیاں کے اسپتال کا دورہ اور ایک بچی کی جان کا چلے جانا یہی کچھ تو میاں شہباز شریف کرتے تھے ۔ وہ بھی اپنے دور میں دو اسپتالوں میں گئے تو وہاں بھی مریض ایمرجنسی بند کرنے پر مر گئے تھے۔ ایک واقعہ میو اسپتال میں ہوا تھا۔ دوسرا واقعہ لاہور سے باہر کا تھا۔ بات پھر وہی ہے کہ یہاں پر چہرے بدلتے ہیں۔ نظام نہیں اور پی ٹی آئی والے بھی وہی سب کچھ کر رہے ہیں۔ جو ن لیگ والے کرتے تھے۔

ایسے وزراء صوبوں اور وفاق میں لگا دیئے ہیں۔ جنہیں اپنے محکمے کیا بلکہ اس سبجیکٹ کے بارے میں کچھ پتہ نہیں۔ وزیروں کے وہی پرانے پی اے اور پی ایس او، انہی لوگوں نے اب وزیروں کو چلانا ہے، تبدیلی کیا آئی صرف مذاق ہے۔ سندھ کا ایف اے پاس گورنر جو کہ تمام سرکاری یونیورسٹیوں کا چانسلر بھی ہے۔ اب اس کو کیا علم کہ یونیورسٹیوں میں کیا پڑھایا جاتا ہے ۔ کن کورسز کی ضرورت ہے۔ ملکی ضروریات کے مطابق نصاب کیا ہونا چاہئے۔ اس نے خود تو یونیورسٹی کی شکل نہیں دیکھی اور وہ پی ایچ ڈی/ایم فل اساتذہ کی میٹنگوں کو چیئر کرے گا ۔ یہ بھی اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ اہل علم کے اوپر ایسے لوگ حاکم ہوں گے۔ جن کی اپنی تعلیمی قابلیت پر ہمیشہ انگلی اٹھائی جائے گی۔ کئی وزراء بھی ایسے ہیں۔ جن کی تعلیمی قابلیت سوالیہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کالا دیسی صاحب ان وزراء کو آگے لگا لیتا ہے ۔ اصل حکومت تو کالا دیسی صاحب کرتا ہے۔ اس ملک کی اصل حاکم تو بیوروکریسی ہے۔ جو کل بھی تھی آج بھی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں اگر تم بیوروکریسی اور پولیس کو نکیل ڈال سکے۔ تب تو بات ہے۔ خالی نعروں سے تبدیلی نہیں آیا کرتی۔ وزیراعلیٰ صاحب جس بچی کی جان آپ کے پروٹوکول سے گئی کیا آپ اس کے گھر جا کر معذرت کریں گے۔ کیا آپ پروٹوکول کو ختم کریں گے ؟ آپ سیکرٹریٹ میں بیٹھ کر لوگوں کے مسائل سنیں گے ؟ کیا واقعی عام لوگوں کی رسائی آپ تک ہو جائے گی؟ کیا آپ چھوٹی گاڑی میں سفر کرنا پسند کریں گے؟ کیا آپ اپنے سٹاف کی تعداد کم کریں گے؟ اس ملک میں مسائل کی ایک بڑی وجہ دیسی کالا صاحب ہے۔ جو کچھ پاکپتن کے واقعہ میں ہو رہا ہے وہ پولیس کے لئےباعث شرم ہے۔ وہی حکومت کے انداز جو پہلے تھے اب بھی وہی ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین