• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کہتے ہیں: بم دھماکے حکومت اور ایجنسیوں کی ناکامی ہے۔
خدا جانے رحمن ملک کے بیان کو پڑھ کر پروین شاکر کیوں یاد آئی؟
وہ جہاں بھی گیا لوٹ کے آیا تو میرے پاس آیا
بس یہی ایک بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی
یہ فضیلت صرف ایک وزیر داخلہ ہی کو حاصل ہے کہ وہ اپنے گناہوں کا اقرار کرنے میں بخل سے کام نہیں لیتے، اور ہر پھر کر ملک میں ہونے والی ہر داخلی برائی کو اپنا ہی قصور گردانتے ہیں، بلکہ ان کی حالت تو اب یہ ہو چکی ہے کہ
می آرم اعتراف گناہِ نبودہ را
(مجھے ان گناہوں کا بھی اعتراف ہے جو میں نے نہیں کئے)
کہیئے ایسا وزیر دنیا کی کسی کابینہ میں ہے، اس لئے ہم ان کی من موہن صورتیا کو دیکھ کہتے ہیں
ڈھونڈ لاؤ کوئی دلیر میرے دلبر کے برابر
حکومت کی ناکامی کا یہ اقرار اور پھر بھی کابینہ میں بیٹھنے پر اصرار، کیا ان کے دل پر نہیں پڑتا کوئی بار، بس کر نہ کر تنگ پپو یار! بم دھماکوں کے علاوہ اپنی حکومت کی اور اپنی کئی نااہلیوں کا وہ تکرار اقرار پہلے بھی کر چکے ہیں، اگر حکومت چلائے نہیں چلتی وزارت داخلہ ہانکے نہیں ہانکی جا رہی، حکومت چاروں شانے چت ہے تو پھر
تیرے دل میں گر نہ تھا آشوبِ غم کا حوصلہ
تو نے پھر کیوں کی تھی غمگساری ہائے ہائے
کراچی کو اسلحے سے پاک اور وطن عزیز کی جملہ سرحدوں کو سیل کر دیں، حکومت کامیاب ہو جائے گی، اور یہ نہ ہو گا
لٹے ہیں گھر تو کہیں بم بھی پھٹ گیا ہو گا

میاں نواز شریف کا کہنا ہے: ترکی کی اقتصادی ترقی قابل تقلید ہے،
جبکہ چوہدری پرویز الٰہی کہتے ہیں: چین کی 30 برس میں ترقی مشعل راہ ہے،
اگر چوہدری صاحب ترکی اور میاں صاحب چین جاتے تو بھی یہی بیان دیتے، مسلم لیگ نون ایک زور دار طرحدار اپوزیشن کا روپ دھار کر حکومت سے ترکی کی اقتصادی ترقی کی تقلید نہ کرا سکے اور مسلم لیگ (ق) اصحاب قاف ہوتے ہواقتدار میں بھائیوال ہوتے ہوئے بھی چین کی مثالی رقی کو نشان منزل ٹھہرا کر ایک قدم سوئے منزل نہ چل سکی، قاف لیگ اورپی پی پی کی سنگت سے یاد آیا کہ ہمارے ایک مہربان اتوار کے روز اپنی بیگم کا ہاتھ پکڑ کر فورٹریس میں گھوم رہے تھے، رش تھا کہ مہوش تھا، بہرحال ان کی بیوی بھیڑ میں کچھ پیچھے رہ گئیں، اور شوہر نامدار سے ان کا ہاتھ چھوٹ گیا، صاحب اپنی بیوی سے جاری گفتگو جاری رکھتے ہوئے کسی اور خاتون کا ہاتھ تھام کے چلتے رہے، انہوں نے اگرچہ محسوس بھی کیا کہ ”روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی“ پھر بھی ارادہ کر لیا کہ اب چاہے، رب روٹھے، چاہے بیوی چھوٹے نہ یہ ہاتھ، کہ اتنے میں بیگم رش میں سے شیرنی کی طرح نمودار ہوئی اور شوہر کا ہاتھ جھٹکے سے اس سیمیں کلائی سے اس طرح الگ کر دیا جیسے رقیب عاشق کا سر تن سے جدا کر دے، بیوی نے شوہر کو خوب برا بھلا کہا اور شوہر نے بڑی معصومیت سے کہا میں تو تیرا ہاتھ سمجھ کرپکڑے رہا، لاحول ولاقوة، بہرحال ابھی تو ممکن نہیں لیکن کبھی یہ لمحہ آ بھی سکتا ہے کہ چوہدری صاحبان کو ”در ِیار“ پر یہ دہائی دینی پڑے
لائی بے پروا نال یاری
تے ٹٹ گئی تڑک کر کے
اقتصادی ترقی تو ہم تب کریں گے جب کراچی بلوچستان الغرض پورے ملک میں امن کی بنسی بجے گی، توانائیاں بحال ہوں گی اور صنعت و حرفت کا پہیہ رواں ہو گا۔

سوئی ناردرن کے وکیل فرماتے ہیں گیس مہنگی کرنا ناگزیر ہے۔ اور چیئرمین اوگرا نے دست بستہ عرض کیا ہے چوری روکیں۔
چیئرمین اوگرا تو بیچارے” اوگرا “کی کیفیت سے گزر رہے ہیں اب وہ اٹھیں گے تو گیس چوری روکیں گے، البتہ سوئی ناردرن کے وکیل سے ان کے ”موٴکلات“ نے کان میں کہہ دیا، ہو گا چوری ہوتی ہے تو ہونے دو، قیمتیں بڑھا دو گیس خود بخود وافر ہو جائے گی، اگر سرجن اور فزیشن کی آراء یہ ہوں گی تو مریض گیس کیا آپریشن سے پہلے فوت نہیں ہو جائے گا۔ چیئرمین اوگرا ،وہ گرا صاحب اگر یہ جانتے ہیں کہ گیس چوروں نے طریقے بدل لئے ہیں تو وہ کس درد کی دوا ہیں چوروں کے نئے طریقے معلوم کریں، وکیل سوئی ناردرن تو سیدھے سیدھے کیل بن کر صارفین کے سینے میں کھب گئے ہیں، شاید ان کے گھر میں گیس وافر اور بطور آفر آتی ہو گی، فیس اس کے علاوہ ہو گی اس لئے اس ستم ایجاد نے ایک ہی سانس میں کہہ دیا
نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز
(قیمتیں اور بڑھاؤ کہ ابھی یہ بہت سستی ہے)
لازم ہے کہ وکیل کے منہ میں یہ رباعی ٹھونسنی پڑے گی
کہتے ہیں کہ اب وہ مردم آزاد نہیں
عشاق کی پرسش سے اسے عار نہیں
جو ہاتھ کہ ظلم سے اٹھایا ہو گا
کیونکر مانوں کہ اس میں تلوار نہیں
ملک میں کئی مقامات ایسے ہیں جہاں ہمارے ماہرین نے گیس کی موجودگی کی نشاندہی کی ہے۔ تیل کے کنویں تو ”مشاطہٴِ جہاں“ کے اشارے پر بند کر دیئے، اب یہ جو گیس پاک سرزمین تلے دبی نکلنے کو بے تاب ہے اسے کون نکالے گا وکیل سوئی ناردرن چیئرمین اوگرا یا وزیر پٹرولیم

ایں خیال است و محال است و جنوں

ایرانی صدر احمدی نژاد نے کہاہے: دہشتگردی ختم کرنے کے لئے پاک ایران افغان علماء کا اجلاس بلایا جائے، حضرت محمد (ﷺ)شیعہ تھے نہ سنی وہ مسلمان تھے، امریکہ خوشحال اور پُر امن پاکستان نہیں چاہتا۔
تجویز تو اچھی ہے، مگر یہ علماء مل کر بھی مل نہ سکے تو احمدی نژاد کیا کریں گے، انہوں نے تو یہ کہہ کر اپنے تئیں شیعہ سنی تفریق بھی ختم کر دی کہ حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ)شیعہ تھے نہ سنی وہ مسلمان تھے، اس بات میں بڑا وزن ہے مگر یہ وزن اٹھائے گا کون، رہ گئی بات امریکہ کی کہ وہ خوشحال اور پُر امن پاکستان نہیں چاہتا تو جب تک دولہا یا دلہن راضی نہ ہوں نکاح منعقد نہیں ہوتا، امریکہ کی اگر ایسی کوئی خواہش ہے تو ادھر ہمارے ہاں سے بھی ایجاب و قبول ہو چکا ہو گا، اگر ہم اندر سے مضبوط نہ ہوں گے تو باہر والوں کے لئے کیسے مستحکم ہو سکتے ہیں، ان دنوں کچھ ایسی کیفیت ہے کہ
اُدھر وہ بدگمانی ہے اِدھر یہ ناتوانی ہے
نہ پوچھا جائے ہے اس سے نہ بولا جائے ہے مجھ سے
اگر تاریخ عالم پر ایک نگاہ ڈالی جائے تو اس انسانی دنیا میں جتنے مظالم مذاہب کی اوٹ میں ہوئے ہیں وہ کفر کی کمیں گاہ میں نہیں ہوئے، اگر آپ مذہب کو آلہٴ کار بنا کر کسی پر ظلم کریں گے تو پکڑے نہیں جا سکیں گے، کیونکہ کوئی نہ کوئی آسمانی دلیل گردن زدنی کی لے آئی جائے گی اور قتل روا ہو جائے گا۔ جبکہ مذاہب نے امن و آشتی کا پیغام دیا، اور زمین میں فساد پھیلانے سے روکا، احمدی نژاد صاحب! آپ کو بھی اپنے ملک کی اصلاح کے لئے ایک انقلاب لانا پڑا، یہ نسخہء کیمیا پاکستان کو بھی دیجئے اگر ایک عمارت ٹیڑھی بن گئی یا ہو گئی اسے گرانا اچھا، اور اس کی جگہ تعمیر نو کرنا بہتر ۔
تازہ ترین