• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئین میں اٹھارویں ترمیم اور 58ٹوبی کے تحت ملنے والے اختیارات ختم ہونے کے نتیجے میں رہ جانے والے محدود اختیارات کے باوجود صدارت انتخابات کی کیا اہمیت ہے، اس کے باوجود آج ہونے والے انتخابات کے حوالے سے بڑے پیمانے پر سیاسی سرگرمیاں دیکھی جارہی ہیں۔ محدود اختیار ات کے باوجود پی ٹی آئی کے امیدوار کے پاس آج کا انتخاب جیتنے کا ہر موقع موجود ہے۔ ڈاکٹر عارف علوی اپنے پیش رو ممنون حسین کے مقابلے میں زیادہ مستعد کردار ادا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ٓآج ہونے والا انتخاب جیتنے کے حوالے سے پراعتماد ڈاکٹر عارف علوی نے اس نمائند ے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ نہ تو آصف زرداری بنیں گے نہ ممنون حسین۔ حزب اختلاف میں تقسیم کے بعد صدارتی انتخاب یکطرفہ معاملہ رہ گیا ہے، پی پی رہنما اعتزاز احسن نے کاغذات نامزدگی جمع کرادیئے ہیں جبکہ دوسری جانب ن لیگ نے ان کا نام مسترد کردیا اور پی پی کے علاوہ کی متحدہ اپوزیشن نے مولانا فضل الرحمن کو امیدوار نامزد کیا ہے۔ صدارتی انتخاب کا الیکٹرول کالج قومی اسمبلی، سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں پر مشتمل ہے، پی ٹی آئی واحد پارٹی ہے جس کے اس الیکٹرول کالج میں ہرجگہ ووٹ ہیں، 65اراکین پر مشتمل سب سے چھوٹی بلوچستان اسمبلی کی نسبتسے ہر اسمبلی کے 65ووٹ ہوں گے۔ اگر حزب اختلاف متحد ہو جاتی اور آزاد امیدواروں کی حمایت حاصل کرلیتی تو الیکشن زیادہ دلچسپی سے لڑے جاسکتے تھے ، ایسا نہ ہوا اور چیئرمین سینیـٹ، وزیر اعظم کے انتخابات کی طرح صدارتی انتخاب کے موقع پر بھی حزب اختلاف مختلف پیج پر ہیں۔ اس ـصورتحال سے پی ٹی آئی اور وزیر اعظم عمران خان کو سیاسی فائدہ اور حوصلہ ملااور اندرونی مسائل اور بعض موقع پر فیصلہ سازی میں مشکلات کے باوجود حکومت کو تقسیم شدہ حزب اختلاف سے کوئی سنجیدہ خطرہ نہیں۔ صدارتی انتخابات اس حوالے سے اہمیت اختیار کر گئے ہیں کہ عام انتخابات کے بعد کی صورتحال میں حزب اختلاف بالخصوص ن لیگ اور پی پی کے مابین اختلافات میں مزید شدت آنے کا امکان ہے، اگرچہ اپوزیشن میں اتحاد کے لئے آخری لمحوں میں بھی کوششیں جاری ہیں تاہم ڈاکٹر عارف علوی کی شکست کا امکان تقریباً صفر ہے۔ یہ سمجھا مشکل نہیں کہ پی پی یا سابق صدر آصف زرداری نے اپنے موقف میں کیوں لچک نہیں دکھائی اور جو کچھ انہوں نے چئرمین سینیٹ کے انتخاب کے موقع پر کیا وہی صدارتی انتخاب کے موقع پر بھی کیا، یہی زمینی صورتحال ہے۔ اب یہ صورتحال کراچی سے پی ٹی آئی کے تجربہ کار رہنما کے لئے واک اوور کی طرح ہے جو کراچی سے ہی ن لیگ کے ممنون حسین کی جگہ لیں گےاگر پولنگ سے کچھ دیر قبل کوئی ڈرامہ وقوع پزیر نہ ہوجائے۔ تاہم یہ پی ٹی آئی اور وزیر اعظم عمران خان کے لئے ایک اور سنگ میل ثابت ہوگا کیوں کہ پہلی دفعہ پارٹی امیدوار سربراہ مملکت بنیں گے اور اس طرح 25جولائی کو شروع ہونے والا پارلیمانی عمل مکمل ہو جاے گا۔ پی ٹی آئی اور ان کے اتحادی مرکز اور سندھ کو چھوڑ کر تین صوبوں میں مضبوط پوزیشن میں ہیں۔اس صورتحال سے ممکنہ صدر عارف علوی کو امید ملتی ہے جو اپنے پیش رو ن لیگ کے ممنون حسین کے مقابلے میں زیادہ مستعد کردار ادا کرنا چاہتے ہیں جبکہ انہیں پتہ ہے کہ اگر منتخب ہو گئے تو وہ پارٹی سربراہ نہیں بلکہ پاکستان کے سربراہ اور وفاق کی علامت ہوں گے، وہ تمام پارٹیوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ صدارتی معافی اور وفاقی اور ٹیکس محتسب میں اپیلوں کے اختیارات کے علاوہ ڈاکٹر عارف علوی چاہتے ہیں کہ صدر کو کسی بھی قانون سازی کو قومی اسمبلی بھیجنے سے قبل دیکھنا چاہیئے اور وزارت قانون کو اپنی رائے سے آگاہ کرنا چاہیئے۔ اس کے علاوہ کچھ اور بھی شعبے ہیں جن میں مستقبل کے صدر کردار ادا کرنے کے خواہشمند ہیں۔ تاہم، بھارتی جاسوس کلبھوشن کے حوالے سے صدارتی معافی جیسے بعض حساس کیسز میں انہوں نے عندیہ دیا کہ وہ چیف ایگزیکٹو اور حکومت سے رہنمائی لیں گے۔

تازہ ترین