• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نئے پاکستان میں پاکپتن کو وہی مقام حاصل ہے جو مغلیہ سلطنت کے مختلف ادوار میں اجمیر شریف کے حصے میں آیا ۔شہنشاہ اکبر تو نسبتِ روحانی کے پیش نظر اجمیر شریف سے اس قدر عقیدت رکھتے تھے کہ انہوں نے کئی بار نہ صرف پیدل بلکہ برہنہ پا حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کے دربار پر حاضری دی۔روایات کے مطابق شاہجہان کے ہاں شہزادہ دارالشکوہ کی پیدائش اسی درگاہ پر منت ماننے کے نتیجے میں ہوئی ۔تزک جہانگیری اور اکبرنامہ میںمغل بادشاہوں کی اجمیر شریف سے عقیدت کے بیشمار واقعات درج ہیں۔یہاں تک کہ تصوف اور طریقت سے بیزار سمجھے جانیوالے اورنگ زیب عالمگیر بھی کئی بار اس آستانے پر حاضر ہوئے۔خواجہ غریب نواز ،حضرت معین الدین چشتی ؒ اجمیری کے سلسلہ تصوف و عقیدت کو آگے بڑھانے والے بابا فریدالدین مسعود گنج شکر ؒکا دربار پاکپتن کی سب سے بڑی پہچان ہے مگر یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ پاکپتن کا پرانا نام ’’اجودھن‘‘ ہے ۔یہ پچیس ہزار برس پرانا شہر ہے جس کا ذکر قدیم تہذیبوں میں ملتا ہے۔ابنِ بطوبہ نے بھی اپنے سفر نامے میں پاکپتن کی سیر و سیاحت کا ذکر کیا ہے۔ سبتگین ،محمود غزنوی ،امیر تیمور ،محمد بن قاسم اورسکندر یونانی سمیت شاید ہی کوئی حملہ آور ایسا ہو جس نے اس تاریخی شہر کو فتح کرنے کی کوشش نہ کی ہو ۔سکندر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے پاکپتن کے نواحی قصبے ملکہ ہانس میں جنگ کے دوران ایک تیر لگا جو انتہائی مہلک ثابت ہوا۔ملکہ ہانس میں ہی مسجد پیر وارث شاہ اور چھجو کا وہ چوبارہ ہے جہاں وارث شاہ نے ہیر وارث شاہ نامی ادبی شہ پارہ تخلیق کیا ۔’’نہ بلخ نہ بُخارے ،جو سُکھ چھجو کے چوبارے ‘‘ والی ضرب المثل اسی تاریخی چوبارے سے متعلق ہے ۔اسی چوبارے اور مسجد سے متصل 800 سال قدیمی پرنامی مندر ہے جہاں ہندوئوں کا چھجو قبیلہ اپنےعقیدے کے مطابق عبادت کیا کرتا اور مسلمان اپنی روایات کے مطابق مسجد میں سربسجود ہوتے ۔یوں یہ شہر بین المذاہب ہم آہنگی اور رواداری کے اعتبار سے بھی اپنی مثال آپ ہوا کرتا تھا۔

دلچسپ اتفاق یہ ہے کہ وارث شاہ نے بھی بابا فرید گنج شکر ؒ کے آستانہ عقیدت سے روحانی فیض پایا ۔ علاقائی روایات کے مطابق پیر وارث شاہ اپنے آبائی علاقہ جنڈیالہ شیر خان سے ملکہ ہانس آئے اور یہاں انہیں ’’بھاگ بھری ‘‘ نامی حسینہ سے پیار ہو گیا ۔پھر وہی ہوا جو آج تک چاہنے والوں کیساتھ ہوتا آیا ہے ،ظالم سماج نے پیار کرنیوالوں کو جدا کر دیا تو وارث شاہ نے اپنے جذبات و احساسات کو الفاظ کا روپ دیکر ’’ہیر وارث شاہ ‘‘جیسی لافانی و ابدی داستان ِ عشق لکھی اور اپنے پیار کو ہمیشہ کیلئے امر کر دیا۔ہیراور رانجھے کی محبت کا یہ لازوال قصہ تو پہلے بھی علاقائی ادب کا حصہ تھا مگر وارث شاہ نے منفرد اور دل موہ لینے والے مکالموں کی شکل میں بیان کرکے اس لوک داستان میں ایک نئی روح پھونک دی۔’’ہیر وارث شاہ ‘‘عشق حقیقی اورعشق مجازی کا حسین امتزاج تو ہے ہی مگر پوٹھوہاری ،ہندکو ،ملتانی ،دریائی ،ڈیروی اور شاہ پوری لہجے کی سرائیکی و پنجابی زبانوں کے اشتراک نے اس کی مٹھاس اور تاثیر دو آتشہ کر دی ہے۔

گاہے خیال آتا ہے کہ ہیر وارث شاہ کے کردار ہوں یا پھر اُس دور کے سماجی و سیاسی افکار،کیادونوں ہی بدرجہ اتم زندہ نہیں ہیں؟یہ نیا پاکستان بھی تو ان کے زندہ ہونے کی واضح نشانی ہے۔آج بھی باادب بانصیب ٹھہرے ہیں اور پاکپتن سے فیض پارہے ہیں۔عشق حقیقی ہو یا عشق مجازی ،کوئے جاناں اور محبت کا مے خانہ تو پاکپتن ہی ہے۔آپ باریک بینی سے صورتحال کو پرکھنے کی کوشش کریں تو آج کل ہمارے ہاںہیر اور رانجھا ہی نہیں ’’کیدو ‘‘ کا کردار بھی اپنی جگہ موجود ہے ۔مجھ ایسے ناہنجار قلم کار اور تجزیہ نگار اس ’’نئے پاکستان‘‘ میں ’’کیدو‘‘ ہی تو ہیں جو سویلین بالادستی اور جمہوریت کے احساس ِغیرت سے نہیں نکل پارہے ۔یہ ’’کیدو‘‘ کل بھی مشرقی روایات کے حصار سے باہر نہیں آرہے تھے اور آج بھی گستاخ ڈی پی او کے تبادلے پر بھنا رہے ہیں ۔ زمینی حقیقت مگر یہ ہے کہ عصر حاضر کے ’’کیدو‘‘ جتنا مرضی تلملائیں ،چاہنے والوں کو ایک ہونے سے نہیں روک سکتے ۔ ماضی کے برعکس نہ صرف عشق و محبت کی وہ ادھوری داستان مکمل ہو چکی ہے بلکہ اس کے نتیجے میں حسب توقع نیا پاکستان بھی معرض وجود میں آچکا ہے۔تخلیق کار اپنے زمانے کا مورخ ہوتا ہے اور ادبی پیرائے میں سماجی و سیاسی مباحث کو زیر بحث لاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وارث شاہ نے بھی اپنے کرداروں کے بے ساختہ اور برجستہ مکالموں کے ذریعے سماجی حقیقتیں آشکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہیر وارث شاہ محض ایک عشقیہ داستان نہیںبلکہ سماج سے بغاوت پر ابھارتی اور اُکساتی انقلابی شاعری بھی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ میں کئی دنوں سے سوچ رہا تھا،اگر وارث شاہ آج زندہ ہوتے تو نئے پاکستان میں عسکری اور سیاسی قیادت کی یک رنگی پر کیا کہتے ؟نئی سیاسی صف بندیوں پر ان کی رائے کیا ہوتی ہے اور وہ اس کا اظہار کس پیرائے میں کرتے ؟اسی ادھیڑ بن میں ہیر وارث شاہ کی ازسر نو ورق گردانی شروع کی تو ایک بند پر آکر ٹھٹھک گیا اور یوں لگا جیسے یہ صدیوں پرانا کلام نہیں بلکہ چھجو کے چوبارے پر بیٹھے وارث شاہ نے ابھی ابھی یہ اشعار لکھ کر بھیجے ہیں:

جیہڑیاں لین اُڈاریاں نال بازاںاُوہ بُلبلاں تھک مریندیاں نیں

(جو بُلبلیں شہبازوں کیساتھ اڑان بھرتی ہیں وہ تھک کر گر جاتی ہیں )

اوہناں ہرنیاں دی عمر ہو چکی پانی شیر دی جوہ دا پیندیاں نیں

ان ہرنیوں کی عمر بہت کم ہوتی ہے جو شیروں کے علاقے سے پانی پیتی ہیں)

اوہ واہناں جان کبا ب ہوئیاں جیہڑیاں بیڑیاں نام کھہیندیاں نیں

(وہ جو چلتی ہوئی کشتی میں اٹھکھیلیاں کرتے ہیں ،دریا بُرد ہوجاتے ہیں)

اوہ اِک دن پھرسن آن گھوڑے کِڑاں جنہاں دیاںنِت سُنیندیاں نیں

(وہ گھوڑے جن کی تند خوئی کے قصے بالعموم سنائی دیتے ہیں وہ ایک دن آ ہی جاتے ہیں)

تھوڑیاں کرن سہاگ دیاں اوہ آساں جیہڑیاں دھاڑویاں نال منگیندیاں نیں

(وہ جو حملہ آوروں کیساتھ بیاہی جاتی ہیں بہت کم عرصہ ہی سہاگن رہ پاتی ہیں )

جوکاں اِک دن پکڑ نچوہین گئیاں ان پُنے لوہو نِت پیندیاں نیں

(وہ جونکیں جو بغیر چھانا ہوا لہو چوستی ہیں ،ایک دن مار دی جاتی ہیں)

اک دن گڑے وسائیسن اوہ گھٹاں ہاٹھاں جوڑ کے نِت گھریندیاں نیں

تیرے لون موڈھے ساڈے لون ناڑے مشکاں کسے دیاں اج بجھیدیاںنیں

(کندھا کسی سے ملاتی ہیں ،دل کسی سے لگاتی ہیں ،ان کے مزاج کو کون بوجھ سکتا ہے )

کتنی ہی بلبلوں اور کتنی ہی ہرنیوں کی داستان حسرت تاریخ کے چوراہے پر رقم ہے مگر عشق کے خمار میں گرفتارہونے والوں کے پاس اتنی فرصت کہاں ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین