• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ہفتے روس میں شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کے زیر اہتمام ممبر ممالک کی افواج کیجانب سے خطے میں بڑھتی ہوئی دہشتگردی اور شدت پسندی سے نپٹنے کیلئے مشترکہ فوجی مشقیں کی گئیں- چھ دن کی ان مشقوں میں بھارت اور پاکستان نے پہلی بار حصہ لیا اور یہ پہلا موقع ہے کہ دونوں ممالک کے دستے کسی مشترکہ فوجی مشق کا حصہ تھے- اس حوالے سے یہ ایک تاریخ ساز موقع ہے اورامید ہے کہ مستقبل میں مزید ایسی کوششیں دونوں ممالک کے درمیان دیرپا امن اور خوشالی میں ممد ومعاون ثابت ہونگی- مشقوں کے اختتام پر بھارت اور پاکستان کےفوجیوں نے ایک رنگارنگ تقریب میں شرکت کی جس دوران آپسی گرمجوشی واقعی قابل دید تھی- اس حوالے سے ایک مختصر دورانیے کی ویڈیو بھی منظر عام پر آئی جس میں طرفین کی جانب سے جس پیار اور خلوص کا مظاہرہ کیا گیا اس سے لگ رہا تھا کہ سرحد پر آئے روز کی قتل وغارتگری سے پیدا شدہ سنگین صورتحال جیسے پل بھر کیلئے منجمد سی ہوگئی ہو- اس سے اس مفروضے کو تقویت ملتی ہے کہ نفرت انگیز سیاست اور شدت پسند قومی نظریات کے بڑے پیمانے پر پروان چڑھانے کے باوجود دونوں ممالک میں امن کے قیام اور اسکی خواہش نہ صرف موجود ہے بلکہ تھوڑی سی کوشش سے بھی حالات کا جمود توڑا جاسکتا ہے- اس حوالے سے ایک اور خوش آئند پیش رفت یہ بھی ہے کی ان مشترکہ مشقوں کے حوالے سے ابھی کوئی خاص اور قابل ذکر تنقید نہیں ہوئی- بھارت میں پچھلے کئی سالوں سے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے شدت پسند میڈیا کا عمل دخل بہت بڑھ گیا ہے جو پاکستان کے تئیں مسلسل سخت اور جارحانہ رویہ اپنائے ہوئے ہے-

اسکی تازہ مثال بھارت کے نامور سابق کرکٹر اور سیاستدان نوجوت سنگھ سدھو کا حالیہ دورہ پاکستان ہے جس دوران پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کیساتھ ان کی ملاقات اور معانقے پر انہیں بھارتی میڈیا اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے بےپناہ تنقید کا نشانہ بنایا گیا- آپکی اپنی جماعت کانگریس نے بھی آپکو خوب لتاڑا یہاں تک کہ انکے باس بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ کیپٹن (ریٹائرڈ) ارمندر سنگھ نے بھی انکے پاکستان دورے کی مخالفت کی- سدھو کو ہندو شدت پسند جماعت راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی جانب سے قتل کرنے کی بھی دھمکی دی گئی- ایسی صورتحال میں پاک بھارت افواج کا مشترکہ مشقوں میں حصہ لینا اور پھر ایک پارٹی میں شرکت کرنا کسی معجزے سے کم نہیں- پاک بھارت دیرپا امن کی صورت میں نہ صرف یہاں کے عوام سکھ کا سانس لے سکتے ہیں بلکہ دونوں ملکوں کی افواج کو بھی غیر ضروری دشمنی اور تکلیفوں سے نجات مل سکتی ہے اور کئی طرح کے ناروا واقعات سے بچا جاسکتا ہے جنکی پیشہ وارانہ فوجی دنیا میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہئے-چند دن پہلے آزاد کشمیر کے رہنے والے سپاہی مقبول حسین وفات پاگئے-چند سال پہلے جب میں نے ان کے بارے میں پڑھا تو بڑی خواہش ہوئی کہ آپ سے ملاقات کی کوئی سبیل نکل آئے جوممکن نہیں ہوسکا جس کا مجھے تادیر قلق رہے گا- آپ 1965کی پاک بھارت جنگ میں گرفتار ہوئےاور چالیس سال تک مسلسل قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے- دوران حراست پاکستان مردہ باد نہ کہنے پر مبینہ طور پر انکی زبان کاٹ دی گئی جو کہ ایک نہایت ہی افسوسناک امر ہے اور جنیوا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی ہے- جنگ وجدل میں مخالفین کے گرفتارشدہ فوجیوں کیساتھ اس طرح کے سلوک سے سخت قسم کے معاندانہ روئیے پرورش پاتے ہیں جن سے چھٹکارہ پانے میں کئی دہائیاں بلکہ صدیاں بھی لگ سکتی ہیں- سپاہی مقبول حسین جیسے کئی المناک واقعات دونوں جانب سے ہوئے ہوں گے- کارگل کی جنگ میںبھی بھارت کی جانب سے کئی گرفتار سپاہیوں کی تشدد کے نتیجے میں ہونیوالی حراستی ہلاکت کے الزامات لگائے گئے جس سےشدت پسند سرکاری بیانیے میں کافی تیزی پیدا ہوگئی اور یوں مزید نفرت پھیلانے کے اسباب پیدا ہوگئے- ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے افسوسناک اور غیر پیشہ وارانہ طرز عمل پر مبنی واقعات پر مکمل طور پر روک لگا دینی چاہئے- اگر دونوں ممالک کی افواج سپاہی مقبول حسین مرحوم کی ذات سے شروعات کریں اور انکی ایک مشترکہ یادگار بنالیں تو طرفین کی سوچوں میں ایک دوسرے کے لئے معاندانہ جذبات میں کچھ کمی کی امید کی جاسکتی ہے- فوجیوں کا اپنے ملک کیلئے مرمٹنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں مگر انکی یادگاریں جہاں قومی حمیت کو جلا بخشتی ہیں وہیں انکی قربانیوں کی لازوال داستانوں سے امن اور ترقی کو بھی نئی حیات مل سکتی ہے-

دشمنی اپنی جگہ لیکن یہ گنجائش رہے

جب کبھی ہم دوست بن جائیں تو شرمندہ نہ ہوں-

مرحوم سپاہی مقبول حسین کا ذکر کیا تو مجھے ایک دیرینہ دوست انوار ایوب راجہ یاد آگئے- آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے انوار کئی عشروں سے انگلستان میں ہیں جہاں وہ تلاش معاش کیساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کا کام بھی بڑی شدومد سے جاری رکھے ہوئے ہیں-انوار راجہ نے کئی گرانقدر کتابیں مرتب کی ہیں جن میں تین کتابیں آپ نے خطے سے وابستہ تین عبقری فوجی شخصیات پر لکھیں ہیں- حال ہی میں آپ کی تازہ کتاب ہلال کشمیر کے نام سے منظر عام پر آئی جسمیں آپ نے 1947ء کی جنگ میں شامل نائیک سیف علی خان جنجوعہ کی حیات زندگی اور داستان شجاعت رقم کی ہے- اسکے ساتھ ساتھ آپ نے اسوقت کے حالات و واقعات کا تنقیدی جائزہ لیا ہے اور صورت حالات اور ان سے جڑے کئی کرداروں پر بے لاگ گفتگو کی ہے- آپ نے کتاب میں آزاد کشمیر کے معروف مصنف جناب جی ایم میر کا ایک مبنی بر حقیقت تجزیہ بھی شامل کیا ہے جسمیں آپ فرماتے ہیں: ’’اسلام آباد اور راولپنڈی میں مقیم کشمیری قائدین کی ایک جماعت مکانوں کے کرائے اور ٹیلیفون کے بل حق الخدمت کے طور پر وصول کرتی رہتی ہے-‘‘انوار نے کوئی ایک دہائی پہلے ایک اور کتاب کیپٹن جاوید اقبال پر لکھی جو آپکے برطانوی نژاد کزن تھے- جاوید اقبال پاک فوج میں شامل ہوگئے تھے اور دوران ٹریننگ ہی اپنی برطانوی شہریت سرنڈر کرکے مستقل طور پرپاکستانی پاسپورٹ حاصل کرلیا- اس کے بعد جب بھی آپ برطانیہ تشریف لے گئے آپ ہمیشہ ویزا لگواکر گئے- لوٹن انگلستان میں پیدا ہونے والے کپتان جاوید کی زندگی کا چراغ 5 اگست 1999 ءکو کارگل کی جنگ کے دوران وہاں کی برف پوش پہاڑیوں پر گل ہوگیا- اس کتاب سے پہلے انوار راجہ نے لیفٹنٹ کرنل محمد عبد الحق مرزا کی ڈائریوں پر مشتمل ایک اور کتاب ’لینٹھا‘ کے نام سے مرتب کی ہے جس میں مرزا صاحب کے کارناموں کیساتھ ساتھ ان پر ہونے والے سرکاری ظلم و زیادتیوں کی ایک لمبی اور روح فرسا تفصیل درج ہے- کرنل مرزا شدید مشکلات کا شکار رہے جس کی بنا پر یہ کتاب آپ کی زندگی میں شائع نہیں ہوسکی- انوار راجہ نے اس کتاب کو شائع کرکے تاریخ کشمیر کے اہم گوشے کو محفوظ کردیا-

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین