• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت اور صحافی ’مخالفین‘ ہیں، یہ بات دونوں کو سمجھ لینی چاہیئے۔ حکومت کی کارکردگی کافیصلہ کرنا میڈیا کی اوراچھی کارکردگی دکھانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ جب دونوں طرف سےکچھ ’سرخ لائنیں‘‘ عبورکی جاتی ہیں تو مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ اس پسِ منظرمیں وزیراعظم عمران خان کی جانب سےکی گئی درخواست کو دیکھناچاہیئےکہ ان کی کارکردگی کافیصلہ کرنے سےقبل میڈیا کوانھیں کم ازکم تین ماہ دینےچاہیئےیعنی وہ 90دن تک’خاموشی‘چاہتےہیں۔ کیایہ غیرمنصفانہ مطالبہ ہےاورکیامیڈیانےگزشتہ 15دنوں میں واقعی اتنی تنقید کی ہے۔ چند روزقبل انھوں نےصحافیوں کےمنتخب گروپ بشمول اینکرزکےساتھ گتفتگومیں کہاکہ’’ ہماری کارکردگی کافیصلہ کرنےسےپہلےہماری حکومت کوتین ماہ دیں‘‘، اُن صحافیوں کی اکثریت نےپی پی پی اور پی ایم ایل(ن) کی حکومت کوبے نقاب کرنے میں اپناکرداراداکیاتھا اورچندنےپی ٹی آئی حکومت کےکاموں اور فیصلوں پربھی تنقید کی۔ یہ ایساہی کام ہےجس کی کوئی بھی ایک آزاداورپرائیوٹ میڈیا سے امید کرسکتاہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ’نئےپاکستان‘ کی حقیقی تصویراورویژن آئندہ تین ماہ میں سامنے آئےگا اوربہتر پاکستان کی امید کی جاسکتی ہےلیکن جب بات وی آئی پی کلچرکی ہوتووزیراعظم نےپرانےپاکستانی کےکچھ روایتی قصوں کوختم کردیاہےلیکن بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ پی پی پی اور پی ایم ایل(ن)کےبرعکس پی ٹی آئی کیلئےزیادہ ترمیڈیابہت لچکداراورنرم ہے،لیکن جب بات مخصوص معاملات پر متضادموقف کی ہوگی توحکومت کوتنقیدی جائزوں کی توقع کرنی چاہیئے۔ وزیراعظم عمران خان اور ان کی پی ٹی آئی کی زیرقیادت اتحاد کے پاس کارکردگی دکھانے کیلئے پورے پانچ سال ہیں محض 90دن نہیں ہیں لیکن پھر میڈیا اور صحافیوں کے پاس بھی ذمہ داری سے کرنے کیلئے کام ہے۔ عمران خان سے بہت ساری امیدیں ہیں اور وہ اپنی حکومتی پالیسیاں بنانے میں کافی سنجیدہ نظرآتے ہیں۔ لیکن میڈیا میں ان کے کچھ خیرخواہ اس وقت حیران رہ گئےجب انھوں نےاتنی زیادہ ’ٹاسک فورس‘بنادیں۔ سینئرکالم نویس، میزبان اور تجزیہ کارحسن نثار نےجیوکےپروگرام رپورٹ کارڈ میں گزشتہ ہفتے کہا،’’میں کچھ مایوس ہوگیا کیونکہ میں امید کررہاتھا کہ انھوں نے تیاری کی ہوگی۔ جب وہ حکومت میں ہیں تو مختلف پالیسیوں کیلئےٹاسک فورس بنانا اچھی بات نہیں ، لیکن مجھےتاحال امید اوراعتماد ہےکہ عمران کام کریں گے۔‘‘ میری سوچ بھی کم وبیش ایسی ہی تھی۔ ’انسان کی حرکات اس کے لفظوں سے بلند بولتی ہیں‘، اور تاحال اہم معاملات پر حکومتی پالیسیوں کا انتظار ہے۔ مجھےامید ہے کہ یہ حکومت آئندہ چھ ماہ میں معاشی پالیسی،احتساب،قومی سیکیورٹی اورخارجہ پالیسی سےمتعلق ان کےویژن کےمطابق کام کرناشروع کردےگی۔ مثال کےطورپران کی حکومت کوداخلی اورخارجی طورپرسنجیدہ مشکلات ہیں اوران پالیسیوں کاتنقیدی جائزہ لیاجائےگا کہ ان کی حکومت نے کس طرح سفارتی محاذ اور اندرونی محاذپرصورتحال کاسامناکیا۔ وزیراعظم کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں جاناچاہیئےیا نہیں اس بارے میں متضاد رائے ہیں۔ کچھ کا خیال ہے اورمیری رائے بھی یہ ہے کہ انھیں ایک سےزیادہ وجوہات کی بناءپرجاناچاہیئے۔ عمران خود جانا نہیں چاہیتے کیونکہ ان کامانناہےکہ ملک میں ان کی موجودگی زیادہ اہم ہے۔ غالباًیہ سوچ مقبول ہے اور میڈیا میں بھی کئی ساتھی اس پربات کرچکے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ فیصلہ درست ہےیانہیں۔ انھیں کیوں جانا چاہئیےاس کی دووجوہات۔ 1-واحد وقت جب کوئی وزیراعظم اقوم متحدہ کی جنرل اسمبلی میں نہیں گئے وہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی تھے جنھوں نےآخری لمحات میں ملک میں شدید سیلاب کے باعث یہ دورہ منسوخ کردیاتھا۔ اقوام متحدہ کا سالانہ اجلاس ایک فورم ہے جہاں عالمی رہنما پاکستان کے نئےوزیراعظم اور ان کے عالمی ویژن کوجانناچاہتےہیں خاص طورپر افغانستان، کشمیر، امریکااورمغرب کےساتھ تعلقات کے بارےمیں جانناچاہتےہیں۔ 2-یہ واحد بین الااقوامی موقع ہےجہاں 193مملک ایسے انسان کوسنیں گےجسےاس کی کرپش مخالف مہم کےباعث ووٹ ملے۔ لیکن پھر وزیر اعظم سوچتے ہیں کہ پہلےوہ داخلی معاملات پرتوجہ دیناچاہتے ہیں اور انھوں نےاپنےوزیرِخارجہ شاہ محمود قریشی کو بھیجنے کافیصلہ کیا۔ میڈیا ان کی خارجہ پالیسی جائزہ لےگا اور دیکھے گاکہ کس طرح پی ٹی آئی کی حکومت بڑھتے ہوئےامریکی دبائو سےنمٹنےگی کیونکہ ایسا لگتاہے کہ امریکی وزیرِخارجہ کچھ خطرناک پیغامات لے آرہے ہیں۔ دہشتگر دو ں کےخلاف فیصلہ کن کارروائی نہ کرنے کے باعث30 کروڑڈالرامدادکی منسوخی کےپینٹاگون کےفیصلےسےمتعلق آج کےاخبارکی خبرکواحتیاط سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس سے قبل وزیر اعظم اور امریکی وزیرخارجہ کی ٹیلی فونک گفتگوکاتنازع پہلے ہی میڈیامیں کافی بحث کاباعث بن چکاہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ وزیراعظم نےجی ایچ کیومیں ملٹری اسٹبلشمنٹ کے ساتھ آٹھ گھنٹےگزارے۔ سویلین حکومت کیلئےنیشنل سیکیورٹی پالیسی بنانے سے قبل سول ملٹری تعلقات کیلئےیہ اہم بات ہے۔ وزیراعظم نے تاحال اپنا نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر تعینا ت نہیں کیا۔ سیکیورٹی اور خارجہ پالیسی کےمعاملات یعنی افغانستان کی صورتحال اور بھارت اور امریکاکےساتھ معاملات طےکرنے کیلئےوہ ملٹری کی رائے لے چکے ہیں۔ جب بات پنجاب اور کے پی میں حکومت سازی کی ہو تو عمران کومیڈیاسےکوئی شکایت نہیں ہونی چاہیئے۔ پنجاب کےعثمان بزداراور کےپی کےمحمدخان دونوں بظاہر کمزوراور حکومت کاکم تجربہ رکھتے ہیں۔ اس کےبرعکس وزیراعظم کو دونوں پر پورا اعتماد ہےاور اس سےقطع نظر کے میڈیا کیا سوچتا ہےعمران انھیں ’مضبوط اور حوصلہ مند‘کےطورپربیان کرتے ہیں۔ وزیراعظم خود جانتے ہیں کہ انھوں نے ایساکیوں کیاجبکہ دونوں میں ہی’میرٹ اور اہلیت‘کی کمی ہے لیکن وہ انھیں پارٹیوں کےدرمیان مخالفت کی وجہ سے منتخب نہیں کرسکتےتھے۔ عمران نےکئی بارخودان گروہوبندی کے بار ے میں کہاہےاور ان کے پاس ایڈجسٹمنٹ کے سواکوئی چارہ نہیں تھا۔ لہذامیڈیاکہاں غلط ہوگیا جب ان میں سےہی کچھ لوگوں نےپارٹی کےاندرگروہ بندی کےبارےمیں سوالات اٹھائےجن کے باعث صو با ئی حکومت سازی میں تاخیرہوگئی۔ غالباًعمران خوش نصیب ترین وزیراعظم ہیں جن کے پاس فرینڈلی اپوزیشن اورزیادہ تر فرینڈلی میڈیاہے، ایسا پی پی پی اور پی ایم ایل(ن) کی دونوں گزشتہ حکومتوں میں نہیں تھا۔ زیادہ تر میڈیا ان دونوں جماعتوں کےساتھ فرینڈلی نہیں تھا۔ لہذا عمران خوش نصیب ہیں جی انھیں نرم میڈیا ملا لیکن بطور وزیراعظم انھیں کچھ تنقید اور بعض اوقات مشکل جائزے ملیں گے کیونکہ حکومت ہمیشہ وصول کرتی ہے۔ گزشتہ 15روز میں میڈیانےجوکیاہےاس کے باعث ایسی صورتحال پیدا ہوئی اور وزیراعظم نے درخواست کی کہ میڈیاکوفیصلہ کرنے سے قبل کم ازکم تین ماہ انتظارکرناچاہییئے۔ میڈیانے ان کی پہلی تقریرجو فتح کے بعد قوم سے خطاب کیاگیا اور جس میں بہت سے وعدےکیےگئےتھے، اسے خوش آئندقراردیا۔ میڈیا نے ان کی سادگی مہم اور وزیراعظم ہائوس کی بجائے ملٹری سیکریٹری کےگھررہنے کےفیصلے کوبھی خوش آمدیدکہا۔ ان کی ٹیم اور سیکیورٹی حکام نے چند دن قبل ہی فیصلہ کیاہے کہ انھیں کہارہناچاہیئے۔ میڈیانے وزیراعظم ہائوس کی 50گاڑیوں کی نیلامی کے ان کے فیصلے کی مکمل حمایت کی جن کی نیلامی ستمبرکےدوسرےہفتےرکھی گئی ہے۔ واحد تنقید اس وقت ہوئی جب وزیراطلاعات فواد چوہدری نے غیرضروری طورپر ہیلی کوپٹرکے استعمال کادفاع کرنے کی کوشش کی اور وہ بھی غیر معقول طریقےسے۔ اس کے برعکس وزیراعظم نے وزیرکی نسبت بہتر دلیل پیش کی کہ انھوں نے عوام کو تنگ کرنے کی بجائے کویں ہیلی کاپٹراستعمال کیا۔ ڈی پی اوپاک پتن کے ٹرانسفرمیں وزیراعلیٰ پنجاب کامبینہ کردارتنازعات کی زدمیں ہے۔ پی ٹی آئی کےایم پی اے عمران شاہ کی جانب سے کراچی کےشہری کو گالیاں، پنجاب کےوزیراطلاعات اور ثقافت فیاض الحسن چوہان کی ایک اینکراورخاتون فنکارہ کےساتھ گندی زبان کااستعمال یہ سب خود ساختہ زخم ہیں اورمیڈیاوزیراعظم سے ’نیاپاکستان کی امیدکررہاتھا، کہ وہ ردعمل دیں گے اور کارروائی کریں گے، بدقسمتی سے انہوں نےان میں سےکسی کیس میں کارر وا ئی نہیں کی۔ لہذاکیایہ میڈیاکی غلطی ہےیاان کی اپنی پارٹی اورحکومت کی غلطی ہے۔ وزیراعظم کوسمجھنےکی ضرورت ہے کہ حکومت اور صحافی مخالف ہیں۔ پالیسیاں بنانااورنافذ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے اوربغیرکسی تعصب کےمیرٹ پر انھیں پرکھنامیڈیااورصحافیوں کاکردارہے۔ صحافیوں کورپور ٹنگ کرتے اور کمنٹس کرتےہوئےاپنی ذمہ داری کاپتہ ہونا چاہئیے۔ بدقسمتی سےمیڈیااور صحافی بعض اوقات پیشہ ورانہ ’حد‘ عبورکرجاتےہیں تاکہ ڈیڈ لائن کےمطابق کام ہو۔ وہ کسی کی تعریف کرتے ہوئے بہت دور نکل جاتے ہیں یا تنقید کرتے ہوئے تعصب کاشکارہوجاتے ہیں۔ میڈیا آئندہ پانچ سال تک ان کی پالیسیوں اورکارکردگی کی پیروی کرےگا۔ اگروہ اچھی کارکردگی دکھائیں گے اور اپنے پرو گر ا م اوروعدوں کے مطابق کام کریں گے تو میڈیا کے پاس ان کی تعریف کے سواکوئی چارہ نہیں ہوگا۔ پی ٹی آئی کوکےپی میں دوبار اقتدارملایہ ان کی کارکردگی کےباعث تھانہ کہ میڈیا کے باعث۔ لہذا صحافیوں کو ان کاکام کرنے دیجیئےاور حکومت کو2023میں اپنی مدت پوری کرنےدیں۔

تازہ ترین