• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب کے تمام بلدیاتی اداروں کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا جاچکا ہے۔پنجاب کی کابینہ کے اجلاس میںاس کا باقاعدہ اشارہ بھی دیا گیا ہے۔تحریک انصاف کی نومنتخب حکومت نیا بلدیاتی نظام لے کر آرہی ہے۔جس میں پہلے مرحلے میں تمام بلدیاتی اداروں کو ختم کرنے کے بعد ایڈمنسٹریٹر مقرر کئے جائیں گے۔جس کے بعد نیا بلدیاتی آرڈیننس اسمبلی سے منظور کرایا جائے گا۔جس میں بلدیاتی اداروں کو خودمختار کرکے وسیع اختیارات دئیے جائیں گے۔ضلع ناظم اور تحصیل ناظم براہ راست عوام سے ووٹ لیں گے۔قانونی ماہرین کی رائے ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کو بلدیاتی ادارے ختم کرنے میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آئے گی۔کیونکہ سابق پنجاب حکومت نے ایک آرڈیننس کے ذریعے صوبے بھر میں بلدیاتی انتخابات کرائے تھے۔موجودہ حکومت جب وہ آرڈیننس ہی واپس لے لے گی تو بلدیاتی ادارے خود بخود ختم ہوجائیں گے۔اس لئے تحریک انصاف کی پنجاب حکومت اور سینئر وزیر بلدیات پنجاب علیم خان بہت تیزی سے اس پر کام کررہے ہیں۔ویسے اگر بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنا کر شفاف انتخابات کرائے جاتے ہیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہئے۔بااختیار بلدیاتی اداروں سے جمہوریت مزید مضبوط ہوگی اور عوام کا سسٹم پر اعتماد بڑھے گا۔کیونکہ اگر آئین پاکستان کا مطالعہ کیا جائے تو آئین واضح طور پر بلدیاتی انتخابات ریاست کے لئے ضروری قرا ر دیتا ہے۔آئین کے آرٹیکل7 میں ریاست کی تعریف کرتے ہوئے وفاقی حکومت،صوبائی حکومت اور لوکل باڈیز سمیت ہر وہ اتھارٹی جو قانون کے تحت ٹیکس لاگو کرسکتی ہے کو ریاست قرار دیا گیا ہے یعنی بلدیاتی حکومت کے بغیر ریاست پاکستان مکمل ہی نہیں ہوتی ہے۔جبکہ اسی آئین کا آرٹیکل32کہتا ہے کہ ملک میں بلدیاتی حکومتیں قائم کی جائیں گی۔ جبکہ آرٹیکل 219الیکشن کمیشن کو ذمہ داری تفویض کرتا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کرانا ان کی ذمہ داری ہے۔جبکہ ایک اور آرٹیکل واضح کہتا ہے کہ ہر صوبہ قانون کے ذریعے مقامی حکومتوں کا نظام قائم کرے گااور سیاسی،انتظامی ، مالیاتی ذمہ داری اور اختیارات مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کو منتقل کردے گا۔یہ آئین کی وہ شقیں ہیں جو بالواسطہ اور بلاواسطہ بلدیاتی انتخابات کرانے پر زور دیتی ہیں۔اس لئے اگر موجودہ بلدیاتی اداروں کو مزید بااختیار بنانے کی وجہ سے تحلیل کیا جارہا ہے اور نیا لوکل باڈیز آرڈیننس متعارف کروا کر بروقت انتخابات کروانے کا منصوبہ ہے تو اسے سراہنا چاہئے۔مگر ماضی کی طرح بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کسی صورت برداشت نہیں۔کیونکہ سابق حکومتیں بھی بلدیاتی انتخابات نہیں کراتی تھیںاور اس حوالے سے آئین میں کوئی موثر پکڑ بھی نہیں تھی کیونکہ آئین پاکستان بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے مشورے ضرور دیتا ہے مگر عام انتخابات کی طرح اسے لازمی قرار نہیں دیتا اور نہ ہی ایک مخصوص مقررہ مدت میں بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے کوئی نشاندہی کرتا ہے۔مجھے یاد ہے کہ پنجاب کے موجودہ وزیر آبپاشی محسن لغاری نے پارلیمنٹ کی لااینڈ جسٹس کمیٹی سے ایک آئینی ترمیم منظور کرائی تھی کہ آئین میں ڈالا جائے کہ بلدیاتی حکومتوں کی مدت ختم ہونے کے بعد 45روزکے اندر اندر بلدیاتی انتخابات منعقد کرائے جائیں تاکہ صوبائی حکومتیں اس میں تاخیری حربوں سے کام نہ لے سکیں ۔مگر اس وقت چونکہ محسن لغاری ایک آزاد سینیٹر تھے تو ان کی تجویز کو کسی نے اہمیت نہیں دی اور آئینی ترمیم کی منظوری یونہی ادھوری رہ گئی۔ اسی طرح محسن لغاری نے سابق چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم کو بھی ایک خط کے ذریعے تجویز دی تھی کہ بلدیاتی انتخابات کو عام انتخابات کے ساتھ ہی کرادیں ۔اس سے الیکشن کمیشن کا اور انتخابات میں حصہ لینے والےا میدواروں دونوں کا خرچہ کم ہوگا ۔کیونکہ بلدیاتی انتخابات میں اکثریت ارکان اسمبلی کے حمایت یافتہ امیدواروں کی ہوتی ہے ۔اس لئے اگر عام انتخابات کے ساتھ ہی بلدیاتی انتخابات کرادئیے جائیں تو ووٹر وں کو پولنگ اسٹیشن تک لانے کے لئے جو اخراجات کئے جاتے ہیں وہ بار بار نہیں کرنا پڑیں گے اور الیکشن کمیشن کو انتظامی سطح پر بار بار اخراجات نہیں اٹھانا پڑیں گے۔مگر اس حوالے سے بھی کوئی توجہ نہیں دی گئی۔پاکستان میں بلدیاتی اداروں کے حوالے سے جتنا کام صوبائی وزیر پنجاب محسن لغاری نے کیا ہے،شاید کسی بھی سیاستدان نے نہ کیا ہو۔پنجاب اسمبلی ہو یا پھر سینیٹ،یہ محسن لغاری ہمیشہ لائبریری میں ہی پائے جاتے تھے۔اگر تحریک انصاف کی حکومت موثر اور جامع اختیارات پر مبنی بلدیاتی نظام لانا چاہتی ہے تو محسن لغاری سے مشاورت ضرور کرے۔مجھے قوی امید ہے کہ محسن لغاری نئے لوکل باڈیز آرڈیننس کی تیاری میں اپنی حکومت کو بہترین مشورے دے سکتے ہیں۔پنجاب کے وزیراعلیٰ اور وزیر بلدیات کو محسن لغاری جیسے قابل آدمی کی خدمات سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔تاکہ پنجاب کےعوام کو ایک ٹھوس بلدیاتی نظام میسر آسکے۔ ملک میں مضبوط بلدیاتی نظام ہوگا تو جمہوریت سے وابستہ اسٹیک ہولڈرزکی تعداد 1200نہیں بلکہ ہزاروں میں ہوگی ۔ہمسایہ ملک بھارت میں ایک مضبوط لوکل باڈیز کا نظام موجود ہے۔بلدیاتی حکومتوں میں فیصلے مقامی سطح پر ہوتے ہیں ۔فیصلے اچھے ہوں یا برے نمائندے لوگوں کو براہ راست جوابدہ ہوتے ہیں ۔صوبے میں اگر موثر بلدیاتی نظام موجود ہو بلدیاتی حکومتیں قائم ہوں تو ہر معاملے میں وزیراعلیٰ کی دوڑ کیوں لگے۔بلدیاتی نظام میں ہر ضلع میں مقامی نمائندے اپنا فرض نبھاتے ہیں۔ ایک اچھا ایڈمنسٹریٹر وہ ہوتا ہے جو اختیارات تقسیم کرتا ہے اور پھر لوگوں سے کام لیتا ہے۔جمہوریت اختیارات کو تقسیم کرنے کا نام ہے نہ کہ تمام اختیارات چند افراد کو دے دئیے جائیں۔ایک شخص میں کام کرنے کی جتنی بھی انرجی آجائے وہ کبھی بھی دس افرادکی ذمہ داری ادا نہیں کرسکتا۔اس لئے نئے بلدیاتی اداروں کا قیام اچھا فیصلہ ہوگا۔ تیزی سے عوامی مخالفت ہمیشہ تب پیداہوتی ہے،جب ایک عام آدمی کو آپ اختیار نہیں دیتے۔اگر تحریک انصاف نے بلدیاتی نمائندوں کو مالی و انتظامی اختیارات دینے کا وعدہ پورا کیااور نئے لوکل باڈیز آرڈیننس متعارف کرواکر بروقت شفاف انتخابات کروانے میں کامیاب ہوگئی تو اس سے حکومت کو بہت فائدہ ہوگا۔بہرحال یہ تو طے ہوچکا ہے کہ موجودہ بلدیاتی ادارے آئندہ چند دنو ں کے مہمان ہیں اور ان کی جگہ ایڈمنسٹریٹر مقرر کرکے نئے آرڈیننس کی تیاری کی جائے گی اور پھر نومبر میں نئے بلدیاتی انتخابات کرانے کا منصوبہ تیار کیا جارہا ہے۔

تازہ ترین