• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

چشمہ پہن رکھا تھا

اس ہفتے کے’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی، مجیب الرحمٰن صدیقی اور محمود میاں نجمی کے مضامین پڑھ کر دل خوش ہوگیا۔ سنڈے اسپیشل میں طلعت عمران اور رائو محمّد شاہد اقبال فٹ بال ورلڈ کپ کے ساتھ موجود تھے، تو اشاعتِ خصوصی میں طاہر حبیب نے آبی بحران پر بہت اچھی معلومات فراہم کیں۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں میرے پسندیدہ لکھاری، منور مرزا نے افغانستان پر بہترین رپورٹ لکھ کر دیرینہ آرزو پوری کردی۔ ڈاکٹر قمر عباس ’’لازم و ملزوم‘‘ میں سیّد سجاد ظہیر کے ساتھ آئے۔ میں نے سیّد سجاد ظہیر کو زیادہ نہیں پڑھا، بلکہ بالکل ہی نہیں پڑھا، تو یہ مضمون کم از کم میرے لیے تو بہت ہی معلوماتی ثابت ہوا اور سرِورق نے تو اس بار چشمہ پہن رکھا تھا۔ بہر حال، ماڈل اور سن گلاسز دونوں ہی پسند آئے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کی کہانی بھی اچھی رہی اور ڈاکٹر اطہر رانا کے اقوال بھی اچھے تھے۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

اصل نام سے…

عرصۂ دراز بعد آپ کی بزم کا حصّہ بن رہا ہوں۔ قوی امید ہے کہ خط، قارئینِ سنڈے میگزین کی بزم ’’آپ کا صفحہ‘‘ کا حصّہ ضرور بنے گا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ بلاشبہ ہدایت و رہنمائی کا ایک بہتا دریا ہے۔ طاہر حبیب، منور راجپوت، رئوف ظفر اور طلعت عمران کا اندازِ بیان بھی بہت خُوب ہوتا ہے۔ اس بار ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں گولڑہ شریف کی مظلوم خاتون کی دُکھ بھری داستان پڑھ کر تو بہ خدا آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے اور آپ کے توسّط سے، ایک لکھاری، ’’چاچا چھکن‘‘ سے گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ خدارا اپنے اصل نام سے خط لکھا کریں۔ یہ چاچا چھکن تو بڑا ہی عجیب و غریب نام ہے اور ممکن ہو تو آصف علی زرداری کا ایک تفصیلی انٹرویو بھی سنڈے میگزین کی زینت بنائیں۔ (اسلم قریشی، ملیر، کراچی)

ج:اب یہ تو چاچا جی ہی کی مرضی ہے کہ اپنے اصل نام سے خط لکھیں یا کسی فرضی، قلمی نام سے۔ اس سلسلے میں ہم تو کچھ بھی نہیں کرسکتے۔

فرق صاف ظاہر ہے

اتنے کم صفحات پر اس قدر معیاری، معلوماتی تحریریں شایع کرنا بس جنگ، سنڈے میگزین ہی کا طرئہ امتیاز ہے۔ دیگر رسائل و جرائد سے موازنہ کروں تو فرق صاف محسوس ہوجاتا ہے۔ (شری مرلی چند جی، گوپی چند گھوکلیہ، شکارپور)

خاص خیال رکھیں!!

تازہ شمارہ لاجواب ہے، ہمیشہ کی طرح۔ ایک چھوٹی سی گزارش ہے۔ بعض اوقات کچھ صحابہ کرامؓ کے ناموں کے ساتھ رضی اللہ عنہ لکھنے سے رہ جاتا ہے، تو اس کا خاص خیال رکھا کریں۔ دیگر تجاویز بھی ہیں مثلاً ’’پاکستان کے تعلیمی نظام میں بہتری‘‘ کے موضوع پر ایک جامع تحریر لکھوائی جائے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا تفصیلی انٹرویو ہونا چاہیے۔ نَو مسلم افراد کے ایمان لانے کے پیچھے جو محرکات ہوتے ہیں، اُس حوالے سے اُن سے بات چیت کی جائے اور ڈاکٹر فرحت ہاشمی کا تفصیلاً انٹرویو ہونا چاہیے۔ (جنید نظامی، ملتان)

ج:’’پاکستان کے تعلیمی نظام میں بہتری‘‘ کے موضوع پر ایک نہیں، متعدد تحریرات شایع ہوچکی ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کا تفصیلی انٹرویو بھی میگزین کی زینت بن چُکا۔ رہی بات صحابہ کرامؓ کے ناموں کے ساتھ رضی اللہ عنہ نہ لکھنے کی، تو حتی الامکان کوشش تو یہی ہوتی ہے کہ نادانستہ بھی ایسی کوئی غلطی نہ ہو، لیکن بہرحال بندئہ بشر ہیں۔ آئندہ مزید احتیاط کی پوری کوشش کریں گے۔

ہُنر کا کام

اُمید ہے، آپ خوش باش، خیر خیریت سے ہوں گی، تبھی تو رسالہ ہر ہفتے اس قدر سجا سنورا اور وقت پہ مل جاتا ہے۔ میگزین میں اپنا خط پاکر بہت اچھا لگا کہ کبھی کبھی ذرا سی پزیرائی بھی دل بہت بڑا کردیتی ہے۔ اپنے چاروں بچّوں کو خط دِکھایا، تو حیران ہوتے رہے کہ آج کے دَور میں خط بھی شایع ہوتے ہیں کہ وہ تو آج کل کے ڈیجیٹل بچّے ہیں۔ ویسے اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ کے اس دَور میں آپ نے خط لکھنے کی روایت زندہ کر رکھی ہے، تو بڑی بات ہے۔ اس بار سرِورق پہ ’’بچّے، مَن کے سچّے‘‘ سج سنورکر، پھولوں کی طرح مُسکراتے نظر آئے، تو دیکھ کر طبیعت خوش ہوگئی۔ ویسے مجھے اپنا شایع شدہ خط پڑھ کر پتا چلا کہ ’’ایڈیٹنگ‘‘ بھی کس قدر ہُنر کا کام ہے۔ نجمی صاحب کو ان کی بہترین کاوشوں کا بدلہ اللہ تعالیٰ دے گا، ہم تو صرف دُعائیں ہی دے سکتے ہیں۔ اُن کے شان دار مضامین پڑھ کر اگر ہم لوگ خود کو تھوڑا بہت بھی سدھارلیں، سادہ سے، اچھے مسلمان بن جائیں، تو دنیا کس قدر خُوب صُورت ہوجائے۔ طاہر حبیب کا مضمون ’’شجر ہے شرط‘‘ کاش، سارا پاکستان پڑھے اور ہماری حکومت بھی ہوش کے ناخن لے۔ ویسے طاہر حبیب کتابوں پہ بھی دوٹوک تبصرہ کرتے ہیں۔ اس بار منور مرزا کا مضمون نہیں تھا۔ وہ تو بہت ہی شان دار لکھتے ہیں۔ رائو شاہد کا ’’شاپنگ آن لائن‘‘ بھی کافی معلوماتی تھا۔ کئی نئی باتوں کا علم ہوا۔ ’’26شامی روڈ‘‘ میں ایک پوتے کا اپنے دادا کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا نفیس انداز تو کمال ہی ہے۔ فاروق اقدس نے بھی فاٹا کے انضمام پر اچھا لکھا۔ اور ہاں، آخری صفحہ تو آپ کے کھٹّے میٹھے جوابات ہی کی وجہ سے زیادہ اچھا لگتا ہے۔ (رانی خاور میئو، لاہور)

ج:جی ہاں، بلاشبہ ایڈیٹنگ بہت ہُنر کا کام ہے اور خاص طور پر جب تحریر اس قدر گنجلک ہو کہ کہیں کومے، فُل اسٹاپ تک کی جگہ نہ چھوڑی جائے۔ صفحے کے آگے پیچھے، بغیر حاشیہ، سطر چھوڑے، الفاظ کو ایک دوسرے میں یوں مدغم کردیا جائے کہ جملوں کا تو دَم گھٹ ہی رہا ہو، انہیں دیکھ دیکھ کے، خود ہمارا بھی گُھٹنے لگے۔

25سے بڑھ کر 35روپے

تازہ سنڈے میگزین سامنے ہے۔ اس میں سیّد احمد شعیب نے کے الیکٹرک سے متعلق بہت عُمدہ تحریر لکھی، لیکن ٹی وی لائسینس فیس کا تذکرہ کرنا بھول گئے کہ جو اب 25 روپے سے بڑھا کر ماہانہ 35روپے کر دی گئی ہے۔ (مفتاح الحق انصاری، کراچی)

ج: چلیں، سیّد احمد شعیب کی کمی آپ نے جو پوری کر دی۔ تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی آ چُکی ہے، اب بھلا کہاں ممکن ہے کہ کوئی کسی کو معاف کر دے۔

کمی محسوس ہوگی!

چھوٹا سا جریدہ، ڈھیروں ڈھیر معلومات، ’’سنڈے میگزین‘‘ سامنے موجود ہے، سرورق پر نظر دوڑائی، تو جیسے پلکیں جھپکنا بھول گئی۔ اس بار بہت ہی پیاری ماڈل منتخب کی آپ نے۔ نجمی صاحب کے مضمون کا تو جواب ہی نہ تھا۔ رائو شاہد اقبال اور منور راجپوت کی تحریریں بھی سیدھی دل میں اترگئیں۔ ڈاکٹر قمر عباس کی تشریف آوری کے تو کیا ہی کہنے۔ پیارا گھر تو بہت ہی پیارا لگتا ہے اور ڈائجسٹ بھی کمال ہی ہوتا ہے۔ ’’سُرخاب‘‘ کی کمی اب بہت شدّت سے محسوس ہوگی اور آپ کا صفحہ کی تو بات ہی نرالی ہے۔ (عطیہ کنول، سکرنڈ)

ج: سُرخاب کا ایک جوڑا خریدکر پال کیوں نہیں لیتی۔ گھر میں رونق ہوگی،ایک جوڑے کا بھلا ہو جائے گا اور پھر صفحے کی کمی بھی محسوس نہیں ہوگی۔ کیسا ہے.....؟؟

بھیجتا رہوں، چھاپتی رہیں

مَیں کچھ دانش وَروں کے ’’اقوالِ زرّیں‘‘ ارسال کررہا ہوں، اُمید ہے انہیں ’’سنڈے میگزین‘‘ میں شامل کرلیا جائے گا۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ میں ہر ہفتے کچھ اقوالِ زرّیں یا کوئی تحریر سنڈے میگزین کے لیے بھیجتا رہوں اور آپ شایع کرتی رہیں۔ (عبدالعزیز بلوچ، اورنگی ٹائون، کراچی)

ج:ہر ہفتے تو خود ہماری تحریر کا شایع ہونا بھی ناممکن ہے۔ آپ نگارشات بھیجتے رہیں، جو قابلِ اشاعت ہوں گی، وقتاً فوقتاً شایع ہوتی رہیں گی۔

تاروں کے جُھرمٹ میں چاند

میگزین کے کچھ سلسلے تو ’’سدابہار‘‘ ہیں، جیسے ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ محمود میاں نجمی کی علم افروز تحریروں سے قارئین کی کثیر تعداد مستفید ہورہی ہے۔ عالمی اُفق، اشاعتِ خصوصی، ناقابلِ فراموش، نئی کتابیں بھی عُمدہ سلسلے ہیں۔ پیارا گھر، جہانِ دیگر، یادداشتیں، اِک رشتہ، اِک کہانی بھی پسند آتے ہیں اور ’’اسٹائل‘‘ کے صفحات تو گویا تاروں کے جُھرمٹ میں چاند جیسے ہیں۔ اور، ’’آپ کا صفحہ‘‘ کے بغیر تو میگزین ہی ادھورا ہے۔ ایک ایک خط بغور پڑھتی ہوں۔ (ممتاز سلطانہ، پولیس لائن، حیدرآباد)

ج:بغور پڑھتی ہیں تو پھر اچھے خطوط کے طرزِ تحریر کو فالو بھی کیا کریں۔

دیگر صفحات پر لکھیں

سنڈے میگزین کو کچھ بہتر بنائیں،اس میں سے فضول چیزیں نکالیں۔ آخر یہ خواتین کی ماڈلنگ کیوں شایع ہوتی ہے۔ ان صفحات کا کیا فائدہ ہے؟ اور آپ صرف ’’اسٹائل‘‘ کی تحریر ہی کیوں لکھتی ہیں کچھ اور کیوں نہیں لکھتیں، دیگر صفحات پر بھی لکھا کریں۔ (نواب زادہ خادم ملک، سعید آباد، کراچی)

ج:ارے، دشمنِ عقل نواب زادہ صاحب! یہ پورا سنڈے میگزین ہماری ہی ادارت میں شایع ہوتا ہے۔ اس کی اِک اِک سطر، ایک ایک لفظ ہمارے ہاتھوں سے ہو کے گزرتا ہے۔ بنیادی طور پر ہمارا کام سنڈے میگزین کی ایڈیٹرشپ ہی ہے۔ یہ جو ’’اسٹائل‘‘ کے صفحات پر ہم چند سطریں گھسیٹتے ہیں، وہ تو یونہی منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے ہوتی ہیں۔ وگرنہ جو ہمارا کام ہے، وہ ہم کس حُسن و خوبی کے ساتھ کررہے ہیں، ہم سے کام لینے والے بہ خوبی جانتے ہیں۔

اس قدر تمازت تھی

شاعر نے مزاجِ یار کو بدلتی رُت سے کیا خُوب تشبیہ دی ہے ؎ آتے جاتے سارے موسم اُس سے نسبت رکھتےہیں، اسی طرح جنگ، سنڈےمیگزین کا سرِورق جہاں بدلتے موسموں کا نقیب ہے، تو وہیں حُسن و آرایش اور زیبایش کا مظہر بھی۔ بلاشبہ، ٹائٹل، میگزین کا پہلا ر ُ خِ جمال ہے۔ ’’دھوپ شبنمی، ہر سُو منظر دھانی ہے‘‘(گزشتہ شمارہ) اور پھر ’’دھوپ آئے، تو سہانی آئے‘‘ جیسی شہ سُرخیاں، موسمِ گرما کی دھوپ انگیزی کی خبردیتی ہیں۔ آغازِ مطالعہ صفحہ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ سے کیا۔ دَورِ خلافت راشدہؓکی یاد تازہ کرنے والے اموی خلیفہ، حضرت عُمر بن عبدالعزیز ؒ کے ایمان افروز حالاتِ زندگی کا حصّہ اوّل پڑھا۔ اللہ تعالیٰ دورِ حاضر کے حکمرانوں اور مُنصفین کو بھی ان کی تقلید و پیروی کی توفیق دے۔ منور راجپوت بلاشبہ آپ کی لکھاری ٹیم کے قابلِ فخر پُوت ہیں۔ ’’فیچر‘‘ میں شہرِ قائد کی دو عظیم یادگاروں، خالق دِینا ہال اور ڈینسو ہال کی علمی و ثقافتی تاریخ کو انہوں نے الفاظ کی لڑی میں بہ طریقِ احسن پرویا، ممکن ہو تو کبھی محکمہ ریلوے کی تاریخی عمارات کی بھی سیر کروادیں۔ مَردوں کے معاشرے میں ظالم مرد جُرم کرکے بھی آزاد ہیں اور درجن بھر خنجر کے وار کھانے والی خاتون انصاف سے محروم۔ ’’جنسی ہراسانی اور خواتین کے قتل‘‘ پر مضمون شایع کرکےآپ نےبہرطور اپنی آواز اربابِ اختیار تک پہنچادی ہے۔ مرکزی صفحات میں حُسن و روپ کی دھوپ میں اس قدر تمازت تھی کہ ہم نےآنکھیں موندے آگے بڑھنے ہی میں عافیت جانی۔ صفحہ یادداشتیں نے عبداللہ حسین کی افسانوی یادوں کو تازہ کردیا، تو پیارا گھر میں شام کی چائے پر بلانے کا شکریہ۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی بزم مرلی جی کی شُرلی (مختصر ترین چٹھی)، عطیہ کےکمال، پرنس کی حُسن پرستی، برقی کے عرفان، ماسٹر آف کیوں (خادم ملک) اور پروفیسر حمیدی کے گنجلک للک ناموں سے آراستہ تھی، جب کہ مصباح کا تھری اِن ون اعزازی لیٹر اِن دی سینٹر تھا۔ اور ہاں، بقرعید پر اگر بکروں کی شان میں کچھ مزاحیہ شاعری کا اہتمام ہوجائے، تو مزۂ عید دوبالا ہوجائے۔ (محمدسلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)

ج: کیوں بکرےکھا کھا کے ’’رَج‘‘ نہیں ہوا کہ بکروں پہ مزاحیہ شاعری بھی چاہیے۔

نادر تصاویر کا کیا کہنا

’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی نے حضرت عُمر بن عبدالعزیز ؒ پر کیا خُوب صُورت مضمون تحریرکیاکہ پڑھ کر دل خُوش ہوگیا۔ اشاعتِ خصوصی میں فاروق اقدس کا مضمون ’’سوشل میڈیا کا موثر استعمال‘‘ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ منور راجپوت کا فیچر ’’دو تاریخی ہال‘‘ بھی بہت ہی پسند آیا اور نادر تصاویر کا تو کیا ہی کہنا۔ نیز، ’’خانوادے‘‘میں ڈاکٹر قمر عباس کی تحریر ’’مخزن کا گھرانہ‘‘ بھی پڑھنے سےتعلق رکھتی تھی۔ (سکینہ بانو ، واہ کینٹ)

                                                                                             فی امان اللہ

                          اس ہفتے کی چٹھی

گزری ہوئی عید مبارک ہو، بلکہ آنے والی عید بھی مبارک کہ جب تک یہ تحریر شایع ہوگی، بڑی عید بھی آکے، جا بھی چُکی ہوگی۔ اس دفعہ مَیں عیدالفطر اور فادرز ڈے کے لیے پیغام نہ بھیج سکی، جس کا بے حد افسوس ہے۔ کیوں کہ ایک پیغام ہی تو ہوتا ہے، جو لازماً شایع ہوجاتا ہے۔ اس بار تقریباً آخری تاریخ کو گرتا پڑتا میگزین ہمارے ہاتھ آیا، تو سخت افسوس ہوا کہ اُس روز پیغام بھیجنے کی آخری تاریخ تھی۔ بہرحال، چلیں سب سے پہلے تو ڈرائنگ روم (آپ کا صفحہ) میں بیٹھ کر گپ شپ لگاتے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی کراچی سے سات آٹھ افراد شریکِ محفل تھے۔ پتا ہے نرجس جی، جب بھی ہم، کراچی والوں کے زیادہ خطوط دیکھتے ہیں، تو یہ دل پاگل کہتا ہے کہ اے کاش! ہم بھی اس دور افتادہ گائوں کے بجائے کسی اورنگی، کورنگی ہی کے رہایشی ہوتے، تو کم ازکم ہمارے خطوط تو جلدی آپ کے پاس پہنچ جاتے۔ صبیحہ عمّاد کی والدہ کے لیے ہم نے خصوصی دُعا کی۔ اللہ تعالیٰ سب مائوں کو سلامت رکھے۔ مسندِ اعلیٰ کی راج دھانی پرتو سلیم راجہ نے بڑے لمبے عرصے سے بہ زورِ قلم قبضہ کررکھا ہے۔ اب تو ہم نے اپنی دانست میں ’’اس ہفتے کی چٹھی‘‘ کا نام ’’سلیم کی گلی‘‘ رکھ چھوڑا ہے۔ لگتا ہے اس سال کسی اور کی دال نہیں گلنے والی۔ کیوں بھئی، ناک بھوں کیوں چڑھائی۔ کہیں جلنے ولنے کی بُو تو نہیں محسوس ہوئی۔ ارے، ہم کچن میں بیٹھے خط لکھ رہے ہیں اور یہ ’’پیاز جلنے کی بُو ہے‘‘۔ ناقابلِ فراموش میں جمیلہ خاتون کی کہانی تو سو فی صد ناقابلِ فراموش تھی۔ اکیلے بچّوں کی پرورش کرنا واقعی بڑے دل، گُردے کا کام ہے۔ سبیتا مشتاق سے بذریعہ (متفرق) ہاتھ ملاکر اور یہ کہہ کر ’’پھر تفصیل سے بات کرتے ہیں‘‘ آگے بڑھ گئے۔ ڈائجسٹ میں ’’مائے نی میں کِنّوں  آکھاں‘‘ پڑھ کر بہت ندامت ہوئی کہ ہم بیٹیاں پتا نہیں کیوں ہر وقت مائوں سے شاکی ہی رہتی ہیں، جب کہ مائیں سب شکوے شکایات سُن کر بھی ہمارے لیے سدا دُعاگو ہی رہتی ہیں۔ بہرحال، دل سے توبہ کرلی ہے کہ اب ماں جی کو کبھی تنگ نہیں کروں گی۔ پیارے گھر تک پہنچتے پہنچتے تو مَیں اچھی خاصی تھک چُکی تھی۔ سو، آرام سے کُرسی کھینچ کر براجمان ہوگئی۔ ابھی بیٹھے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ دل، پیارے وطن کی سیر کو بےتاب ہوگیا۔ یہ سیر زیادہ طویل تو نہیں تھی، لیکن بہ خُدا بڑا لُطف آیا۔ اس کے بعد ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ پھلانگ کر ’’اسٹائل‘‘ تک آگئی اور بڑے اسٹائل سے سُریلی آواز میں ’’تیرے مست مست دو نین‘‘ گُنگنانے لگی کہ ماں جی کی پاٹ دار آواز سنائی دی ’’ارے! یہ لڑکی اس کم بخت میگزین سے کون سا خزانہ ڈھونڈ رہی ہے۔ اس سے کہو، اُٹھ کے لسّی بنائے۔‘‘ ماں جی کی پھٹکار سُنتے ہی تھوڑی دیر پہلے کے کیے سب عہد و پیماں جیسے بھول سے گئے۔ فوراً آنکھوں میں نمی بھر آئی۔ جی ہی جی میں بڑبڑانے لگی کہ ’’امّاں! آخر آپ کو اتنی ساری لڑکیوں (پانچ بہنوں) میں ایک یہی لڑکی کیوں نظر آتی ہے؟ ایک تو یہ بوڑھی دادیوں والا کام سونپا ہوا ہے، لسّی بنانا… اوپر سے ہر وقت ڈانٹتی رہتی ہیں۔ بس ایک میں ہی سُست اور کاہل ہوں، اللہ کرے میں مرجائوں‘‘۔ چلیں نرجس جی! اب آپ کو میرے خط کا جیسے بھی کچومر، چٹنی بنانی ہے، بنائیں کہ مَیں تو پھر لسّی بنانے جارہی ہوں۔ اور ہاں، آخر میں ایک بات اور، یہ کراچی والے کچھ زیادہ ہی نازک مزاج نہیں ہیں، جو پِن نہ لگانے کی شکایت بھی ایڈیٹر سے کرتے ہیں۔ آپ پلیز، پِن ہرگز نہ لگایا کریں کہ ہم سب بہنیں ایک ایک صفحہ بانٹ کر پڑھتی ہیں۔ جس کو شوق ہے، وہ خود اپنے میگزین میں پِن لگالیا کرے، یہ کوئی مشکل کام تھوڑی ہے۔ اس سے پہلے کہ آپ کہہ دیں ’’ارےلڑکی! خدا کے لیے اب چلی بھی جائو، کس قدر بولتی ہو تم۔ ہم خود ہی چل دیتے ہیں۔ اللہ حافظ۔ (اسماء خان د مڑ، سنجاوی، بلوچستان)

ج:ہاہاہا… اسماء!تم اورنگی، کورنگی میں آبسویا سنجاوی میں رہو، ہمارے دل سے بالکل بھی دُور نہیں ہو۔ اور یہ امّیوں کی باتوں کا بُرا ماننا ہم بیٹیاں پتا نہیں کب چھوڑیں گی۔ ہماری تو دادی ماں کہتی تھیں ’’ماں، پیو دی گالاں، کیہو، شَکر دیاں نالاں‘‘(ماں باپ کی گالیاں، جیسےگھی، شکر کی نالیاں) تو مائیں تو بس ایسے ہی بیٹیوں کو تھوڑا سخت جان، کمپرومائزنگ دیکھنے کے لیے محض اس نیّت سے کہ بہرحال ہیں تو پرایا دَھن، اِک نہ اِک دن سُسرال تو جانا ہوگا، اُن کی اچھی تربیت کی خاطر کچھ سخت سُست کہہ لیتی ہیں، وگرنہ تو اُن سے زیادہ کوئی بیٹیوں کے قریب ہوسکتا ہے، اور نہ ہی مخلص۔ اور بھئی، آج تو ’’سلیم کی گلی‘‘، ’’اسماء کی چوپال‘‘ میں بدل گئی۔

                             گوشہ برقی خُطوط

٭ آج سے دو برس قبل ایک ای میل بھیجی تھی، جو قریباً چھے ماہ کے انتظار کے بعد شایع ہوئی۔ اب اس میل کا بھی اللہ ہی مالک ہے۔ ویسے ان دو سالوں میں آپ کے میگزین نے کوئی خاص ترقی نہیں کی۔ کسی بوسیدہ عمارت ہی کا منظر پیش کرتا نظر آتا ہے۔ جا بہ جا اشتہارات کے جالے لگے ہوتے ہیں۔ ایک پِن تک سے شمارے کو جوڑنے کی زحمت نہیں کی جاتی۔ ہاتھ میں پکڑتے ہی تمام صفحات کسی پرانی البم کے اوراق کی طرح پھڑپھڑانے لگتے ہیں۔ امید ہے، کبھی نہ کبھی اس سیلن زدہ عمارت سے بھی کسی اچھی خوشبو کے جھونکے ضرور آئیں گے۔ (اقصیٰ فاطمہ خان، نواب شاہ، سندھ)

ج: ہاہاہا.....اقصیٰ!اتنی جَلی بُھنی کیوں بیٹھی ہو؟ لگتا ہے، سندھ حکومت کی ’’شان دار پرفارمینس‘‘ نے تمہارے نازک احساسات کو کچھ ٹھیس پہنچائی ہے۔ سُنا تو یہ ہے کہ پیپلزپارٹی نے اندرونِ سندھ بڑا کام کروایا ہے، تمہارے علاقے میں نہیں ہوا کیا؟ یہ تم نے بوسیدہ، سیلن زدہ، جالے والے سب کہاں اِک بے چارے ’’سنڈے میگزین‘‘ سے منسوب کردیئے۔ ہم تو اکثر و بیش تر چنبیلی، موتیے، گلاب، رات کی رانی سے کئی مضامین شاملِ اشاعت کرتے رہتے ہیں۔ اگر خوشبو آتی محسوس نہیں ہوتی، تو چلو، کم از کم آج اپنی میل دیکھ کر تو ضرور آئے گی۔

٭ مجھے سنڈے میگزین بہت پسند ہے۔ اللہ سے دُعاگو ہوں، یہ اسی طرح دن دونی رات چوگنی ترقی کرتا رہے۔ (مسفرہ رانا، فیصل آباد)

٭ مجھے میگزین اس بار، ہر دفعہ سے کہیں زیادہ پسند آیا۔ ارفع کریم رندھاوا کی برسی پر اس سے متعلق کوئی تحریر ضرور شایع کیا کریں۔ (مہک کامران، کراچی)

ج: ان شاء اللہ تعالیٰ پوری کوشش کریں گے۔

٭ کتابوں پر تبصرے عموماً پسند آتے ہیں۔ خاصے غیرجانب دارانہ ہوتے ہیں۔ ایک درخواست ہے کہ کتاب ملنے کا پتا تفصیلاً لکھا کریں۔ محض ناشر کا نام لکھ دینے سے بات نہیں بنتی۔ کوئی شخص تبصرہ پڑھ کر اگر کوئی کتاب خریدنا چاہے، تو پریشان ہی رہتا ہے کہ اِسے حاصل کہاں سے اور کیسے کرے۔ (عقیل احمد)

ج: ہمیں تبصرے کے لیے جو کُتب بھیجی جاتی ہیں۔ وہ عموماً بہ ذریعہ ڈاک آتی ہیں۔ اب ملنے والی کتب پر، کتاب سے متعلق جو بھی تفصیل درج ہوتی ہے، بعینہ شایع کردی جاتی ہے۔ کبھی کتاب پر ’’ملنے کا پتا‘‘ میں صرف ناشر ہی کا نام لکھا ہوتا ہے، تو مجبوراً ہمیں بھی وہی شایع کرنا پڑتا ہے۔

تازہ ترین