• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سنا جا رہا ہے کہ آج چار ستمبر کو صدارتی انتخاب ہو رہا ہے۔ صدر پاکستان کے منصب کے لیے تین امیدوار میدان میں کھڑے ہیں۔ ایک طرف حکومتی جماعت کا مضبوط و محفوظ امید وار ہے تو دوسری جانب متحدہ حزب اختلاف کے دو امیدوار ایک پیپلز پارٹی جس نے خود کو حزب اختلاف سے الگ کر لیا ہے تو دوسری جانب حزب اختلاف کے مشترکہ امیدوار، ان دونوں کے ووٹ کی قوت آپس میں مقابلہ کرنے سے ٹوٹ رہی ہے جب کہ حکومتی امیدوار کو اپنی جماعت کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ حزب اختلاف نے وزارت عظمی کے انتخاب میں جس طرح شکست کھائی ہے اس بار پھر وہی کچھ ہونے جا رہا ہے لیکن اتنے مدبر اور مفکر سیاست دانوں کے اس جھرمٹ میں کوئی ملکی مفاد میں حکمران جماعت سے تعاون حاصل کرنے اور یک جہتی کے لیے تیار نہیں، متحدہ مجلس عمل یا متحدہ حزب اختلاف نے تو طے کرلیا ہے کہ حکمرانوں کو سخت مشکلات سے دو چار کرنا ہے۔ ایسا ہی رویہ حکمراں جماعت کے با اختیار و اقتدار کارکنان کی طرف سے نظر آرہا ہے۔ حکمراں جماعت کے رویوں سے ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے وہ سابقہ حکمرانوں سے اپنی محرومی اور شکست کا انتقام لینے پر کمر بستہ ہوں، جب کہ حکمراں جماعت کے سربراہ وزیر عظم عمران خان کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ہمیں ماضی کو بھلا کر آگے بڑھنا ہے لیکن ان کے وزرائے کرام اپنی کار کردگی دکھانے کے لیے سابقہ حکمرانوں کے اعمال باطنی و ظاہری کو ہوا دے رہے ہیں۔ وطن عزیز کے عوام نے عمران خان اور تحریک انصاف سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرلی ہیں اور خود عمران خان صاحب نے اپنی پہلی تقریر میں جو نکات عوامی مفادات کے بیان کئے ان سے بھی بہت زیادہ مثبت تاثر عوام میں پیدا ہوا ہے، لیکن دو ڈھائی ہفتے گزرنے کے باوجود ایسا کچھ نہیں سامنے آرہا جس کی عوام وزیر اعظم عمران خان سے توقع کر رہے ہیں۔ اگر انتظامی معاملات حکمرانی کو سمجھا جائے تو بہت سی توقعات کو پورا ہونے میں جو وقت لگ رہا ہے وہ غلط نہیں ہے۔ جہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہو جو نوکر شاہی اب تک من مانی یا حکمرانی کرتی رہی ہو وہ ایک دو ہفتوں میں تو کیا ایک دو سالوں میں بھی درست ہوجائے تو بڑی بات ہے کوئی ادارہ چاہے وہ نوکر شاہی سے متعلق ہو یا اسٹیبلشمنٹ سے جو لوگ حکومتوں اور حکمرانوں کو اپنی انگلیوں پر نچاتے رہے ہوں وہ کیسے اور کس طرح اب نئے حکمرانوں کی انگلیوں پر ناچ سکتے ہیں۔ ابھی وہ اپنا پورا زور صرف کر رہے ہیں کہ نئے آنے والے حکمرانوں کی اس طرح سے نہ چلے جس طرح وہ چاہ رہے ہیں۔ عمران خان نے بہت سوچ سمجھ کر اپنے خیالات اور آئندہ کے پروگرام بتائے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ وہ اپنے ارادوں کو پورا ہوتے دیکھیں۔ ان کے اخلاص اور دیانت پر کسی کو کوئی شک نہیں، لیکن ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ کپتان نے اپنی ٹیم تو منتخب کرلی لیکن فیلڈ میں اتارنے میں پوری طرح اپنے اختیار کو استعمال نہیں کیا، حالانکہ وہ خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ جب کوئی نیا کھلاڑی فیلڈ میں اتارا جاتا ہے تو اسے پوری طرح چھان پھٹک لیا جاتا ہے لیکن خان صاحب کی ٹیم کے وزراء جو پہلی بار فیض یاب ہوئے ہیں انہیں اول تو آداب وزارت نہیں معلوم، ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ سیر کی ہانڈی میں پانچ سیر ڈال دیا گیا ہے جو چار سیر زائد ہے وہ ابل کر باہر آرہا ہے۔ وزیر بنتے ہی اچھے اچھے حواس باختہ ہوگئے ہیں۔ بوکھلاہٹ کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان بے چاروں کو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ وزارت نہیں ملی بلکہ انہیں جاگیر الاٹ ہوگئی ہے جس کے سیاہ سفید کے وہ مالک و مختار ہیں۔ اس لیے ہی ان کے رویوں میں فرعونیت آرہی ہے۔ وزراء تو وزرا ارکان قومی و صوبائی اسمبلی بھی جو پہلی بار کامیاب ہوئے ہیں وہ آپے سے باہر ہوئے جا رہے ہیں، کچھ تو وزارت کے حصول کے لیے مختلف اندازوں سے بلیک میل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں شاید ان کا خیال ہے کہ اگر اس طرح عمران خان صاحب پر دبائو نہ ڈالا جائے تو وہ سیدھی انگلیوں سے گھی نکالنے نہیں دیں گے اس لیے کھل کر مخالفت میں مخاصمت میں بیان بازی کر رہے ہیں، جب انہیں منانے اور راضی کرنے کی کوشش کی جائے گی تو وہ اپنے احساس محرومی کا شکوہ کریں گے کہ ہم نے اتنی محبت سے اتنی محنت کی اور انہیں وزارت میں نظر انداز کردیا گیا۔ حالانکہ دوسروں سے ہمارا حق فائق ہے۔ ابھی چونکہ صدارتی انتخاب ہونا ہے تو تحریک انصاف کی کور دب رہی ہے، یہی موقع ہے دبائو ڈالنے اور وزارت حاصل کرنے کا۔ وزیر اعظم پاکستان اور تحریک انصاف کے سربراہ کو چاہیے کہ تمام ارکان پارلیمنٹ جو ذاتی مفاد کے لیے تحریک انصاف کے مؤقف کو پامال کر رہے ہیں انہیں یک جنبش قلم پارٹی بدر کردینا چاہیے۔ جہاں ضمنی انتخابات اتنی نشستوں پر ہو رہے ہیں وہیں دو چار دس کے ضمنی انتخابات ہونا کیا مشکل ۔ عمران خان صاحب کو اپنے خیالات و افکار کو پورا کرنے کے لیے بڑی محنت و جدوجہد کرنی پڑے گی۔ وہ اگر یونہی لوگوں کی باتوں اور دبائو میں فیصلہ کریں گے تو انہیں حکومت چلانا مشکل ہوجائے گی۔ ان کے مد مقابل ہر معاملے ہر کام میں ٹانگ اڑانے اور ہر کام میں نقص نکالنے کے لیے متحدہ اپوزیشن جو بھان متی کے کنبے کی مانند ہے لیکن حکومت مخالفت میں کوئی کسی سے پیچھے نہیں رہے گا سب کے منہ کو اقتدار کا لہو لگا ہوا ہے اس بار شفاف الیکشن کے باعث سب خاندانی سیاست کارگھر بٹھا دیے گئے ہیں وہ اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح پھر وہ مسند اقتدار حاصل کر سکیں اس لیے وہ تمام یقیناً ضمنی انتخابات میں حصہ لیں گے اور کامیاب ہونے کی پوری کوشش کریں گے ۔ وزیر اعظم عمران خان اگر اپنے وزرا اور تمام منتخب ممبران کو پابند کردیں کہ کوئی کسی قسم کے رد عمل کا اظہار نہیں کرے گا سوائے متعلقہ اور مناسب فورم کے جو وزیر اعظم کی طرف سے با اختیار ہو۔ اب جبکہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کی تقدیر ان جابر حکمرانوں سے چھڑا کر ایک مخلص وطن کے سپرد کردی ہے تو یہ ان سے ہضم نہیں ہو رہا ان کی نہ صرف روزی روٹی ان سے چھن چکی ہے بلکہ انتخابات نے تو ان کی جمع پونجی بھی چھین لی اب رہ گئے وہی ڈھاک کے تین پات کھسیانی بلی کھمبا نوچے کی مانند ان سب کا بس نہیں چل رہا کہ عمران خان اور ان کی جماعت کے تخت کا تختہ کردیں لیکن اللہ جسے رکھے اسے کون چکھے، اللہ یقیناً پاکستان کا اہل پاکستان کا بہتر چاہ رہا ہے اللہ پاکستان کا اور اہل پاکستان کا حامی و ناصر ہو، آمین۔

تازہ ترین