• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جو بے چاری پارلیمینٹ اپنی کوکھ سے جنم لینے والے حکمرانوں کو لوٹ مار سے نہ روک سکی وہ ایک قرارداد کے ذریعے کراچی اور پورے ملک کو اسلحہ سے پاک کرنے کی خواہش مند ہے اور جن حکمرانوں کی بات پر ان کے اہلخانہ کبھی اعتبار نہیں کرتے وہ اپنے بیانات سے دہشت گردی ، عسکریت پسندی اور تخریب کاری کا قلع قمع کرنا چاہتے ہیں حالانکہ سب جانتے ہیں کہ پارلیمینٹ دہشت گردوں سے خوفزدہ ہے اور حکمران عسکریت پسندوں کے ڈر سے سہمے ہوئے تو پھر ملک میں امن کیسے قائم ہو اور دہشت گردی سے نجات کیونکر ملے ؟
جب کراچی کو آتش فشاں بنانے اور ملک بھر میں اسلحہ کے ڈھیر لگانے والوں کو بخوبی علم ہے کہ قراردادیں منظور کرنے والے حقیقی امن کے متلاشی ہیں اور نہ بیانات دینے والے سنجیدہ اور مخلص تو وہ ان قراردادوں اور بیانات سے خائف کیوں ہوں ؟جانتے ہیں کہ یہ تو اشرافیہ کا مشغلہ ہے ریچھ کتے کی لڑائی سے فرصت ملی تو قرارداد منظور کرلی اور لوٹ مار سے فارغ ہوئے تو بیان داغ ڈالا۔ ورنہ مفاہمت یہ ہو چکی ہے کہ نہ میں تمہارے قاتلوں سے تعرض کروں گا نہ تم میرے ڈاکوؤں کی راہ روکوگے ۔ من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو ،
کراچی اور ملک بھر میں قیام امن اور دہشت گردی کا خاتمہ نہ تو فوجی آپریشن سے ممکن ہے کہ فوج اب مزید کسی دلدل میں پھنسنے کے لئے تیار نہیں اور نہ قاتلوں، جرائم پیشہ عناصر اور عسکریت پسندوں کی سرپرستی کرنے والی سیاسی قوتوں کا ملاپ، باہمی توتکار یا کچھ لو کچھ دو کی پالیسی عوام کے جان ومال، عزت و آبرو کے تحفظ اور ملک کی سلامتی کے لئے مفید ہے ۔ ساڑھے چار سال کا تلخ تجربہ قوم کے لئے کافی ہے ۔ کراچی میں عوامی نمائندگی کی دعویدار تینوں جماعتوں نے مل جل کر کوئی مسئلہ حل نہیں کیا پہلے سے موجود مسائل کی سنگینی میں اضافہ ضرور کیا ہے ۔
قیام امن کی کامیاب ترکیب وہی ہے جو عرصہ دراز سے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان پیش کر رہے ہیں ” امن کو موقع دو “ جو پارلیمینٹ سے منظور ہونے والی ایک متفقہ قرارداد کا سرنامہ بھی تھا ۔ حالیہ دنوں میں میاں نواز شریف نے بھی جزوی طور پر اس سے اتفاق کیا ہے ۔
(1)دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ سے مکمل علیحدگی تاکہ ہم پر چسپاں عالمی استعمار کے آلہ کارکا لیبل ہمارے خلاف کارروائی کی وجہ جواز نہ بن سکے(2) پاکستان دشمن عسکری گروپوں کی نشاندہی اور انہیں دیگر گروپوں سے الگ تھلک کرکے عوامی تائید و حمایت کے ساتھ نمٹنے کی حکمت عملی (3) فرقہ واریت کے خاتمے کے لئے تمام مسالک کا تعاون جس کی طرف ایرانی صدر احمدی نژاد نے بھی اشارہ کیا ہے(4) ہم سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے عسکری ونگز کا مکمل خاتمہ اور ان جرائم پیشہ عناصر سے قانون کے مطابق سلوک (5) انتظامیہ اور پولیس کو سیاسی اثرورسوخ اور دباؤ سے مکمل طور پر آزاد کرکے قانون شکن جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف بلاامتیاز و تفریق کارروائی، قیادت شعیب سڈل، ذوالفقار چیمہ اور طارق کھوسہ جیسے ایماندار ، سمجھ دار، دبنگ اور پیشہ ور پولیس افسر کریں (6) کسی سیاسی اور مذہبی جماعت کو نہ تو ان جرائم پیشہ عناصر کے حق میں بیان بازی کی اجازت ہو اور نہ انہیں اپنا کارکن ظاہر کرکے رو رعایت کا مطالبہ کر سکیں ۔
قومی ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو قبل از وقت اعتماد میں لیکر اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ ان جرائم پیشہ، دہشت گرد اور تخریب کار عناصر کے واویلا اور شوروغوغا کو کسی قسم کی پذیرائی نہ بخشیں اور اس قومی محاذ کے لئے ریاستی اداروں کا خوش دلی سے ساتھ دیں ۔
مگر یہ کام کون کرے، قومی لٹیرے، بھتہ خور، اغواء برائے تاوان کے مجرموں کے سرپرست مسلح گروہوں کے آقائے ولی نعمت اور امریکہ و برطانیہ کی خوشنودی کے طلبگار تو یہ کام کرنے سے رہے۔ نہ یہ ان کے بس میں ہے اور نہ وہ اس پر آمادہ ؟ یہ تو مفاہمتی پالیسی سے بھی متصادم ہے تو پھر کیا ملک میں مزید خونریزی، خانہ جنگی، سیاسی و سماجی ڈھانچے کے انہدام اور معاشی و اقتصادی تباہی کا انتظار کیا جائے۔ نیوکلیئر اسلامی ریاست کو صومالیہ اور روانڈا میں تبدیل ہوتے دیکھتے رہیں اور کچھ نہ کریں، کچھ نہ بولیں، حکومت نے تو 6اور 7محرم کو ڈی ایٹ کانفرنس بلا کر دوست ممالک کے سربراہان کے سامنے اپنی نااہلی اور ناکامی کا پردہ فاش کیا جو اس کی دانشمندی اور خداداد بصیرت کا ثبوت ہے مگر کیا قوم اور اس کے دکھ درد کو صدق دل سے محسوس کرنے والی سیاسی و مذہبی قیادت کو بھی بے بسی، بے حسی اور سنگدلی کا یہ مظاہرہ زیب دیتا ہے ؟ کیا موجودہ خطرناک ، تباہ کن اور غلامانہ خارجی و داخلی، اقتصادی و معاشی ، سیاسی و سماجی پالیسیوں کی تبدیلی اور صاف ستھرے کردار، عوامی حکومت کا شاندار ریکارڈ اور جرات و بے باکی کا عظیم سرمایہ رکھنے والی کوئی ویژنری قیادت اس قوم کا حق نہیں جو پینسٹھ سال سے جدوجہد کر رہی ہے قربانیاں دے رہی ہے اور ہر ستم سہہ کر بھی پاکستان کی سلامتی، بقاء اور آزادی کے لئے دعا گو ہے اور اچھے دنوں کے انتظار میں ہر برے حکمران کو صبر وشکر سے برداشت کرتی رہی ہے مگر اب شائد اس کا پیمانہ صبر لبریز ہونے کو ہے ۔
تازہ ترین