وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز ہری پور میں پودا لگاکر انتخابات سے پہلے کئے گئے وعدے کے مطابق ’ٹین بلین ٹری‘ نامی شجرکاری مہم شروع کردی اور یوں ایک بڑی قومی ضرورت کی تکمیل کی جانب پیش رفت کا آغاز ہوگیا۔ اس موقع پرانہوں نے سنگین حقائق کی نشان دہی کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے گلیشیر پگھل رہے ہیں، گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی آلودگی سے متاثر ہونے والے ملکوں میں ہم ساتویں نمبر پر ہیں اور شجرکاری نہ کی گئی تو ہمارا ملک ریگستان بن جائے گا۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ ہولناک صورت حال پچھلے چند عشروں کے دوران ملک کے شہری علاقوں میں کنکریٹ کے جنگلات کے برق رفتاری سے اگتے چلے آنے اور درختوں کی شکل میں ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کے قدرتی نظام کو بے رحمی کے ساتھ پامال کرنے کا نتیجہ ہے تاہم پانچ سال میں دس ارب درخت لگانے کا ہدف حاصل کرلیا گیا تو بہتری یقینی ہے۔لیکن کسی بھی منصوبے میں کامیابی حقیقت پسندانہ طرز فکر ہی سے ممکن ہے۔ شجرکاری کی اس مہم کے بارے میں ابتدائی اعلانات سے تاثر یہ تھا کہ نئی حکومت یہ عظیم الشان منصوبہ اپنے پہلے سودنوں ہی میں مکمل کرنے کا عزم رکھتی ہے۔تاہم یہ امر قابل اطمینان ہے کہ تازہ اعلانات کے مطابق اس مقصد کے لیے پانچ سال کی مدت طے پائی ہے۔ لیکن اس کا مطلب بھی یہ ہے کہ ہرسال دو ارب پودے لگائے جائیں گے یعنی اگر سال کے پورے 365 دن بھی مہم چلتی رہے تو ہر روز 54 لاکھ 79ہزار 452 یا فی گھنٹہ دو لاکھ 28 ہزار310پودے لگانے ہوں گے، کیا یہ ممکن ہے؟ پھر اس مہم کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے محض پودوں کو زمین میں لگادینا ہی کافی نہیں بلکہ ان کی اس وقت تک پوری دیکھ بھال بھی ضروری ہے جب تک ان کی جڑیں مضبوط نہ ہوجائیں۔لہٰذا بہتر ہے کہ مہم کی ابتداء ہی میں جائزہ لے لیا جائے کہ کیا پانچ سال تک فی گھنٹہ سوا دولاکھ سے زیادہ پودے لگانے کا یہ ہدف قابل عمل ہے ؟ اور اگر اس میں تبدیلی حقیقت پسندی کا تقاضا ہو تو ابھی کرلی جائے تاکہ بعد میں قوم مایوسی اور حکومت شرمندگی سے بچ سکے۔