• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ نے کچھ عرصہ سے پاکستان کیساتھ جو رویہ اپنا رکھا ہے اور اسے طفیلی ریاست بنانے کے لئے وہ جس طرح کے معاندانہ اقدامات کر رہا ہے،پوری پاکستانی قوم اسے انتہائی ناپسندیدگی کی نظروں سے دیکھ رہی ہے ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ امریکہ سے باہمی تعلقات عزت واحترام اوربرابری کی سطح پر آگے بڑھانے کے لئے نئے سرے سے قومی ترجیحات کا تعین کیاجائے،وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے اس حوالے سے اتوار کو اپنی پریس کانفرنس میں حکومت کادوٹوک موقف دنیا کے سامنے پیش کردیا ہے۔ان کاکہنا ہے کہ امریکہ سے پاکستان کے تعلقات تقریباً معطل ہیں۔پچھلی حکومت کا کسی بھی سطح پر امریکہ سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔امریکی وزیرخارجہ 5ستمبر کو پاکستان آرہے ہیں،ہم ان کانقطہ نظر سنیں گے اوراپنا موقف ان کے سامنے رکھیں گے۔اس طرح اپنے مفادات کوملحوظ رکھتے ہوئے ہم نے اب دوطرفہ تعلقات کانیا آغاز کرنا اور عدم اعتماد سرد مہری اورکشیدگی کی فضا کم کرنا ہے۔وزیرخارجہ نے امریکہ کی جانب سے پاکستان کو واجب الادا30کروڑ ڈالر فراہم نہ کرنے کے حالیہ فیصلے کے متعلق کہا کہ یہ رقم کوئی امداد نہیں تھی۔یہ کولیشن سپورٹ فنڈ کاحصہ تھی جو ہم مشترکہ مقاصد یعنی علاقے میں امن واستحکام کے حصول اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے خرچ کرچکے ہیںامریکہ ہمیں اس رقم کی ادائیگی کاپابندہے۔امریکی وزیرخارجہ سے دیگر امور کے علاوہ اس ایشو پر بھی بات ہوگی۔یہ امرقابل ذکر ہے کہ امریکہ نے کولیشن سپورٹ فنڈسے دہشت گردی کے خلاف خرچ ہونے والی رقم پہلی مرتبہ نہیں روکی۔اس سے قبل سال رواں کے آغاز میںاسی مد میں پہلے ہی وہ50کروڑڈالر کی ادائیگی روک چکا ہے گویا مجموعی طور پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے80کروڑ ڈالرپاکستان کو اداکرنے سے منکر ہوچکا ہے۔اس حقیقت کو ساری دنیا تسلیم کرتی ہے کہ افغانستان سے شروع ہونے والی دہشت گردی کی سترہ سالہ جنگ میں سب سے زیادہ جانی اورمالی نقصانات پاکستان نے اٹھائے ہیں۔امریکہ اورنیٹو کے 32ممالک جوکام افغانستان میں نہ کرسکے اورآج بھی اس کا80فیصد رقبہ افغان طالبان کے قبضے میںہے وہ پاکستان نے اپنے علاقے میں دہشت گردوں کاصفایا کرکے دکھادیا۔اس کے باوجود امریکہ پاکستان سے ’ڈومور‘کا باربار تقاضا کرتا ہے۔اس کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کاکوئی گروپ پاکستان میںچھپاہوا ہے اوروہاں سے افغانستان میں کارروائیاں کرتا ہے۔اسے ختم کیا جائے یاافغانستان میں دھکیل دیاجائے جبکہ پاکستان کہہ چکا ہے کہ اس کے کسی بھی علاقے میںافغان دہشت گردوںکا کوئی وجود نہیں۔امریکہ کے پاس اس سلسلے میں ٹھوس شواہد ہیں تو بتائے مگر وہ کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکا۔دراصل امریکہ میں ایک ایسی لابی ہے جو بھارت کے ایما پر پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے سرگرم عمل ہے۔اس لابی کامقصدافغانستان میں بھارت کو کرداردلوانا اورپاکستان کو زک پہنچانا ہے حالانکہ افغانستان میں بھارت کاکوئی کردار کسی بھی حوالے سے بنتا ہی نہیں۔افسوس کامقام یہ ہے کہ امریکہ اس معاملے میں پاکستان کی قربانیوں کو یکسر نظر انداز کررہاہے۔اس کایہ طرز عمل عالمی برادری میں بھی اس کی ساکھ کوبری طر ح متاثر کررہاہے۔دنیا سمجھ چکی ہے کہ امریکہ ایک ناقابل اعتبار ملک ہے۔اس نے ایران سے نیوکلیئر معاہدہ منسوخ کرکے،ترکی پرپابندیاں لگا کر اورشمالی کوریا سے سمجھوتے کی پاسداری نہ کرکے سپرپاور کے طورپر اپنی ساکھ گنوادی ہے۔ترک صدر رجب طیب اردوان کو کہنا پڑا کہ امریکہ کارویہ جنگلی بھیڑیے جیساہے۔اس پر اعتبار نہیں کرنا چاہئے۔ پاکستان نے گزشتہ 71سال میں امریکہ سے دوستی کی بھاری قیمت چکائی وہ آج بھی افغانستان میں امن کیلئے قربانیاں دے رہاہے جس کاامریکہ کو ذرہ برابر احساس نہیں۔وقت آگیا ہے کہ امریکہ سے رشتہ قائم رکھنا ہے تو پارلیمنٹ کواعتماد میں لے کر حکومت قومی ترجیحات کے مطابق جرأت مندانہ فیصلے کرے امریکہ سے پاکستان کا رشتہ ایک آزاد اور خودمختار ملک جیسا ہونا چاہئے۔

تازہ ترین