• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ سے پیوستہ ماریہ اور میںباتیں کرتے کرتے (wieliczka salt mine ) کے لکڑی سے 6 ،6 کی ترتیب سے بنے 8 سو پائیدانوں کے ذریعے 135 میٹر گہرائی میں ایک بڑے ہال کے اندر داخل ہوتے ہیں۔ یہاں دنیا بھر سے آئے سیاح دکھائی دے رہے ہیں، چاروں طرف چھوٹی چھوٹی خوبصورت دکانیں ہیں، جہاں آپ کولڈ ڈرنکس، کھانے پینے کی اشیاء اور سوینئرز خرید سکتے ہیں۔ ہم دونوں لکڑی کے بنے ایک بینچ پر بیٹھ جاتے ہیں۔ ماریہ سکوت توڑتے بولتی ہے تم کیسے لوگ ہو؟ دنیاتم سے رشتے ناطے جوڑنا چاہتی ہے اور تم لوگ اس سے دور بھاگتے ہو۔ ابھی دیکھو نا برطانیہ کی رہنے والی پولش سیاح لڑکی ایوازوبیک جو کئی بار پاکستان جا چکی ہے اس نے 14اگست کو اپنے کاندھوں پر پاکستان کا قومی پرچم اوڑھا اور دنیا کا مشہور ترین گانا (ki ki do you love me) گایا مگر تم لوگوں نے اس ویڈیو کے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے پراتنا شور مچایا کہ ہمارے پرچم کی بے حرمتی ہوگئی ہے۔ کیا تم نہیں جانتے کہ یہ خوشی اور محبت کا ایک اظہار ہوتا ہے اورتمہیں اس کا احساس ہونا چاہئے۔ماریہ مجھے پولینڈ کی تاریخ بتانا چاہتی ہے میں اسے دیکھنا چاہتا ہوں، پیار بھری باتیں کرنا چاہتا ہوں، وارسا اور کراکو کے پارکوں میں نوجوان جوڑوں کی خرمستیاں شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ وہ مجھے بتانا چاہتی ہے کہ ہمارے ہاں wilonow palace ،Lozienki park ،Wislariver ،Wawel castle-state rooms کا تاریخی ورثہ ہے اور ہم نے تباہی کے بعد کیسے ترقی کی۔ وہ اپنے ملک کی دوسری جنگ عظیم میں تباہی کی نشانیاں دکھانا چاہتی ہے۔ وہ مجھے بتانا چاہتی ہے کہ ہمارے ملک کی سرحدیں سات ممالک کے ساتھ ملتی ہیں اوریہاں یہودیوں کی بستیاں (Ghetto ) آباد تھیں اور یہیں پر یہودیوں کا قتل عام (ہولوکاسٹ) ہوا۔ آج بھی لوگ تباہی کی یہ نشانیاں دیکھنے آتے ہیں۔ ہمارے درودیوار پر لگی گولیوں اور گولوں کے نشان ہم نے اس لئے محفوظ کر رکھے ہیں کہ دنیا اس تباہی سے سبق سیکھے، نادم ہو اور مستقبل میں کوئی قوم جنگ کے ہاتھوں اس طرح تباہ و برباد نہ ہو۔ وہ کہہ رہی تھی کہ وارسا ، کراکو کے عالی شان محلوں میں آج کوئی مکین نہیں ہے۔ سب اس دنیا سے گزر گئے مگر اچھے کام کرگئے تو دنیا کے کونے کونے سے لوگ ان یادگاروں، قلعوں اورعالی شان محلوں کی سیر کرنے آتے ہیں۔ وہ صرف سیرو تفریح نہیں کرتے بلکہ یہاں سے سبق سیکھ کر جاتے ہیں، عبرت حاصل کرتے ہیں اور امن کا پیغام لے کر واپس جاتے ہیں۔ ماریہ کہنے لگی یہ وہی ملک ہے جس میں فزکس، کیمسٹری میں نوبل انعام یافتہ مادام میری کیوری پیدا ہوئیں، پولش لوگ یہ سمجھتے ہیں اس عظیم خاتون نے جنگ عظیم اول میں تابکاری پر تحقیق کے بعد ایکسرے مشین ایجاد کی اور جراحی کی دنیا میں انقلاب برپا کرکے دنیا پر احسان عظیم کیا ہے اور پولینڈ کو صحیح معنوں میں دنیا میں ایک پہچان دی ہے۔

میں ماریہ کی باتیں سن کر سوچوں میں گم ہوگیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ جو قومیں اپنی تاریخ کو یاد نہیں رکھتیں، اپنے تاریخی ورثے کی حفاظت نہیں کرتیں اور جو اپنے ہیروز کی قربانیوں اور جدوجہد کو بھول جاتی ہیں وہ قومیں تاریخ کے صفحات سے مٹ جاتی ہیں۔ ان کی دنیا میں کوئی شناخت باقی نہیں رہتی۔ پاکستان کا المیہ یہی ہے کہ ہم نے اپنی تاریخ کی حفاظت نہیں کی، ہمیشہ اسے مسخ کیا ، اپنے تاریخی ورثے کو ترقی کے نام پر اورنج لائن، میٹرو بس جیسے منصوبوں کی بھینٹ چڑھا دیا۔ ہمارے زوال کی داستاں یہیں سے شروع ہوتی ہے۔ جن قوموںنے اپنے تاریخی ورثے کی حفاظت کی ، اپنے ہیروز کو عزت و احترام دیا وہیں سے ان کے عروج کا آغاز ہوتا ہے۔ ہم وہ بدقسمت قوم ہیں جس نے اپنے قابل قدر ایٹمی سائنس دانوں، کھلاڑیوں،سماجی و سیاسی شعبوں میں پاکستان کا نام روشن کرنے والوں کو عزت دینے کی بجائے ان کی تذلیل کی ، ان پر طرح طرح کے الزامات لگائے اور ایسے تنازعوں میں الجھا دیا کہ خدا کی پناہ۔ نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام، ڈاکٹر عبدالقدیر سے نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی تک کواپنی منفی سوچوں کی سولی چڑھا دیا۔ اگر ہم اپنے تاریخی ورثے اور ان ہیروز پر ناز کرتے، ان کی خدمات کو مثبت انداز میں دنیا تک پہنچاتے تو آج ہم یقیناً دنیا میں ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑے ہوتے۔ ہم کنگال مگر ذہنی طور پرشاہ خرچ لوگ ہیں، لاپرواہی، کینہ پروری، بغض، حسد ، لالچ اور ہر طرح کی کرپشن ہمارے سماج کا حصہ بن چکی ہے۔ کاش ہم اپنے ماضی سے کچھ تو سبق سیکھیں۔ یہاں وزیراعظم عمران خان وزیراعظم ہائوس اگر خالی کرنا ہی چاہتے ہیں تو اسے نئے پاکستان کا تاریخی ورثہ قرار دے کر ایسا عجائب گھر بنا دیں جو آنے والے حکمرانوں کو اپنے ثقافتی حصار میں لے کر سادگی اور کفایت شعاری کا پیغام دے۔ اس عجائب گھر میں پرانے پاکستان کے زوال اور نئے پاکستان کی بنیاد کی وہ نشانیاں رکھیں جس سے نہ صرف پوری قوم بلکہ دنیا دیکھ کر سبق حاصل کرے۔ اس عجائب گھر پر ایک سو روپیہ ٹکٹ لگا دیں اور ساری عمر کے لئے اس تاریخی ورثے کوقومی آمدن کا ذریعہ بھی بنالیں۔ میں نے پولینڈ میں قیام کے دوران یہی دیکھا ہے کہ اس قوم نے اپنی تاریخ کو سلسلہ وار محفوظ کرکے نہ صرف اپنی تاریخ اور ورثہ کی حفاظت کی بلکہ اسے اربوں روپے آمدن کا ذریعہ بھی بنا لیا۔ ماریہ نے مجھے خیالوں میں گم دیکھا تو اچانک میرے کندھے کو ہلاتے ہوئے کہنے لگی چلو لفٹ کے ذریعے واپس چلتے ہیں، نمک کی کان سے باہر نکلتے ہی ماریہ نے کہا بنچ پر بیٹھا ایک لڑکا اپنی گرل فرینڈ کا سر شانوں پر رکھے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتا دیکھو، لوگ اس کے پاس سے گزر رہے ہیں ہر کوئی اپنی دنیا میں مگن ہے مگر میں نے نوٹ کیا کہ تم نے کئی بار کن اکھیوں سے ان کی طرف دیکھا۔ یہ اچھی بات نہیں۔ میں مسکرایا اور کہا تم بڑی چالاک ہو میری کن اکھیوںکا بھی نوٹس لے لیا۔ پھر میں نے اس سے کہا میرے ہم سفر مزید پندرہ افراد میں تین ہنسوں کے جوڑے (میاں بیوی) ایک خاتون اسکول ٹیچر اور باقی ہم ’’سنگل‘‘ ہیں، ہم گزشتہ رات سے کراکو کے جس فائیو اسٹار ہوٹل میں ٹھہرے ہیں وہ بڑا خوبصورت ہے اور اس کے استقبالیہ پر کافی ، چائے اور باداموں والا دودھ ہر مہمان کے لئے چوبیس گھنٹے مفت دستیاب ہے اور یہ سہولت پہلے دن تو کھلے دل سے میسر تھی مگر آج جب میں تمہیں ملنے آیا ہوں تو دیکھا کہ کم از کم دودھ تو انتظامیہ نے رکھنا بند کر دیا ہے۔ کوئی خاص وجہ تو نہیں بتائی گئی مگر مجھے معلوم ہے کہ ہم نے وہاں ’’ہونجا‘‘ پھیر دیا ہے۔ (سارے دودھ کا صفایا کر دیا ہے) کیونکہ خالص دودھ پاکستان میں کہاں میسر ہے۔ ہم تو کیمیکل ملا دودھ پینے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ہم بے صبروں کو جب یہ خالص نعمتیں ملی ہیں تو کچھ باقی نہ چھوڑا اور پانی کی طرح دودھ پیا۔ ماریہ میری باتیں سن کر حیران ہو رہی ہے اور میں اسے کہہ رہا ہوں کہ مجھے کل برلن (جرمنی) جانا ہے تم بھی میرے ساتھ چلو۔ ماریہ مسکرائی اور کہنے لگی کہ میں قدم بہ قدم تمہارے ساتھ ہوں، اسکی دلفریب مسکراہٹ نے مجھے جنبش دی اور میں نے خیالوں ہی خیالوںمیں جفاکش جرمنوں کے دیس کی طرف قدم بڑھا دیئے۔(جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین