• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مولانا روم سے ایک روایت ہے کہ ایک مولوی صاحب خطبہ دیتے ہوئے روز فرمایا کرتے تھے کہ اللہ کا نا م لیکر جو کام بھی کیا جائے وہ ہو جاتا ہے۔ ایک گڈریا مولانا صاحب کا خطاب سنا کرتاتھا، اس نے سوچا کہ مولوی صاحب بڑے دیندار ہیں جو بات کہتے ہیں ضرور ٹھیک ہو گی۔وہ گڈریا روزانہ دریا کنارے بھیڑ بکریاں چرایا کرتا تھا، دریا کے اس طرف کی گھاس پُھوس اسکی بھیڑ بکریاں ختم کر چکی تھیں ، وہ روزانہ دریا کے پار ہری بھری گھاس دیکھا کرتاتو دل ہی دل میں سوچتا کہ اسکی بکریوں کو اگر دریا پار کی گھاس کھانے کو مل جائے تو کتنا اچھا ہو۔ایک دن وہ اسی سوچ میں تھا کہ اُسے مولوی صاحب کی اللہ کا نام لیکر کام کرنے والی بات یاد آ گئی، اس نے اللہ کا نام لیا اور بھیڑ بکریوں کو ہانکتا ہوا دریا میں اتر گیا۔ دریا راستہ چھوڑتا گیا اور وہ دریا پار سے بکریاں چرا کر واپس آ گیا۔جب مولوی صاحب کو یہ بات پتہ چلی تو وہ بھی اللہ کا نام لیکر دریا میں اتر گئے لیکن دریا نے انکے لئے راستہ نہیں چھوڑااور مولوی صاحب دریا میں ڈوب گئے۔ اس ساری کہانی میں سبق یہ ہے کہ گڈریے میں ایمان تھا تو دریا اسکے لئے راستہ چھوڑ دیتا تھا جبکہ مولوی صاحب تقریر وغیرہ تو کر لیتے تھے لیکن ان کے اندر ایمان کی طاقت نہیں تھی اسلئے وہ ڈوب گئے۔
یہ روایت جاوید ہاشمی صاحب نے اپنی خود نوشت میں بیان کی ہے جسکا پیش لفظ خود نواز شریف صاحب کا لکھا ہوا ہے۔سیاق و سباق اس روایت کا کچھ یوں ہے کہ جب نواز شریف صاحب وزیرِ اعظم تھے اور ہاشمی صاحب انکی کابینہ کے وزیر تو انہوں نے ہاشمی صاحب کو شوگر مل لگانے کی آفر کی جو ہاشمی صاحب نے قبول نہیں کی۔ اس آفر کے گواہ چوہدری عبدالرؤف ،جو وفاقی سیکریڑی رہے ، ماشاء اللہ حیات ہیں۔شوگر مل کی آفر ہاشمی صاحب جیسا ایمان اور توکل سے مالا مال کوئی گڈریا صفت انسان ہی ٹھکرا سکتاتھا۔پاکستان کی سیاست میں جس پر اب تک سٹیٹس کو کی جماعتوں کا قبضہ رہا ہے؛ شوگر ملوں ، ٹیکسٹائل ملوں اورفونڈریوں کے بغیر قومی سطح کر سیاست کرنااللہ کا نام لیکر بہتے دریا کو پار کرنے کے مترادف ہی رہا ہے۔ہاشمی صاحب جیسے متوسط طبقے کے قومی لیڈر کو اللہ نے یہ توفیق دی کہ وہ پاکستان کی اس گندی اور بدبودار سٹیٹس کو کی سیاست میں بھی ہمیشہ ایک اجلے کردار کی حیثت سے جانے جاتے رہے ہیں۔جب میں نے بیوروکریسی کو خیر باد کہا اورتحریکِ انصاف میں شامل ہو کر عملی سیاست کا آغاز کیا توسیاست میں موجود اپنے کچھ دوستوں اور واقف کاروں سے سیاست کی الف ب سیکھنے کیلئے ملاقاتیں شروع کیں۔ اسی سلسلے میں ایک دوست ،جو پیپلز پارٹی کے ایم پی اے ہیں، ایک دفعہ میر ے دفتر آئے۔ انکا ایک ہی سوال تھا کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر عملی سیاست کیوں؟ جب میں نے انہیں سیاست میں آنے کے مقاصد بیان کئے تو وہ بڑی افسردگی سے کہنے لگے کہ صاحب آپ کسی اور دنیا کی باتیں کر رہے ہیں۔پھر گویا ہوئے کہ پاکستانی سیاست ایک چومکھی لڑائی ہے اور یہ بہت گندا کھیل ہے اس لڑائی کو لڑنے کیلئے جن ہتھیاروں کی ضرورت ہے وہ آپ استعمال نہیں کرنا چاہتے تو پھر اس لڑائی کو کیسے لڑیں گے۔ میں نے ان سے ایک ہی سوال کیا کہ پوری سیاسی کھیپ میں کوئی ایک شخص جو ان مقاصد کے ساتھ اور ان ہتھیاروں کے بغیر برسرِ پیکار ہو؟ کوئی ایک شخص!!! وہ سوچ میں پڑ گئے اور پھر جھٹ سے بولے ، جاوید ہاشمی۔لیکن ساتھ ہی کہنے لگے کہ انکی حالت یہ ہے کہ اگر انکی اپنی پارٹی کا کوئی شخص بھی ان سے ہاتھ ملاتا نظر آ جائے تو اسکو اپنی پارٹی کے اندر مصیبت پڑ جاتی ہے۔
میں دل ہی دل میں ہاشمی صاحب کا قدر دان ہو گیا اور جہا ں موقع ملتا انکے سیاسی کیرئیر کی کھوج میں معلومات اکٹھی کرتا رہتا۔مجھے آج تک کسی ذریعے سے ہاشمی صاحب کی دیانت ، سیاست اور کردار کے بارے میں بُری بات سننے کو نہیں ملی۔ہو سکتا ہے بحثیت سیاستدان ہاشمی صاحب سے بھی کچھ لغزشیں سرزد ہوئی ہوں ، لیکن پاکستانی سیاست کے معیار پر اگر انہیں پرکھا جائے تو کم از کم میرے جیسے سیاسی کارکن کا تو بہت حوصلہ بڑھتا ہے۔انکی سب سے بڑی لغزش تو شائد یہ ہے کہ انہوں نے سٹیٹس کو کی پارٹی میں اتنا وقت کیوں ضائع کر دیا، اور اس پارٹی اور اسکی قیادت کے جرائم پر اتنا لمبا عرصہ کیوں خاموشی اختیار کئے رکھی(اسی طرح مجھے مسلم لیگ (ن) کی چَند ایک دو سری اجلی شخصیات پر بھی حیرت ہوتی ہے جو آج بھی وہی غلطی کر رہی ہیں جو ہاشمی صاحب برسوں کر تے آئے ہیں)۔جب تحریکِ انصاف نے ڈرون حملوں کے خلاف پشاور میں انتہائی پُر خطر حالات میں دھرنا دیا ، ہاشمی صاحب قومی سطح کے واحد لیڈر تھے جنہوں نے عمران خان اور تحریکِ انصاف کا حوصلہ بڑھایا۔لاہور کا جلسہ تو اس دھرنے کے بہت بعد میں ہوا، لیکن میری رائے میں ہاشمی صاحب کی طرف سے تحریکِ انصاف کے پشاور دھرنے میں شمولیت نے کایا تحریکِ انصاف کے حق میں پلٹنا شروع کر دی تھی۔
ہاشمی صاحب کی ”بد کرداری “ کے بارے میں اول اول شہادتیں چند مہینے پہلے آنا شروع ہوئیں جب پنجاب حکومت کے تنخواہ دار چند قصہ نویسوں نے انکے بارے میں انگریزی محاورے کے مطابق مرغی اور بھینسے والی کہانیاں گھڑگھڑ کر پیش کرنا شروع کیں۔ مسلم لیگ (ن) کے ثنا خوان ہاشمی صاحب کے اوپر رنگ رنگ کے الزامات لگاتے وقت یہ بھی بھول گئے کہ یہ تمام الزامات انکے تحریکِ انصاف میں آنے سے پہلے کے ہیں جب وہ مسلم لیگ (ن) اوراسی سے ملتی جلتی مختلف مسلم لیگوں کا حصہ تھے اور اگر ان الزامات کو درست بھی مان لیا جائے تومسلم لیگ (ن) اور نوازشریف صاحب ان سے کس طرح بری الزمہ ٹھہر گئے۔اور اگر واقعی ہاشمی صاحب قصور وار تھے تو اس وقت مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف جو فردِ واحد کے طور پر مسلم لیگ (ن) کے سیاہ وسفید کے مالک ہیں، نے انکے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی۔ مسلم لیگ (ن) چھوڑنے کے بعد انکو اچانک یہ خیا ل کیسے آ گیا۔بس بس صاحب!! رہنے دیجئے آپ کا کھیل اب بے نقاب ہو چکا ہے۔اپنے گناہوں کا حساب دیجئے،اب کھمبا نوچنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ہاشمی صاحب تو اپنے اوپر لگائے گئے تمام الزامات کا سامنا نیب اور احتساب عدالتوں میں دے چکے، جس میں وہ الزام بھی شامل تھا جویونس حبیب نے یوسف میمن کے ذریعے انہیں رقوم دینے کے بارے میں لگایا تھا۔ یہ الزام سب سے پہلے 1993 ء میں کامران خان نے دی نیوز میں رپورٹ کیا تھااوراپریل، مئی 1994ء کے تکبیرکے شمارے میں یونس حبیب کے انٹرویو میں تفصیل سے شائع ہوا تھا۔ حضور یونس حبیب نے توجاوید ہاشمی کے ساتھ ساتھ چوہدری نثار، اعجازالحق، ہمایوں اختر، اسحاق ڈاراور ملک نعیم اعوان کو بھی پیسے دینے کا الزام لگایا تھا، ہاشمی صاحب تو مشرف دور کے مخاصمت والے دورِ حکومت میں بھی نیب اور احتساب عدالتوں سے اس الزام سے بری الزمہ قرار پائے تھے۔ دوسرے پاکباز کہاں ہیں ، انکا حساب ابھی با قی ہے۔چونکہ جاوید ہاشمی کی جرنیلوں سے رشتہ داریا ں نہیں تھیں اور باقیوں کی طرح انہوں نے پرویز مشرف سے معافیاں مانگنے سے انکار کر دیا تھا ،اسلئے یونس حبیب کے الزامات کا بوجھ مشرف دور میں انہوں نے اکیلے ہی اٹھایا تھا۔ اچھا ہی ہوا، مشرف کے بدترین دور میں نیب نے انکے تمام اثاثوں اورمالی معاملات کی بھرپور چھان بین کی لیکن احتساب عدالت میں وہ کوئی ایک بھی الزام ثابت نہ کر سکے۔بالآخر ہاشمی صاحب لاہور کی احتساب عدالت نمبر 2سے بغیر کسی NROکے باعزت بری ہوئے۔آج ایک صاحب فرماتے ہیں کہ وہ دوسرا کیس تھا، ان صاحب سے درخواست ہے کہ نیب کے 2002 ء کے ریفرنس نمبر ۵ کا بغور مطالعہ فرما لیں اور نواز شریف صاحب کو بھی پڑھ کر سنا دیں۔ اسکی تنقیہہ نمبر (issue no. 13)13میں انہی رقوم کی وصولی کا الزام ہے جو یونس حبیب نے یوسف میمن کے ذریعے مبینہ طور پر سیاسی رشوت کے طور پر بھجوائی تھیں۔
ہاشمی صاحب سمیت کوئی بھی شخص قانون سے مبرا نہیں۔ آپ کو دعوتِ عام ہے ، پنجاب میں آپکی براہ راست اور مرکز میں آپکی بالواسطہ حکومتیں قائم ہیں، اگر ہاشمی صاحب کے خلاف کوئی ثبوت موجود ہیں توانکے خلاف کارروائی کیجئے اگر کچھ ثابت ہو گیا تو کم از کم ہاشمی صاحب کے میر ے جیسے قدردانوں کی خوش فہمی تو دور ہو جائے گی۔ نواز شریف صاحب کی ایماء پر ہاشمی صاحب پر ایک الزام یہ بھی لگایا گیا ہے کہ اکتوبر 1990ء میں الیکشن سے پہلے ایم این اے ہوسٹل کے کمرہ نمبر1 میں ہاشمی صاحب کو یامین نامی شخص نے یوسف میمن کی موجودگی میں ایک کروڑ چوالیس لاکھ روپے دئیے۔ اگر یہ بات آپ کے علم میں تھی تو آپ بارہ سال انتظار کس چیزکا کرتے رہے، چلیں اب تو جاوید ہاشمی صاحب آپکے سیاسی حریف ہیں اس بات پر ہی انہیں عدالت میں لے جائیے۔ اگر ایسا نہیں کر سکتے تو پھر میڈیا میں ایسی پھلجڑیاں کیوں چھوڑتے ہیں۔صرف کردار کشی کیلئے؟ہاشمی صاحب تو اپنی وضاحت کر چکے اور کوئی بھی الزام ثابت ہونے پر سیاست چھوڑنے جیسا قدم بھی ان جیسے گڈریا منش انسان سے بعید نہیں ، نواز شریف صاحب کا کیا ارادہ ہے!!!
تازہ ترین